کوشش تو رہے گی کہ زبان ازحد پارلیمانی رہے لیکن موضوع بہرحال ایسا ہے کہ یہ پوسٹ بالغان کے لئے پڑھنا ہی مُناسب رہے گا ۔ پہلے دو چھوٹی چھوٹی پوسٹس میں گُناہ ، جُرم اور سیکس سے متعلقہ معاشرتی و سماجی سوچ کے بارے میں بات کی تھی ؛ آئیں کوشش کرتے ہیں اِس ضمن میں تفصیلی بات کی جائے ۔ آگے چلنے سے پہلے ایک گُزارش دست بدستہ عرض کرتا چلوں کہ ایک زمانہ ہُوا ناچیز معاملات کو حقائق کی عینک سے دیکھنے کا عادی ہو چُکا ہے اور مذہبی عقائد یا نُکتہ نظر کو نہایت انفرادی سطح تک محدود رکھنے اور دیکھنے کا بھی مسئلہ یا بیماری درپیش ہے ؛ لہٰذا رائے اور بات چِیت کو تعصب اور نیتو میٹر کی عینک لگا کر دیکھنے سے گُریز فرمائیں ، نہیں بھی گُریز کریں گے تو مُجھے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔
سیکس کیا ہے ؟ جِنسی رغبت کی بات کر رہا ہُوں ۔ جِنسی رغبت ہر بالغ مرد و عورت بلکہ بلوغت کے مدارج طے کرتے ہر نوجوان بچے و بچی میں موجود ہوتی ہے ۔ اِنسان کی فطرت میں تجسس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ لالچ اور ہل مَن مزید کی خواہش بھی ۔ اِنسان کبھی بھی سیکس سے مکمل سیٹسفائی نہیں ہوتا ، اُسے نئے سے نئے رِشتے اور تعلقات بنانے کا ٹھرک رِہتا ہے ۔ اِس میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں البتہ یہ کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ اُصول بھی نہیں ۔ ساری رام لیلہ کہنے کا مطلب یہی تھا کہ یہ سب بُہت فطری سی باتیں ہیں ، اِنسان کی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت بھی ۔ اب دیکھیں ہمارا معاشرہ اِس کا حل کیا نِکالتا ہے یا پیش کرتا ہے ؟
“ او جی بچے بلوغت کی عُمر کو پُہنچیں تو اُن کی شادی کر دِی جائے ۔ “
او اللہ کے بندو ! کوئی عقل کو آواز دو کہ یہ اوّل تو مُمکن نہیں کیونکہ ایسے جوڑے والدین کے مُحتاج ہوتے ہیں ، اپنے فیصلے ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتے ، میچور نہیں ہوتے اور اِسی طرح کے کئی مسائل ہیں جو گِنوائے نہیں جاسکتے ۔ پھر کیا کِیا جائے ؟ کیا بچوں کو شُتر بے مہار کی طرح مَن مانی کرنے کی آزادی دے دِی جائے ؟ کیا اُن کو اعتماد دِیا جائے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ، آپ پر اعتماد کرتے ہیں اور اگر آپ کبھی غلطی بھی کر بیٹھیں گے تو بھی ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔
معاملات اِتنے آسان اور سادہ بہرحال نہیں ہیں جِتنا ہمیں نظر آتے ہیں ۔ اے کاش کہ ہوتے آسان اور کوئی سیدھا سادا سا حل کوئی نہ کوئی پیش کرتا اور اللہ اللہ خیر صلا لیکن ہائے افسوس کہ ایسا ہے جو نہیں ۔ آپ ہمارے برِصغیری معاشرے کی سوچ کو سمجھئیے جہاں سیکس محض سیکس نہیں بلکہ فاعل یا مفعول کی طرح کا کانسیپٹ ہے یا فاتح اور مفتوح کی طرح کہہ لیں ۔ اب بات بُہت تلخ سہی لیکن سُنئیے تو ! مُہذب ممالک و معاشروں میں بھی پیڈوفائیل یا بچوں کے ساتھ جِنسی جَرائم میں افراد ملوث ہوتے ہیں لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی محفل میں بیٹھ کر یا کہیں فخریہ انداز میں اِس بات کا ذِکر کرے کہ اُس نے یہ کارنامہ کِیا ہے لیکن اِدھر اپنے ہاں کیا ہوتا ہے ؟ گندی ذہنیت کے بڑے یا بالغ افراد جب معصوم بچوں یا کم سِن کے ساتھ ایسے قبیح جِنسی افعال کے بعد بڑے فخر سے یاروں دوستوں میں بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے فلاں اِبنِ فلاں کے ساتھ یہ کِیا اور ایسے بچے ساری عُمر یا عُمر کے ایک بڑے حِصے تک نفسیاتی مسائل کا شِکار رہتے ہیں یا ممکنہ طور پر شِکار بن سکتے ہیں ۔ والدین بھی بچے کی عِزت بچانے کے لئے کیس کرنے سے عُموماً گُریز کرتے ہیں ۔ واضح رہے میں یہاں کِسی فیمل چائلڈ کی نہیں بلکہ میل چائلڈ وِکٹم کی بات کر رہا ہُوں کہ عِزت کا تصور ہمارے معاشرے میں کیسے اور غلط طور پر زیرِ ناف مقامات سے نتھی ہے ۔
آگے چلیں ، اِس سو کالڈ پوتر و پاک معاشرے میں مساجد سے لے کر مدارس تک ، مدارس سے سکولز تک بچوں کو ہر جگہ کہیں نہ کہیں جِنسی ہراسمینٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہم اِس معاملے میں بھی منقسم رائے کے حامِل ہیں ، کہیں لبرل مولوی طبقے کو ذلیل کر کے خاموش ہوجاتا ہے تو کہیں مولوی طبقہ لبرل طبقے کو جلا کُٹا سُنا کر چُپ ہوجاتا ہے لیکن رائے یکساں نہیں ہو پا رہی کہ کیسے اِس کا سدِباب کِیا جائے ۔ سیکس ایجوکیشن کی بات کریں تو کوئی نہ مقبول جان ، کوئی عباسی یا کوئی سو کالڈ پڑھا دانشور اپنی سائیڈ کی گھسی پٹی جہالت لے کر آگے آ جائے گا کہ یہ تو بھئی معاشرے کے خِلاف بات ہے ۔
ابے کون سا معاشرہ ؟ جہاں چائلڈ لیبر و بچوں سے بھیک منگوانا عام ہے اور چائلڈ لیبر یا بِھکاری گروہوں میں پھنسے بچے ریسٹورینٹس ( ٹرک ہوٹلز ) ، گاڑی کے مکینیکل ورکشاپس وغیرہ میں جِنسی تشدد کا نِشانہ بنتے ہیں لیکن ہم اِس پر مُنہ چُھپائے بیٹھے ہیں ۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک بھیانک رُخ ہے جو پتہ سب کو ہے لیکن کرتا کوئی کُچھ بھی نہیں ۔ اِس ضمن میں آپ کو ساحل اور دائرہ کی رپورٹس تو مِلیں گی لیکن سرکاری سطح پر کیا چل رہا ہے سرکار جانے یا فیر اللہ پاک جانے ۔
مزید آگے چلتے ہیں ۔ پاکستان میں ہر وُہ لڑکا یا مرد جو یہاں سوشل میڈیا پر نیک چلنی کی باتیں کرتا ہو ، جو کہیں اپنی باتوں میں قُرآنِ پاک کے حوالے دیتا ہو ، کوئی ایسا جو بڑا ہی اِسلام کا داعی ہو ، کیا اُسے لڑکی کے ساتھ کا یا سیکس کا شوق نہیں یا کیا وُہ “ موقع اور جگہ “ مِلنے پر “ زنا بالرضا “ تو چھوڑیں شاید “ زنا بالجبر “ بھی نہیں کر گُزرے گا ؟ دُوسری طرف کی جِنس کا بھی یہی حال ہے ۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حاجی ثنا اللہ یا حاجن اللہ رکھی یہاں کوئی نہیں اور بقول ایک اُردو محاورے کے “ زید اگر گندم کھاتا ہے تو شوق بھی کرتا ہوگا “ کے مصداق آپ کے معاشرے میں سیکس موجود ہے اور شدید طور موجود ہے ۔ یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے تھا ، ہے اور رہے گا ، اب صرف ذرائع مواصلات زیادہ ہونے کی وجہ سے باتیں زیادہ کُھلنے لگی ہیں ورنہ
