*سحری سے متعلق ایک غلط فہمی کی وضاحت*
رمضان شریف میں بعض لوگ سوشل میڈیاپرابوداؤد کی ایک حدیث کی تشریح قرآن واحادیث کو مدنظر رکھے بغیرغلط کرتےہیں،جس کی بنیادپروہ لوگ کہتےہیں کہ اگر کوئی شخص سحری کررہاہواور کھانے کابرتن اس کے ہاتھ میں ہو اوراسی حالت میں اذانِ فجر ہوجائے تو وہ اذانِ فجر کی وجہ سے کھانے سے نہ رکے بلکہ کھانے کی اپنی حاجت مکمل کرے،یعنی عوام میں یہ بات مشہورکرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سحری کے ختم ہونے کا وقت طلوعِ صبح صادق نہیں ہے بلکہ فجر کی اذان کے وقت بھی کھانے پینے کی کوئی چیز ہاتھ میں ہو تواسے کھا،پی سکتے ہیں ،حالانکہ یہ تشریح قرآن وسنت کی روسے بالکل درست نہیں ہے ،لہذاسحری کےاختتامی وقت کاقرآن و سنت کی روشنی میں حکم بیان کرناضروری محسوس ہوا،جس کا خلاصہ یہ ہے:
.
(1)۔۔۔ اللہ تبارک و تعالی نے سورت بقرہ کی آیت نمبر 187میں فرمایا :
كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ
ترجمہ:’’کھاؤاورپیو یہاں تک کہ صبح کی سفیددھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح ہوجائے‘‘
اس آیت میں سحری کےختم ہونے کا وقت بتایا گیاہےاوراس کی تفسیر کرتےہوئےمفسرین نے’’الخیط الابیض‘‘کی صبح کاذب اور ’’الخیط الاسود‘‘ کی صبح صادق سےتفسیرکی ہے،لہٰذاسحری کا اختتامی وقت صبح صادق کا طلوع ہونا ہے،اذانِ فجر نہیں ہے ۔(دیکھئےعبارات نمبر1)
.
تفسیربغوی اورتفسیر ثعلبی میں اسی آیت کی تفسیرمیں مزیدوضاحت سےذکرکیاکہ فجر کی دو قسمیں ہیں:
1.فجرِکاذب یعنی صبح کاذب:وہ روشنی جوآسمانِ افق میں بلندی کی طرف (طولاً)نظرآتی ہےاور اس کے طلوع ہونے سے نہ تو رات ختم ہوتی ہے،نہ نماز فجرجائزہےاور نہ ہی روزہ دار پرکھاناپیناحرام ہوتا ہے۔
2.فجرِصادق یعنی صبح صادق:وہ روشنی جوآسمانِ افق پر(عرضا)نظرآئے،اور اس کے طلوع ہونے سےرات ختم ہوکر دن شروع ہو جاتا ہے، سحری کا وقت ختم کر روزہ دار پر کھاناپینا حرام ہوجاتا ہےاورنماز فجرکاوقت شروع ہوجاتا ہے۔(دیکھئے عبارات نمبر2)
(2)۔۔۔تفاسیر اور احادیث کی کتابوں میں یہ بات تفصیل سےمذکور ہے کہ آنحضرت محمدﷺ کے دور میں ایک اذان حضرت بلالؓ دیتے تھے جوتہجداورسحری کی اطلاع کیلئے ہوتی تھی،اوردوسری اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ دیتے تھےجوفجر یعنی صبح صادق طلوع ہونےکے بعد دیتے تھے،مذکورہ واقعہ اور دیگر احادیث سے یہ بات صراحتا ًمعلوم ہوتی ہے کہ سحری کےختم ہونےکا وقت طلوعِ صبح صادق ہےاور اس کے طلوع کے بعد روزہ دار کیلئے کھانے پینے کی بالکل بھی اجازت نہیں ۔(دیکھئے عبارات نمبر3)
(3)۔۔۔صاحبِ تفسیرِمنیرؒ لکھتے ہیں کہ جوشخص صبح صادق طلوع ہونےکےبعدتک سحری کرتارہاتوائمہِ
اربعہ کا اتفاق ہے کہ اس شخص پر اس روزہ کی قضاء واجب ہے۔(دیکھئے عبارت نمبر4)
