:::" معنیات { SEMIOTIC} سے معاشرتی معنیات کا سفر " :::
معاشرتی معنیات پر بات کرنے سے قبل معنیات کےنظریاتی ، فکری مزاج اور اس کے بنیادی ڈھانچے پر بات کرلی جائے تو بہتر ہے۔ معنیات ایک یونانی اصطلاح ہے۔ جس مین زبان کی کار کاردگی، اس کی صوری اور رسمی منطق کا فکری یا فلسفیانہ مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ اور معنئی کا رشتہ، لفظ کے معنی کا تعین کرکے داخلی اور خارجی معنی کی اقسام مترادف یا ہم معنی الفاظ کے متضاد معنوں کے اہہام اور استعاروں، تاریخی لسانیات کے پس منظر اور تناظر میں معنی کی تعبیر اور اسباب کا بھی کھوج لگایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ساسر اور فرائڈ نے اسے معاشرے کی نشانیات کی سائنس قرار دیا ہے۔ معنیات میں " معنی نما " اور خیال نما" کے تصورات کو نشانیات ، علامیات اور رموزیات کے انسلاکات کو مرکذی طور پر تجزیہ اور مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اور معنوں میں سے نئے معنِی اخذ کئے جاتے ہیں اور زبانوں کی زیلی معنویت کے مختلف اشتراکات کے ساتھ مطالعہ نحو کو بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جس میں علمیات کے تناظر میں زبان کے نظام اشاریت کو قاری کے سامنے معنیاتی نقطہ نظر سامنے لایا جاتا ہے ۔ معنیات کا نظریاتی اور فکری ماڈل ہیت پسندانہ، ۔ کشافی، لغوی حاسبی { کمپوٹر} لسان، بشری،، ادارکی ،سائبر اور ابلاغی یا صحافتی مناجہیاتی فکری حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زبان انسانی زہن کا محتاج ہوتا ہے اور زبان ثقافتی اسطور ہوتی ہے جبکہ معنیات زبان کا مطالعہ ہے جس میں دوسری قطبین سے زبان کی معنیات میں نئے مفاہیم تلاش کئے جاتے
ہیں۔ اور قاری کے زہنوں سے نئی تخلیقی معنویت تلاش کئی جاتی ہیں۔ اور قاری کو نئی تخلیقی معنویت کو تلاش کرنے پر اکسایا بھی جاتا جس سے نئی تحریری ہیت خلق کی جاتی ہے۔ مگر اس کو ساسر کی " نشانیات" {SEMIOLOGY} سے نہیں جوڑا جائے۔ یہ ایک مختلف نوع کی اصطلاح ہے۔ یہاں یہ بات زہن میں رہے کہ معاشرتی معنیات اور عمرانیاتی/ سماجیاتی معنیات میں زمین آسمان کا فرق ہے عموما لوگ اسے ایک دوسرے سے مدغم کردیتے ہیں مگر وہ انھیں ممیز نہیں کرپاتے۔
ادب اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتا۔ جب تک تاریخ، ثقافتی اور معاشرتی سیاق و سباق میں مناسب طور پر قرات کی جائے۔ ادبی عمل معاشرتی تشکیلات میں مخصوص زمان و مکان میں تجزیہ کرتا ہے اور کئی مخصوص مزاجوں کو استحقاق متن کے ساتھ پڑھا جاتا ہے جو معاشرتی عمل اور اس کے بہاو کے لیے طریقہ کار وضع کئے جاتے ہیں۔ اور بھر دیگر متنون کے تقابل کے ساتھ ایک دوسرے سے رابطہ بھی کیا جاتا ہے اور پھر یہ معاشرتی معنویت، ادبی مفاہیم اور معنیات کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ مائیکل فوکو نے معنیات کو ادبی اشیا کے طور پر نہیں بلکہ ایک علمی مظہر اور مباحث کی صورت میں پیش کیا ہے۔ جو بعض دفعہ معاشرتی قوتیں اور تاریک کے جبر میں معاشرتی معنیات اور زبان کو قابو کرنا چاہتی ہے۔ جس سے لسانی اور معنیاتی رکھ رکھاو، جمال اور اس کی اصل ماہیت بھی تبدیل کردی جاتی ہے۔ بھر ان معنوں کو معاشرتی " پیداراویت" کے نظام سے منسلک کردیا جاتا ہے اور متن کے کئی زیلی عناصر ابھرتے ہیں ساتھ ہی ان معنیات کو تعین کرتے ہوئے بھی اس کو عام لسانی یا معاشرتی مخاطبے اور مباحث سے خارج کردیا جاتا ہے۔ جس میں عام گفتگو سے " کلام" یا LOGONOMIC کے نظام وضع کئے جاتے ہیں۔ جیسے شاعری میں آہنگ، بحواور اوزان وغیرہ کو رائج کردیا جاتا ہے۔ اور معنی نما اور خیال نما میں اس کی نشاندھی کرکے اور ضابطے اور تفھیم کاری کی جاتی ہے اور یوں ادبی تخلیق کار ثقافت سے باہر SUBTLY پر لکھا ہوا متن معاشرتی آگہی میں مدگار ثابت ہوتا ہے۔ جو آئیڈیالوجی کے حصار میں افتراقات سر اٹھاتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ معاشرتی حقیقت کے ادبی تناظر اور وژن کو معروضی انداز میں ادبی حقیقت سے زیادہ سچائی کے تناظر میں زیادہ معاشرتی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