آج ۱۴ ؍ اگست ۱۸۹۹
" پیر و میرؔ " ، اردو و فارسی زبان پر عبور حاصل اور معروف شاعر” شادؔ لکھنوی“ کا یومِ وفات…
نام شیخ محمد جان، تخلص شادؔ۔ تقریباً ۶۔۱۸۰۵ء میں پیدا ہوئے۔ وطن لکھنؤ تھا۔ شاد فارسی میں مرزا علی اکبر شیرازی اور اردو میں میر حسن عسکری عرفیت میر کلو عرش(فرزند میرتقی میؔر ) کے شاگرد تھے۔ شادؔ نے جب ان کی شاگردی اختیار کی تو انھوں نے شاد کو ’’پیرو میر‘‘ کا لقب عطا کیا۔ شادؔ کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا۔ تمام عمر شادی نہیں کی۔ ریاست محمودآباد سے ایک رقم ان کے لیے بطور وظیفہ بغیر کوئی خدمت انجام دیے مقرر تھی۔ ضعیفی میں رعشہ کی وجہ سے لکھنے سے معذور ہوگئے تھے۔ آخر عمر میں کربلائے معلیٰ کی زیارت کی۔
۱۴؍اگست ۱۸۹۹ء کو لکھنؤ میں انتقال ہوا۔ شادؔ ایک پرگو شاعر تھے۔ ’ دیوانِ شادؔ لکھنوی‘ مرتبہ شیخ حامد حسن، ۱۹۷۰ء میں لاہور سے شائع ہوگیا ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:168▔▔▔▔▔▔☆※
معروف شاعر شادؔ لکھنؤی کے یومِ وفات پر منتخب بطورِ خراجِ عقیدت…
اے بد گماں ترا ہے گماں اور کی طرف
میرا ترے سوا نہیں دھیاں اور کی طرف
—
جامِ کوثر کی جو خواہش ہے دمِ بادہ کشی
بزمِ رندان قدحِ نوش میں آ اے واعظ
—
جوانی سے زیادہ وقت پیری جوش ہوتا ہے
بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے
—
وصالِ یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
—
تصویر مری ہے عکس ترا تو اور نہیں میں اور نہیں
کر غور تو اپنے دل میں ذرا تو اور نہیں میں اور نہیں
—
مرا ترا کی طرح شادؔ یہ بھی ایطا ہے
یہ قافیہ نہ نہیں سے چلے نہ ہاں سے چلے
—
دیکھ کر روئے صنم کو نہ بہل جاؤں گا
مرتے دم لے کے سنبھالا تو سنبھل جاؤں گا
—
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
—
مشکل میں کب کسی کا کوئی آشنا ہوا
تلوار جب گلے سے ملی سر جدا ہوا
—
اب شادؔ غزل اور کہو قیدِ روی میں
اس کے تو سب ابیات میں ایطائے جلی ہے
—
وصل میں بیکار ہے منہ پر نقاب
شرم کا آنکھوں پہ پردہ چاہئے
—
ہم نہ بگڑیں گے اگر چشمِ نمائی ہوگی
پھر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی
—
وہ نہا کر زُلفِ پیچاں کو جو بکھرانے لگے
حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے
—
صحبتِ وصل ہے مسدود ہیں در ہائے حجاب
نہیں معلوم یہ کس آہ سے شرم آتی ہے
—
مری بے رشتہ دلی سے اسے مزہ مل جائے
جگر کباب جو کوئی جلا بھنا مل جائے
—
پانی پانی ہو خجالت سے ہر اک چشمِ حباب
جو مقابل ہو مری اشک بھری آنکھوں سے
—
لب بہ لب نبت العنب ہر دم رہے
دور دور جام مے جم جم رہے
—
لب جاں بخش پر جو نالہ ہے
اب مسیحا بھی مرنے والا ہے
شادؔ لکھنوی