میرے نوکِ قلم میں اتنا توسلیقہ اور شعور نہیں ہے کہ میں جناب ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی عظیم شخصیت اور شعورِ فکر و فن کو بخوبی صفحۂ قرطاس پر قلمبند کر سکوں لیکن میں یہ ضرور چاہوں گی کہ اُن کی اعلٰی ذات و صفات، فن و شخصیت، ان کے وسعتِ قلب کی عظمتوں، اُن کے کردار کی اونچائیوں، اوراُن کے قلم کی خوبیوں کو حُسنِ صداقت کے ساتھ آپ کے سامنے بیان کر سکوں۔ اللہ مددگار ہے وہ حقدار کو اُس کا حق دلوا ہی دیتا ہے۔ اعظم گڈھ کی سرزمیں کئی گہرہائے نایاب کی پروردہ رہی ہے۔کسی مبارک گھڑی اسی سرزمین نے ایک بیش قیمت ہیرا رحمت الٰہی برقؔ اعظمی جیسے علم و دانش کے سکندر، ایک باکمال جوہری کی نذر کیا جسے انھوں نے اپنے دستِ مبار ک سے تراش خراش کے اردو ادب کے خزانے کو سونپ دیا۔ اس کوہ نور ہیرے کی چمک دمک اور آب و تاب کو دیکھ کر اربابِ بصیرت کی آنکھیں چوندھیاگئیں۔دورِ حاضر کے اہلِ قلم سکتے میں آگئے۔ اردو ادب کے بڑے بڑے شہسوار انگشت بدنداں رہ گئے۔ اس کوہِ نور کی چمک ملک کی آہنی دیواروں کو پار کرتی ہوئی بیرونی ملکوں میں جا پہنچی اور ہر اہلِ دل اور اہلِ قلم اس سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔پھراس کی چمک اور آب و تاب کے چرچے ہر زبان پر ہونے لگے۔ یہ نایاب کو ہ نور ہیرا کوئی اور نہیں عہدِ حاضر کے عظیم شاعر ہمارے جانے پہچانے ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی صاحب ہیں۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی صاحب سے میری ملاقات کبھی اور کہیں نہیں ہوئی ۔ میں نے اُن کے فن اور شخصیت کو جو بھی سمجھا ہے اُن کے وسیع اور بہترین کلام کی گہرایؤں میں اُتر کر سمجھا ہے۔ اردو ادب کے فلک پر سیکڑوں شمس و قمر اپنی چمک دمک کے ساتھ جگمگا رہے ہیں۔اور کائناتِ ادب میں اپنی لطیف چاندنی بکھیر رہے ہیں۔ لیکن جب ہم ڈاکٹر برقی اعظمی کے دلنشیں اور دلکش کلام ’’ روح سخن‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ صبح ہو گئی۔اور آسمان سخن پر چمک رہا ہے ایک آفتاب تنہاجس کی برقی شعائیں زندگی کے ہر پہلو ،حیات و کائنات کے ہر موضوع، دورِ حاضر کے ہر تقاضے انسانیت، محبت امن اور شانتی جیسے اعلی جذبوں ، قوم و ملت کی دکھتی رگوں، مذہب کی اٹھی ہوئی گھٹاؤں ، دین و ایمان کی پرنور برستی بارشوں اور سائنس و ٹکنولوجی کی فلک بوس عمارتوں کو اُجاگر کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کی اردو ادب میں آمد ایک خوشگوار واقعہ ہے۔خزاں کے دور کے بعد جب بہار آتی ہے تو کیا لگتا ہے۔ اُن کی مبارک آمد پر کچھ ایسا ہی ہوا۔ اردوا ادب کا چہرہ فخر اور خوشی سے کِھل اُٹھا ۔ اردو کی انجمنیں لہکنے اور مہکنے لگیں۔ اردو زبان پر جیسے نکھار آ گیا۔ شعر و سخن میں جیسے زندگی آگئی۔اردو زبان کی ڈوبٹی نبضوں کو جیسے حیاتِ نو مل گئی۔ تشنگانِ ادب کو جیسے قرارآ گیا۔ شعرو سخن کے اس تاجدار کی اردو ادب میں جب تاجپوشی ہوئی تو میرؔ ، غالبؔ ، داغؔ ، فانیؔ ، اقبالؔ جگرؔ ، جوشؔ ، فیضؔ اور احمد فرازکی روحوں کو جیسے وجد آگیا۔ وہ سجدۂ شکر بجا لائیں اور اپنے اس فرزندِ عظیم کے لئے دعاگو ہو کر بصد شکر جھوم اُٹھیں۔ کوئی تو ہے جو ان کی وراثت کو آگے بڑھا رہا ہے۔کوئی تو ہے جو شعر و سخن کے جسم میں روح واپس لوٹا رہا ہے۔کوئی تو ہے جو اردو ادب میں قوس قزح کا رنگ بھر رہا ہے۔کوئی تو ہے جو مرحومین ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کی میتوں پر آنسو بہا رہا ہے۔ کوئی تو ہے جو اُن کی تُربتوں پر دعائے مغفرت کے ساتھ اپنے اشعار کے گُلہائے عقیدت چڑھا رہا ہے۔ کوئی تو ہے جو ان بے چراغ اور بے پھول قبروں پر یادوں کے دئے جلا رہا ہے۔حضرت رحمت الٰہی برقؔ اعظمی صاحب کی روحِ مبارک اپنے اس نیک دل فرزند کی اقصائے عالم میں توقیر دیکھ کر خوشی اور فخر سے جھوم رہی ہوگی۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کا کلام دلنشیں ’’ روح سخن ‘‘ سخن کی روح تو ہے ہی اُن کی فکری و فنی صلاحیتوں کا نچوڑ بھی ہے۔اُن کے خوابوں کی تعبیر ہے۔اُن کی کائناتِ حُسن کی تصویر ہے۔ ان کی دولتِ عشق کی جاگیر ہے۔ اُن کا سرمایۂ حیات ہے۔یہ وہ گلستان سخن ہے جہاں خزاں آتی ہی نہیں۔ اپنے مجموعۂ کلام کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : مجموعۂ کلام ہے ’’ روح سخن‘‘ مرا
پیشِ نظر ہے جس میں یہاں فکر و فن مرا گلہائے رنگا رنگ کا گلدستۂ حسیں
ٓاشعار سے عیاں ہے یہی ہے چمن مرا یہ عظیم شاعر توقیر کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے بھی اپنے والدِ گرامی حضرت رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کے احترام میں اپنے فرائضِ فرزندگی سے سبکدوش نہیں ہوتا اور نہایت ادب و احترام کے ساتھ اپنے طاقِ دل میں اُن کی یاد کا چراغ جلائے حقِ فرزندگی ادا کرتے ہوئے لکھتا ہے: میرے والد کا نہیں کوئی جواب
جو تھے اقصائے جہاں میں انتخاب ان کا مجموعہ ہے ’’ تنویرِ سخن‘‘
جس میں حُسنِ فکر و فن ہے لاجواب
ایک اور جگہ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی صاحب فرماتے ہیں: آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے ان کا فیضانِ نظر
اُن سے ورثے میں ملا مجھ کو شعورِ فکر و فن
اپنے وطن پر فخراورناز کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: شہر اعظم گڈھ ہے برقیؔ میرا آبائی وطن
جس کی عظمت کے نشاں ہیں ہر طرف جلوہ فگن اپنے بارے میں وہ فرماتے ہیں :
میرا سرمایۂ حیات ہے جو
وہ ہے میرے ضمیر کی آواز
ڈاکٹر برقیؔ اعظمی صاحب کا بہترین اور ضخیم مجموعۂ کلام ’’ روح سخن‘‘ ادب کی دنیا میں شان کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ گلدستۂ سخن ہے جس میں رنگ رنگ کے پھول مہک رہے ہیں ۔ بارشِ انوار میں نہائی ہوئی اُن کی حمدیں حسنِ ایمان کے ساتھ قارئین کے دل میں اُتر جاتی ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں وہ نہایت ادب و احترام کے ساتھ اپنے جذبات کا نذرانہ پیش کرتے ہیں:
میں شکر ادا کیسے کروں تیرے کرم کا
’’ حقا کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا‘‘
