سخی حسن قبرستان کی ایک غائب قبر کی کہانی
پاکستان میں سب سے زیادہ مذہبی کتابیں شائع ہوتی ہیں ۔اس کے علاوہ اردو شاعری کی کتابوں کی نشر و اشاعت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔کسی بھی بک شاپ پر چلیں جایئے آپ کو مذہبی اور اردو شاعری کی کتابیں کثرت میں دیکھنے کو ملیں گی ۔پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں عقل و دانش کو کم ہی لفٹ کرائی جاتی ہے ۔اس لئے اس ملک کے نیوز پیپرز،ٹی وی چینلز ،ریڈیو اور ادب وغیرہ میں عقل و دانش کی ریٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے ۔نیوز چینلز میں جہالت کی ریٹنگ نمبر ون ہے ۔اخبارات میں بھی وہی ریٹنگ لیتے ہیں جو جھوٹ اور جہالت کی پروجیکشن میں نمبر ون ہیں ۔ملک کی بدترین صورتحال کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں عقل و دانش کے ساتھ دیہاتی کتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ایک وہ بھی زمانہ تھا جس میں ایسا علمی و فکری کام ہوا کہ جس سے لوگوں نے یہ سیکھا کہ انکار کس طرح کیا جاتا ہے ۔سوچنے سمجھنے اور مکالمہ کرنے کا آرٹ سیکھایا گیا ۔کمال عظیم ادبی کام ہوا ۔اس عظیم ادبی کام کے سرخیل سبط حسن جیسے عظیم دانشور تھے ۔سبط حسن صاحب کی کتابوں نے معاشرے ،تاریخ اور سیاست کے حوالے سے نئے تصورات دیئے ،انسان کو نئے خیالات سے روشناس کرایا ۔۔سبط حسن نے خیالات کو ایک نئی سمت دیکھائی ۔عجبی بات یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی ،لاہور ،اسلام آباد ،پنڈی ،پشاور وغیرہ میں سبط حسن کے خیالات کو نہیں پڑھا گیا ۔وہ جہاں کہا جاتا ہے کہ ترقی ہو رہی ہے ،وہاں پر سبط حسن کے کام کو اہمیت نہیں دی گئی ۔لیکن سندگ ،بلوچستان اور سرائیکی علاقوں کے نوجوان آج بھی سبط حسن کی کتابوں کو پڑھتے ہیں ،ان خیالات پر سوچتے ہیں ۔سمجھ نہیں آتی کہ اتنے بڑے دانشور کو پاکستان کے نوجوان کیوں اسٹڈی نہیں کرتے ؟ شاید انہیں اس عظیم انسان کے بارے میں معلومات ہیں نہیں دی جاتی ۔میری نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ سبط حسن کی کتابوں، ماضی کے مزار،موسی سے مارکس تک ،نوید فکر وغیرہ ضرور پڑھیں ۔ان کی کتابیں معاشرے میں فکری انقلاب برپا کرسکتی ہیں ۔نوجوان ان کی یہ کتابیں پڑھیں گے تو ان کی سوچ و فکر بڑھے گی ۔وہ ایک خوبصورت انسان تھے ،روشن خیال اور ترقی پسند شخصیت کے حامل تھے ۔کہا جاتا ہے کہ ایسی گفتگو فرماتے تھے کہ سب ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے ۔سبط حسن صاحب کو نوجوانوں سے ہمیشہ امیدیں رہی ،کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی تقدیر یہی نوجوان بدلیں گے ،اور ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستان کا نواجوان انہیں جانتا ہی نہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کا جب ایک خاص حد تک مطالعہ ہو جائے ،تو انہیں لکھنا چاہیئے ۔انسانی عقل اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو وہ انسان کی فلاح کے لئے سب سے اہم سمجھتے تھے ۔شاید اسی لئے کہتے تھے کہ نوجوانوں کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی چاہیئے ۔سبط حسن نے اپنے ترقی پسندانہ اور روشن خیالات کو عام لوگوں تک سادہ انداز میں پہنچایا اور یہ بھی صرف ان کا ہی کمال تھا ۔کہتے تھے ترقی پسندانہ خیالات سے سو چنے کی عادت کی نشوونما ہوتی ہے اور چیزوں کو شمجھنے کی جستجو میں اضافہ ہوتا ہے ۔اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے سبط حسن کو ترقی پسندانہ سوچ کی وجہ سے امریکہ بدر کیا گیا ۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ جب وہ پاکستان آئے تو ان کا بہت سارا ادبی و فکری کام گمنام رہا ۔آج بھی لاہور ،کراچی کی کتابوں کی دکانوں پر چلیں جائیں ،کہیں بھی سبط حسن کی کتابیں دیکھائی نہیں دیتی ۔جہالت ،انتہاپسندی اور نفرت انگیز مواد ان دکانوں میں بھرا پڑا ہے ،لیکن سبط حسن کی دانش و عقل کہیں نظر نہیں آتی ۔پاکستان بننے کے بعد لاہور آئے ۔مقصد بڑا تھا ،قربانی تو دینی تھی ۔اس لئے عظیم قربانیاں دیں ۔جیلوں میں گئے ۔انڈر گراؤنڈ رہے ۔شاہی قلعے میں کوڑے کھائے ۔جیل میں لٹکائے گئے ۔1957 میں لیل و نہار کے ایڈیٹر بنے ۔پھر ایوبی مارشل لاء آگیا تو لیل و نہار بند کرادیا گیا ۔سبط حسن کو جیل میں پنجرے سے لٹکایا گیا ۔کیا کمال انسان تھے جو ہمیشہ پسماندہ طبقے کی جنگ لڑتے رہے ،ان کے لئے مار کھائی ،ان کے لئے ادب تخلیق کیا ۔ان کے لئے ملک بدر ہوئے ۔کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ دودھ ،چائے کی پتی ،چینی اور چھوٹی سی دیگچی رکھتے تھے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جیل جانا پڑتا تھا اور انہیں چائے پینے کی عادت تھی ۔پھر ضیاء کا آمرانہ دور آیا ۔مذہب کے نام پر نفرت کادور دورہ شروع ہوا ۔انتہا پسندی کو ہوا دی گئی ۔تعصب اور تشدد کی تدریس کی گئی ۔اسی زمانے میں ان کی کتاب نوید فکر کا ظہور ہوا ۔یہ مباحثے بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔کبھی موقع ملے تو یہ کتاب ضرور پڑھیئے گا ۔نوجوان سبط حسن کی کتابیں اس طرح پڑھیں کہ اس پر سوچیں ۔گفتگو کریں ،مکالمہ کریں ۔ان کی کتابوں اور تحریروں کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے جیسے امریکی سامریت اور اسامہ اینڈ کمپنی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟آج اس ملک میں سبط حسن جیسے دانشور نہیں ہیں ،اسی وجہ سے انتہا پسندی ہے ،دہشت گردی ہے اور قتل عام ہے ،اسی وجہ سے عامر لیاقت جیسے جاہل کا راج ہے ،اسی وجہ سے قیامت خیز آدمی شاہد مسعود کی ریٹنگ ہے ،اسی وجہ سے اوریا مقبول جیسا جاہل بھی مقبول ہے ۔اسی وجہ سے ملاؤں کا راج ہے ۔اسی وجہ سے تعصب ،نفرت اور خودکش ہیں ۔میڈیا میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کا سبب یہی ہے کہ سبط حسن جیسے انسانوں کی دانش کو لفٹ نہیں کرائی جاتی ۔سبط حسن 1986 میں لکھنو میں ترقی پسندوں کی کانفرس میں گئے ،وآپسی پر دلی میں ان کا انتقال ہوگیا ۔پھر کراچی میں سخی حسن قبرستان میں دفن کردیئے گئے ۔آج سخی حسن قبرستان میں ان کی قبر غائب ہے ۔کہا جاتا ہے کہ کوئی ان کی قبر پر نہیں گیا ،کسی مداح نے توجہ نہ دی ،کوئی اپنا اس قبر پر نہیں گیا اور نہ ہی کوئی پرایا وہا ں گیا ۔قبر نے تو غائب ہونا تھا ۔خیالات بھی گمنا م ہیں ،قبر بھی زمین سے غائب ہے ۔ایسے ماحول میں اس ملک میں کیسے بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔کیسے عقل ،دانش اور عقلیت پرستی کو اہمیت مل سکتی ہے۔سبط حسن کو خیالات ،تصورات اور روشن خیالی کا قائد کہا جاتا ہے ۔تاریخ ،ادب ،سوشیالوجی میں ان کے عظیم کام کی وجہ سے انہیں پاکستان کا بریٹنڈ رسل کہا جاتا ہے ۔ہم نقلی لوگ ہیں ،ہماری شکلیں ادھوری ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے بریٹنڈ رسل کو بھلادیا ہے ۔اور اسی وجہ سے جہالت میں پھنس گئے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