“ ہوائیں تو پہلے بھی چلتی تھیں ویسے ، بھنورے پہلے بھی کلیوں کو پُھول بناتے تھے اور کلیاں بھی ادھ کِھلی مُرجھایا کرتی تھیں ۔ “
اللہ معاف کرے ہماری زبان کے استعارے بھی کیسے شرارتی سے ہیں ۔
یار دوست کہتے ہیں بات کوئی بھی ہو اُس کا تعلق ہم ایسے مذہب سے جوڑ لیتے ہیں بھئی دیکھیں بظاہر تو آپ بات دُرست سی لگتی ہے لیکن کیا کریں کہ وطنِ عزیز میں ہر معاملہ کہیں نہ کہیں اِسی سے جُڑا ہے تو پھر بات تو کرنی پڑے گی ناں سرکار !
دو بالغ افراد نے آپس میں “ زنا بالرضا “ کِیا ( صدقے جاؤں اُردو کی وسعت پر جِس کے پاس الفاظ کی کوئی “ کمی “ نہیں ) اب ریاست مُصر ہے کہ اُن کو سزا دینی ہے اور کیوں مُصر ہے ؟ او جی اِسلام میں سزائیں مقرر ہیں ۔ سزا کا حوالہ سُورہ المائدہ کی آیت سے دِیا جاتا ہے جو دراصل کُچھ اِس سیاق و سباق سے متعلقہ ہیں ۔
مدینہ میں یہودیوں کے دو قبائل بنو نضیر اور بنو قریظہ کے افراد آپس میں لڑتے رہتے تھے اور ایک دوسرے کو قتل بھی کر دِیا کرتے تھے ، بنو نضیر قبیلہ بنو قریظہ کے برعکس طاقتور اور مالدار قبیلہ تھا اگر قریظہ کا کوئی فرد بنو نضیر کا قتل کر دیتے تھے تو یہ جواب میں ان کا بندہ بھی قتل کرتے تھے اور دیت کی رقم بھی ڈبل وصول کرتے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایسے ہی ایک جھگڑے میں بنو نضیر نے بنو قریظہ سے دوگنی رقم کا مطالبہ کیا جس پر وہ یہ مقدمہ آپ کے پاس لے آئے ، اس موقع پر آیات مُبارکہ ( سورۃ المائدہ 44-41) نازل ہوئیں جِن میں سے ایک آیت میں قصاص میں برابری کا حکم دیا گیا ، اِن آیاتِ مُبارکہ کے شانِ نزول کا دُوسرا واقعہ ( سیاق و سباق ) یہ ہے کہ توریت میں شادی شُدہ زانیوں کے لئے رجم کی سزا بیان ہُوئی تھی جو اب بھی موجود ہے لیکن اس سزا سے بچنے کے لئے رد و بدل کر کے زانیوں کو کوڑے مارنے اور منہ کالا کرنے کی سزا کر دی گئی تھی ، اب دو شادی شُدہ یہودی (مرد اور عورت) کا مقدمہ لے کر یہودی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے پاس فیصلہ کرانے آئے کہ غالباً اِس سوچ کے تحت کہ اگر ہمارے “ ایجاد “ کردہ طریقہ کے مطابق کوڑے مارنے اور منہ کالا کرنے کی سزا دِی جائے گی تو مان لیں گے اور اگر رجم کا فیصلہ دِیا تو نہیں مانیں گے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودی نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان سے پوچھا کہ توریت میں رجم کی بابت کیا حُکم / سزا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ توریت میں زنا کی سزا کوڑے مارنا اور رسوا کرنا ہے ۔