طوفانَ حواث میں ہے برقیؔ کا سفینہ
کر سکتا ہے اب توہی ازالہ مرے غم کا
ایک اور جگہ ڈاکٹر برقیؔ صاحب فرماتے ہیں:
اے خدا تو نے زندگی بخشی
کیف و سرمستی و خوشی بخشی
تیرا منت گذارہے برقیؔ
جس کے نغموں کو نغمگی بخشی
عشقِ نبیﷺسے سرشار ان کا نعتیہ کلام کیف حضوری کی بہترین مثال ہے:
نبی کی ذات زینت بن گئی ہے میرے دیواں کی
انہیں کا نور ہے جو روشنی ہے بزمِ امکاں کی
وہی ہیں شان میں جن کی ہے ورفعنا لَکَ ذکرک
ثناخواں اُن کی عظمت کی ہر اک آیت ہے قرآں کی
ثنائے رسالت مآب میں ایک اور جگہ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی لکھتے ہیں:
کیا کوئی کرے شمعِ رسالت کااحاطہ
ممکن نہیں اس نور کی عظمت کا احاطہ
غزل کے بارے میں برقی صاحب کے خیالات بہت جامع اور واضح ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
احساس کا وسیلۂ اظہار ہے غزل
آئینہ دار ندرتِ افکار ہے غزل
اردو ادب کو جس پہ ہمیشہ رہے گا ناز
اظہارِ فکر و فن کا وہ معیار ہے غزل
آتی ہے جس وسیلے سے دل سے زبان تک
خوابیدہ حسرتوں کا وہ اظہار ہے غزل
برقیؔ کے فکر و فن کا مرقع اسی میں ہے
برقؔ اعظمی سے مطلعِ انوار ہے غزل
حسن و عشق ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے کلام کا نہایت وسیع اور دلکش موضوع ہے۔رنگ و نور میں نہائی برقیؔ اعظمی کی گُل چہرہ غزلیں اردو ادب میں نہایت اہم اور معتبر مقام رکھتی ہیں۔اُن کے کلام سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:
بات ہے ان کی بات پھولوں کی
ذات ہے اُن کی ذات پھولوں کی
وہ مجسم بہار ہیں اُن میں
ہیں بہت سی صفات پھولوں کی
کچھ اور خوبصورت اشعار دیکھئے:
ہیں اُس کے دستِ ناز میں دلکش حنا کے پھول
اظہارِ عشق اُس نے کیاہے دکھا کے پھول
پاکیزگئ نفس ہے آرائشِ خیال
ہیں آبروئے حُسن یہ شرم و حیا کے پھول
پھولے پھلے ہمیشہ ترا گلشنِ حیات
میں پیش کررہا ہوں تجھے یہ دعا کے پھول
برقیؔ ہے بے ثبات یہ دنیائے رنگ و بو
دیتے ہیں درس ہم کو یہی مسکرا کے پھول
جذبۂ عشق کو برقیؔ صاحب کے کلام میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔
عشق ہے در اصل حُسنِ زندگی
عشق سے ہے زندگی میں آب و تاب
اشکوں کی سیاہی سے لکھی ہوئی برقیؔ صاحب کی زار زار عشقیہ غزلیں اردو ادب کا ایک بہترین سرمایہ ہیں۔پڑھنے والوں کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شبِ فراق ہے۔تنہائی ہے۔اندھیرا ہے۔ اُداسی ہے۔چراغِ دل ٹِمٹما رہاہے۔یوں محسوس ہوتا ہے آسمان میں ماہتاب چمک رہا ہے۔ جوشِ جنوں اسے پانے کے لئے بیتاب در بدر پھر رہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے زندگی کی ریل گاڑی نا معلوم منزل کی طرف چلی جا رہی ہے اور یادوں کا ایک ہجوم ہے جو ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے صحرا کی وسعتوں میں جلتی ہوئی ریت پر کوئی برہنہ پا جانا جاناں پکارتا بھٹک رہا ہے۔ نفرتوں کی جنگ پوری دنیا لڑ رہی ہے۔اُس ے متاثر ہو کر حساس شاعر کا دل دنیا کے تمام مذاہب و ملت کے لوگوں کو پیامِ محبت سنا رہا ہے۔ ڈاکٹر برقیؔ صاحب کے کچھ اشعاراس سلسلے میں ملاحظہ فرمائیں۔
