سنسر کی واپسی ، مگریہ کب ، کہاں گیا تھا؟
میاں نواز شریف کی تقریر سنسر کرنے سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی، ہونے کی بات بھی نہیں۔ عدلیہ کے خلاف تقاریر کے حوالے سے عدالتی حکم بھی آ چکا ہے اور چینلز، اخبارات اس خدشے کا شکار ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی کوئی سخت ، جارحانہ تقریر کر کے انہیں بھی مشکلات کا شکار کر سکتے ہیں۔ جس طرح کی تقاریر میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی فرما رہی ہیں، انہیں کون نشر کر سکتا ہے، کون چھاپ سکتا ہے؟ اینکرحضرات اور گیسٹ انالسٹ اگر کوئی سخت قابل اعتراض جملہ کہیں تو چینل آواز غائب کر دیتے ہیں، سابق وزیراعظم کی تقریر اگر براہ راست چل رہی ہو اور آواز غائب ہوجائے تو پھر کیا تماشا بنے گا؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ تقاریرریکارڈ کر لی جائیں اور پھر پالیسی کے مطابق ایڈٹ کر کے چلائی جائیں، مگرشائد جیو جیسے چینل انہیں نشر بھی کرنا چاہتے ہیں اور بھونڈے طریقے سے سنسر کر کے یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھیں ہمارے اوپر کتنی پابندیاں لگ گئی ہیں۔ ایسی دو رنگی پالیسی نے جنگ گروپ کو اس حال میں پہنچایا ہے ۔
مجھے ان پر بھی حیرت ہے جنہیں اچانک ہی یہ یاد آیا ہے کہ اخبارات میں کالم رک رہے ہیں اور سنسر شپ کا دور لوٹ آیا ہے۔ ایسے بھولے بھالے دانشوروں ، لکھاریوں سے سوال پوچھنا چاہیے کہ سنسر شپ ختم کب ہوئی تھی؟ یہ کرشمہ کب ہوا تھا؟ ہم نے تو نہیں دیکھا۔ ہمارے ایک فاضل دوست بیگم جسٹس اخلاق حسین کا جملہ نقل کیا کرتے ہیں،جنہوں نے صاف گوئی سے کہا، ’’تہذیب کہاں پر ہے، ہم نے تو کہیں نہیں دیکھی بھیا۔‘‘
سنسر شپ کا خاتمہ کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ دراصل اخبارات اور چینلز پر عدلیہ اور فوج کے حوالے سے ہمیشہ احتیاط برتی جاتی تھی۔ یہ ریت جنگ گروپ نے ڈالی کہ میاں نواز شریف کی محبت میں فوج ، عدلیہ کے پرخچے اڑا دینے والے بیانات شہ سرخیوں میں چھاپے جائیں، ہر قسم کے تند وتیز، ذاتی حملوں سے بھرپور کالم شائع کئے جائیں، جنگ کی تاریخ میں جو پہلے بات پہلے کبھی شائع نہیں ہوسکتی تھی، پانامہ کے بعد کی حالات میں وہ سب روا رکھا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام اخبارات اور چینلز اشتہاری پارٹیوں پر تو ایک لفظ بھی تنقید نہیں شائع کرتے ۔ کون ہے جو بحریہ ٹائون کے خلاف کچھ چھاپ کر دکھا دے۔ ہمارے جس بھائی کو سنسر شپ کے لوٹنے پر پریشانی لاحق ہوئی، وہ اپنی کسی کہانی میں بحریہ ٹائون کو تو نشانہ بنا کر دیکھیں؟ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ تو خیر ولن بنائے جا چکے ہیں، ذرا بینکوں کے خلاف تو کوئی خبر، کہانی، کالم چھپوا کر دکھائیں۔ نیسلے کے خلاف کچھ آ سکتا ہے؟ بینک کنزیومرز کو جس قدر لوٹیں ، ان کے خلاف ایک سطر بھی نہیں چھپ سکتی۔ موبائل کمپنیاں جو مرضی کریں، ان کے خلاف کوئی کچھ نہیں چھاپ سکتا، نشر کر سکتا۔ یہ کارپوریٹ سنسر ہمیشہ سے ہیں اور رہیں گے۔ اس لئے یہ تو کہنا ہی غلط ہے کہ سنسر شپ ختم ہوگئی تھی، اب واپس آگئی ہے۔
مقدس گائے صرف ادارے نہیں بلکہ کچھ شخصیات بھی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک وزیراطلاعات ونشریات ہے۔ ہر جگہ اس کو پروٹوکول، توقیر اور تنقید سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے اردو اخبار میں سنسر کا ایک عالم یہ بھی ہے کہ ایک زمانے میں بڑے کالم نویسوں کو بھی صاف بتا دیا جاتا تھا کہ ملک ریاض، رحمان ملک کے بارے میں کچھ نہ لکھیں۔ آج کل مریم اورنگ زیب نے یہ درجہ لے لیا ہوگا۔……………………… میرا یہ کہنا ہے کہ اب جبکہ عدلیہ پر ذاتی حملوں پر پابندی لگ رہی ہے تو سنسر کی آواز بلند کی جاتی ہے جبکہ بدترین کارپوریٹ سنسر کی انہوں نے کبھی بات نہیں کی.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