مجھے پتہ ہے میری اس تحریر کے بعد بہت سے لوگوں کو برا لگے گا خاص طور پر جو اس کام میں ملوث ہیں، ممکن ہے میرے خلاف تحریریں بھی لکھی جائیں یا پھر دوسرے حربے استعمال کیے جائیں لیکن ان سب چیزوں کی پرواہ کئے بغیر لکھ رہاہوں اور اپنا سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں،
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند،
اس دنیا میں جہاں ایک طرف امیر ، مالدار لوگ اپنی دولت کی دنیا آباد کئے ہوئے ہیں اور اسی میں مست و مگن رہتے ہیں ان کی اس دنیا میں طرح طرح کی رنگ ریلیاں ہوتی ہیں ، کھیل تماشوں کا بازار گرم رہتا ہے ، وہیں دوسری طرف غریب و مسکین لوگ بھی ہیں جو اس دنیا میں آباد ہیں جو حسرت بھری زندگی گزارتے ہیں، جن کی دنیا اندھیر ہوتی ہے ، انہیں صرف آسمان دیکھ کر تسلی ملتی ہے، ان کی زندگی مختلف آلام و مصائب کا مجموعہ ہوتی ہے، اور اسی کو جھیلتے جھیلتے وہ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں،
لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ نظام قدرت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا، قدرت نے غریبوں کی زندگی کا انتظام اس طرح کیا کہ مالداروں کی دولت میں صدقات و خیرات ، زکوٰۃ ، عطیات کی شکل میں غریبوں کا حصہ لگایا، اور ہر مالدار پر ایک نصاب کے بقدر اس کا ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا، اس عمل کی حقیقت پر غور کریں تو یہ ایک بہت اونچا عمل ہے انسانیت کا اس سے اور اونچا مظاہرہ کچھ نہیں ہوسکتا اسی حساب سے اس کا بدلہ بھی رکھا گیا،
الحمدللہ آج بھی صاحب حیثیت لوگوں کی طرف سے اپنے مال میں غریبوں کا حصہ لگانا برقرار ہے بلکہ اس دور میں کچھ زیادہ فراوانی ہو جانے کی وجہ سے زیادہ امداد ہورہا ہے ، سب سے پہلے میں ان صاحب حیثیت اور ان تنظیموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو غریبوں کا مسیحا بنتے ہیں، ان کی غمخواری کرتے ہیں، اور دعا بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول فرمائے،
مجھے ان تنظیموں اور صاحب حیثیت لوگوں کی نیت میں کوئی شک نہیں ہے، ان کے دلوں کے حال میں نہیں جانتا ، اخلاص ان میں کتنا ہے یہ بھی نہیں جانتا ، کس مقصد سے وہ امداد کررہے ہیں اس کا بھی علم نہیں، باطنی دنیا کا حال اللہ تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے، ہم ظاہری چیزوں کو دیکھتے ہیں اور ظاہری چیزوں کو دیکھ کر ہی عزت و ذلت کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے،
ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور بہت زیادہ ہوتی ہے جب یہ امداد کے نام پر غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کی عزت نفس سے کھلواڑ کرتے ہیں، ان کی غریبی کا تماشہ کرتے ہیں ، دو روپے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور اپنی جیب سے موبائل نکالتے ہیں پھر سیلفی تصویر لی جاتی ہے اور اس بیچارے غریب کا پوری سوشل میڈیا پر بلکہ پوری دنیا میں اس کی غریبی کا پرچار کرتے ہیں،۔ واہ رے ظالم ۔۔ نہیں معلوم تھا اس طرح بھی ظلم کی داستان لکھی جائے گی ، قتل کردے یا کسی اور طریقے سے کسی انسان کی زندگی لے لے اس سے زیادہ تکلیف نہیں ہوتی لیکن کسی کی بے عزتی کا دنیا میں پرچار کردینا یہ ایسا درد ہے جو قیامت تک نہیں مٹتا، وہ بے چارے غریب اس تنظیم یا اس صاحب حیثیت کے دورپے کو اپنی زندگی گزارنے کیلئے تو قبول کرلیتا ہے مگر جاکر اس غریب سے پوچھئے کہ جس وقت دو پانچ روپے ہاتھ میں تھما کر سیلفی لی جاتی ہوگی اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہا ہوتا، وہ بیچارہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہا ہوتا ہے، پھر جب کسی اخبار میں اپنی تصویر دیکھتے ہوں گے تو وہ خون کے آنسوں روتے ہوں گے،
مجھے ان تنظیموں اور صاحب حیثیت لوگوں کی نیت پر شک نہیں لیکن یہ جو تماشا بنا ہوا ہے اسے بند ہونا چاہیے، اگر مدد ہی کرنا ہو تو جو طریقہ بتایا گیا ہے ، الید العلیا خیر من الید السفلی ۔۔ تعاون تو اس طرح ہو کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے، اور پھر اللہ تعالیٰ کے یہاں وہی عمل قبول کیا جاتا ہے جو اخلاص سے پر ہو، اگر ادنی سا عمل بھی اخلاصِ سے پر ہو تو خدا کے یہاں اس کی حثیت بہت بڑی ہے، ایسے میں وہ حدیث بھی ذکر کرتا چلوں جسمیں فرمایا گیا کہقیامت کے روز تین قسم کے لوگوں کو بلایا جائے گا ان میں سے ایک مالدار بھی ہوگا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ میں نے تم کو دولت دی تھی بتاؤ اس میں سے تم نے کیا کیا وہ مالدار شخص کہے گا اے اللہ میں نے تیرا کوئی راستہ نہیں چھوڑا جسمیں خرچ نہ کیا ہو اللہ تعالیٰ کہے گا تو جھوٹا ہے تو نے خرچ اس لئے کیا تھا تاکہ تجھے سخی کہا جائے سو کہا جا چکا حکم ہوگا اسے جہنم میں منہ کے بل گھسیٹ کر پھینک دو
بہت کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں بس ادبا عرض یہ ہے کہ شرعی اصولوں کے دائرے میں رہ کر مدد کریں اس طرح کسی غریب کی غربت کا مذاق نہ اڑائیں آج سے پہلے کے زمانے میں بھی غریب لوگ تھے اور مالداروں کی طرف سے امداد ہوتی تھی لیکن آج تک کوئی تصویر نظر نہیں آتی ،
اس لئے خدا را ان حرکتوں سے باز آجائیں ، کسی کی عزت سے کھلواڑ کڑکے اس کی امداد کرنا ایک غیر شرعی غیر اخلاقی حرکت ہے،
اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص کامل عطا فرماے،