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ( جو کہ یہودی عالم تھے اور اسلام لا چکے تھے وہاں موجود تھے) نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو توریت میں رجم کا حکم موجود ہے ، جاؤ توریت لاؤ ، توریت لائی گئی اور وُہ پڑھنے لگے تو آیتِ رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے کی آیات پڑھنے لگے ، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا ہاتھ اٹھاؤ ، ہاتھ اٹھایا تو وہاں پر آیتِ رجم تھی ، چنانچہ دونوں زانیوں کو ان کے مذہبی قانون کے مطابق سنگسار کر دیا گیا ۔ ( ملاحظہ ہو صحیحین اور دیگر کتب حدیث) قصاص سے مطالق روایت مسند احمد میں ہے جس کی سند کو شیخ احمد شاکر نے صحیح کہا ہے ۔ مسند احمد جلد ١ ص ٢٤٦ حدیث نمبر ٢٢١٢ ابنِ کثیر فرماتے ہیں کہ ممکن ہے دونوں سبب ایک ہی وقت میں جمع ہو گئے ہوں اور ان سب کے لیے ان آیات کا نزول ہوا ہو ۔ سورۃ المائدہ آیت 45 کا ترجمہ یوں ہے کہ “ اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ توریت میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے ۔ پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے ، اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں ۔ “
یہی وہ آیات ہیں جس پر ہمارا (مسلمانوں) کا قصاص و دیت اور رجم کا قانون کھڑا ہے۔ جبکہ قرآنِ پاک صاف صاف بیان کر رہا ہے کہ یہ توریت کے احکامات تھے جو یہودیوں کے لیے تھے ، توریت کے بعد انجیل کا نزول ہُوا اور پھر قرآنِ مجید کے نزول کے بعد توریت و انجیل اور دیگر آسمانی صحائف پر عمل منسوخ ہوگیا اور ہدایت و نجات کا واحد ذریعہ قرآن قرار پایا اور اسی پر اللہ پاک نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا. اور اس واقعہ کے بعد آیت نمبر 48 میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو حکم فرما دیا کہ “ اس لئے آپ ان کے (یہودیوں) آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب (قرآن) کے ساتھ حکم کیجیے “
اب بغور سوچا اور سمجھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قصاص و دیت و رجم وغیرہ کی سزائیں توریت میں تھیں جِن کا ذکر قرآنِ پاک کر رہا ہے نہ کہ یہ سزائیں اسلام کا حصہ ہیں ، نہ ہی مسلمانوں کو ان سزاؤں پر شریعت اسلامی کے تحت عمل کرنے کی ہدایت دی گئی ، بلکہ تاریخ اسلامی میں درج ہے کہ جھگڑے میں کسی شخص کی آنکھ ضائع ہو گئی جس پر آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے بدلے میں رقم (ارش) دلوانے کا فیصلہ فرمایا اگر آیت نمبر 45 مسلمانوں کے لئے ہوتی تو حضور صل اللہ علیہ والہ و سلم لازماً قصاص کے طور پر آنکھ کے بدلے آنکھ کا فیصلہ فرماتے ، قرآنِ پاک نے پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے تو قصاص و دیت و رجم کی سزائیں بھی منسوخ سمجھی جانیں چاہئیے ۔ فتح الباری و نیل الاوطار وغیرہ ان سزاؤں کو اسلامی سزائیں سمجھنے پر مصر ہیں ، جبکہ سورۃ المائدہ کی آیات 48 – 45 اس کے برخلاف بیان کرتی ہیں ، واللہ عالم بصواب ۔ ویسے آنکھ کے بدلے آنکھ وغیرہ کا قانُون توریت سے بھی صدیوں پہلے “ کوڈ اوو حمورابی “ میں موجود ہے جو اِنسان کا پہلا تحریری آئین مانا جاتا ہے ۔