امن عالم کی فضا ہموار ہونا چاہئے
’’ آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے‘‘
جب ہم ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کے کلام کا بنظر دقیق تجزیہ کرتے ہیں توہمیں زبان اور بیان کی بہت سی خوبیاں اس میں نظر آتی ہیں جو اُن کی دلکش تحریروں کو حُسن بخشتی ہیں۔اُن کے چہکتے ہوئے ردیف اور قافیے ، اُن کی حیران کر دینے والی تشبیہات اور استعارے، اوراُن کے دل کو چھونے والے محاورے بہت خوبصورتی کے ساتھ ان کے کلام میں استعمال ہوئے ہیں۔کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
جس کو وہ پڑھتا رہے گا عمر بھر لکھ جاؤں گا
خط میں اس کے نام ایسا نامہ بر لکھ جاؤں گا
ایسا ہوگا میری اس تحریر میں سوز و گداز
موم ہو جائے گا پتھر کا جگر لکھ جاؤں گا
اشک پلکوں پہ چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
میرا کاشانۂ دل اب ہے مزاروں کی طرح
یہاں اشک ستاروں کی طرح ، خانۂ دل مزاروں کی طرح اور پتھر کا جگر وغیرہ ان کی تشبیہات اور استعارں کی خوبصورت مثالیں ہیں۔
میری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں
وہ نظر آیا جب اک زمانے کے بعد
برقیؔ کی اس کے سامنے کوئی گلی نہ دال
جو گل اسے کھلانے تھے اس نے کھلا دئے
یہاں محاورے جیسے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جانا ، گل کھلانا اور دال نہ گلنا محاورے ہیں جن کو بڑی خوبی کے ساتھاستعمال کیا گیا ہے۔ داکٹر برقیؔ اعظمی کی کائناتِ شاعری ’’ روحِ سخن‘‘ میں آسمان کی وسعتیں اور زمین کی عظیم شفقتیں ہیں۔ سمندر کی گہرائیاں ہیں۔ پہاڑوں کی بُردباری ہے۔ جنگلوں کی ضخامت ہے۔ سورج کی فراخدلی ہے۔ آبشاروں کی بے کلی ہے۔ برق کی تڑپ ہے۔ جھومتے درختوں کی لہک ہے۔ مہتاب کا حسن ہے۔ بہاروں کی رنگت ہے۔شبنم کے آنسو ہیں، کلیوں کی چٹک اور شوخی ہے،پھولوں کی رنگت ہے،بہاروں کی گونج ہے،تتلیوں کا ذوق و شوق ہے، صبح سویرے کا پرنور اُجالا ہے،تپتی دوپہروں کی تپش ہے،شامِ غم کی اُداسی ہے، سیاہ راتوں کی وحشتیں ہیں، شبِ فراق کی اشکباری ہے، اورعبادتگاہوں کی پاکیزگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے تمام رنگ، تمام موسم اور کائنات کے تمام حسن اُن کی شاعری میں بحسن و خوبی اُتر آئے ہیں۔دلکش اور خوش آہنگ ردیف و قافئے،دمکتی تشبیہات ، کہکشاں سی زباندانی سے منور یہ کلام اُن کی کاوشوں کا پھل ہے۔اُن کا سرمایۂ زیست ہے۔سخن کے اس شہنشاہ کی ہرغزل ایک حسین تاج محل لگتی ہے۔ ڈاکٹر احمد علی برقیؔ کا تخلیقی سفرخلوص اور محبت کے گیت گاتا ہوا نفرت کی دیواروں کو توڑتا ہوا،ملکوں کی سرحدوں کو پار کرتا ہوا، انسانیت اور تہذیب کے وقار کو بڑھاتا ہوا، امن اور شانتی کا درس دیتا ہوا،حق کا پرچم اُٹھائے دورِ حاضر کے تقاضوں کوپورا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔خداوند کریم انہیں شاد و آباد رکھے ۔ انہیں ہر قدم پر کامیابی اور کامرانی عطا فرمائے۔