سرکار بات بُہت طویل ہوتی جا رہی ہے اور موضوع ایسا ہے کہ حق پھر بھی ادا نہیں ہُوا بہرحال اِس کو سمیٹتے ہیں ۔ غالباً جوش صاحب سے کِسی نے پُوچھا کہ اِسلام میں زنا کی سزا کیا ہے تو وُہ بولے کوئی سزا نہیں ، پھر چار گواہوں کی بابت بات چلی تو کہا یہ تو بے وقوفی کی سزا ہے ۔ کہیں نہ کہیں بہرحال “ زنا بالرضا “ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور موجود ہے ۔
مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہمارا نظامِ ریاست بھی عجب پیچیدہ ہے جہاں ایک بچے کو پیدا ہونے سے لے کر اپنے مرنے تک ہر جگہ “ والد کا نام “ لِکھنا اور دینا پڑتا ہے ۔ گو میری ناقص سمجھ سے بالاتر ہے کہ مثال کے طور پر برطانیہ میں اگر چائلڈ سرٹیفیکیٹ پر باپ کا نام ماں نہ بھی لِکھوائے تو آگے کوئی ایسا مرحلہ درپیش نہیں جہاں بچے کے نام کے ساتھ باپ کا نام بُہت ضروری ہو اور نہ ہی جگہ جگہ باپ کے نام کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ بھی بچے کی شِناخت بنانے یا بُنیاد رکھنے میں ایک اہم بات ہے ۔ اب صحیح طور سے یاد نہیں آ رہا ہے لیکن شاید پرتگال میں ماؤں کے نام بطور سر نیم یا لاسٹ نیم لِکھے جاتے ہیں اور فرانس میں اگر بچے کا باپ نا معلوم ہو یا اُس کا بچے پر کوئی کلیم نہ ہو تو لکھا جاتا ہے ۔
خیر کیا اِس کا حل یہ نہیں نِکالا جا سکتا کہ پاکستانی شناختی نظام میں باپ اور ماں دونوں میں سے کِسی کا نام بھی ولدیت میں لکھوایا جاسکے ؟ یا اِس کی اوّل تو ضرورت ہی کیا ہے ؟ ایسا کون سا کام ہے جو نام لِکھے بغیر مُمکن نہیں ہوگا ؟ کافی گلا سڑا سا نظام ہے تبدیل ہونا چاہئیے ویسے بھی کہتے ہیں روزِ قیامت افراد اپنی ماؤں کی نسبت سے بُلائے جائیں گے !
اب ابارشن کا معاملہ لے لیں تو سرکاری اعداد و شُمار ایک بار پھر آپ کو میسر نہیں لیکن بِلا مُبالغہ سالانہ لاکھوں ابارشن ہوتے ہیں اور دائیوں سمیت لیڈی ڈاکٹرز اور زچہ و بچہ کلینکس یہ کام کرتے ہیں ۔ اب اگر کوئی نہیں مانتا تو کیا کِیا جا سکتا ہے ؟ بھئی ماضی میں لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سیکس کرتے تھے ، اب بھی کرتے ہیں اور آگے بھی کریں گے ۔ کوئی مذہبی اقدار ، معاشرتی سماج کے رولے ، غیرت کی باتیں اِن کو روک نہیں پائیں گی ۔ اپنے دائیں بائیں یا گریبان میں ہی جھانک کر دیکھ لیں کہ کیا ایسا نہیں ہے ؟ کیا ابارشن لیگل ہوتا تو یہ لڑکی کی جان ضائع ہوتی ؟ ہرگز نہیں لیکن ہم ایسے شقی قلب افراد ہیں جو زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کی خبر سُن کر کہتے ہیں اچھا ہُوا لعنتی مر گئے ۔ ( یہ الفاظ میری پوسٹ اِس خبر پر ایک مشہور کالم نگار نے لِکھے تھے جو سوشل میڈیا پر بھی کافی ایکٹو ہیں ) یعنی سوچ کا لیول دیکھیں کہ جو مذہب یا مُلک نے حرام کر دِیا وُہ کر کے مریں تو آپ کے ساتھ اِنسانیت کے ناتے بھی ہمدردی نہیں کی جا سکتی ۔ سوچیں اگر شراب پینے والوں کو شراب آسانی سے مِل جائے تو زہریلی شراب سے لوگ کیوں مریں گے ؟ اِسی طرح اگر ابارشن کرانا بالغ افراد کی مرضی سے قانُونی ہوتا تو یہ لڑکی ، اِس سے پہلے یا بعد میں مرنے والی لڑکیاں اپنی زِندگی جی لیتیں ۔ جی آگے بھی ایسا ہوگا ، بار بار ہوگا کیونکہ معاشرہ تقدیس کی چادر اوڑھ کر سو رہا ہے ۔ ہم کِتنے سنگدل ہیں جو کِسی کی موت کو “ حرام موت “ قرار دے کر یا کہہ کر معاملہ ٹھپ دیتے ہیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ معاشرہ اپنا جعلی تقدس ختم کرے ، بالغ افراد کو اپنی مرضی سے جِنسی تعلقات قائم کرنے کی ، ابارشن کی یا اگر بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کو بطور سِنگل پیرنٹ اپنانے کی قانُونی اجازت دِی جائے ۔ کیوں معصوم جانوں کا گلا گھونٹ رہے ہو ، قتل کر رہے ہو ۔ بھلا جہالت کے معاشروں کی امثال دینے کے قابل ہیں ہم لوگ کہ “ پیدا ہوتے ہی بیٹی مار دِی جاتی تھی ، گاڑ دِی جاتی تھی “ ہم تو اب بھی اپنے سو کالڈ جعلی تقدیس کی خاطر مذہب کو بھی من پسند تشریح اور تشریح بھی ایسی جو نہایت کٹر ہے اُس سے سمجھنے کی کوشش میں ہیں ۔ خُدارا اپنے بچوں بالخصوص بچیوں کو اعتماد دیں کہ آپ اُن کے ساتھ ہیں ، ہر حال میں ، پھر بھی اگر اُن سے کوئی غلطی ہو ہی جاتی ہے تو بطور والدین آگے بڑھ کر اُس کو ٹیکل کریں ۔ معاشرے یا نظام کے دُرست ہونے کا انتظار نہ کریں ۔ آپ جو کر سکتے ہیں وُہ تو کریں باقی رہا سوال ریاست کا اور یہاں کی انٹیلیجینشیا کا تو یہ لوگ درحقیقت صدیوں پُرانے معاشروں اور سوچ میں زِندہ ہیں ۔ باقی ہم ایسے ممالک تو ویسے بھی اِنسانی معاملات یا سماجی مسائل کو سمجھنے میں ابھی چند صدیاں مزید لیں گے ۔
یقیناً بُہت ساری باتیں رہ گئیں ہیں جِن کو پھر کبھی دیکھ لیں گے لیکن ایک بات بڑی ضروری ہے کہ اگر مذاہب کو سروائیو کرنا ہے یا اگر جیسے ہمارا دعویٰ ہے اور عقیدہ بھی کہ اِسلام ایک عالمگیر مذہب ہے تو ہمیں نئے دور کے مُطابق تشریح بھی درکار ہے ورنہ آج کے دور کی ضروریات یا سوچ اب صدیوں پُرانی سوچ اور رواجوں کے ساتھ نہیں چل سکتی ہیں ۔
سلامت رہیں ۔
نوٹ : گو مُجھے معلوم ہے کہ ابھی چند سیانے آتے ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ پوسٹ تو کنسینشیوئیل سیکس ( زنا بالرضا ) کو پروموٹ کر رہی ہے تو ایسے سیانے افراد کے لئے دو لائینز کا نوٹ لِکھا ہے کہ بابا آنکھیں اور دماغ کے ساتھ ساتھ باقی کُچھ کُھل سکتا ہے تو وُہ کھول کر پڑھو یا آگے بڑھ جاؤ جہاں کوئی نیشنل لیول کا کالمسٹ رٹو طوطے والا سبق دوہرا رہا ہوگا ۔