(4)۔۔۔جہاں تک ابوداؤد میں موجودحدیث(إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ فَلاَ يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِىَ حَاجَتَهُ مِنْهُ،’’جب تم میں سے کوئی(فجرکی) اذان سنےاور(کھانے یا پینے)کابرتن اس کے ہاتھ میں ہوتواسے نہ رکھے ،بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے‘‘) کاتعلق ہے تومکمل احادیث کے مجموعہ پر نظر نہ ہونے کی وجہ سےیہ حدیث صرف ظاہری طورپرمذکورہ بالا آیت ِقرآنی اور دیگراحادیث کے خلاف نظر آتی ہے،لیکن حقیقت میں دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہےکیونکہ حدیث کی اہم کتاب’’مشکوۃ‘‘ کی شرح ’’مرعاۃ‘‘ میں اس حدیث کی تشریح میں لکھاہےکہ ’’النداء‘‘سے مرادفجر کی اذان نہیں ہے بلکہ حضرت بلال ؓ کی اذان ہے جو صبح صادق سے پہلےصبح کاذب کے وقت دی جاتی تھی(دیکھئے عبارات نمبر3اور5)لہٰذاسحری کااختتامی وقت طلوعِ صبحِ صادق ہےنہ کہ اذانِ فجرجس کی تائیدخودابوداؤد کی وہ تمام روایات ہیں جو ’’باب وَقْتِ السُّحُورِ‘‘ میں ذکرکی گئی ہیں جن سے صراحتا ًمعلوم ہورہا ہے کہ سحری کے ختم ہونے کا وقت طلوعِ صبح صادق ہے(دیکھئے عبارات نمبر6)
.
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں ابوداؤدشریف کےایک حدیث کے ظاہری معنی کو لیکر قرآن ،احاديث ، ابوادؤد شریف کی دوسری متعدداحادیث اور مفسرین و محدثین کی تشریحات سے نظریں چراکرصبح صادق طلوع ہونے کے بعد اذان فجریا اس کے بعدتک سحری کاوقت ثابت کرنایا کھانےکی اجازت دیناہرگزدرست نہیں ہے۔ *لہذامعلوم ہوا کہ:*
.
*(الف)۔۔۔ سحری کا اختتامی وقت ’’طلوعِ صبحِ صادق‘‘ہےنہ کی اذانِ فجر،اس لئےاذانِ فجرتک کھاناپینادرست نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں رمضان میں عموماً صبح صادق طلوع ہونے کےچند منٹ بعد فجر کی اذان دی جاتی ہے، اور ایسی صورت میں اگرکوئی اذان تک کھاتارہاتواس کا روزہ نہ ہوگا،بلکہ اس روزہ کی قضاء لازم ہوگی،اس لئے بہتر اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہونےسے بھی تقریباًدو،چارمنٹ پہلے کھانے پینے سےرک جائیں۔*
.
*(ب)۔۔۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ اپنے شہر کے کسی معتبر دینی ادارے کا سحری و افطاری کا نقشہ لے لیا جائے اور اسی کے مطابق سحری و افطاری کی جائے،کیونکہ موجودہ دورمیں اپنے مشاہدہ سے صبح کاذب وصادق کا اندازہ لگانا تقریبا ناممکن ہے۔*
(1)التفسير الحديث – (6 / 300)
كناية عن بزوغ الفجر الصادق الذي يفرق بين ظلمة الليل وضوء النهار
أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير – (1 / 166)
{الْخَيْطُ الأَبْيَضُ} الفجر الكاذب وهو بياض يلوح في الأفق؛…{الْخَيْطِ الأَسْوَدِ} : سواد يأتي بعد البياض الأول فينسخه تماماً.
(2) تفسير البغوي – (1 / 208):
واعلم أن الفجر فجران كاذب وصادق، فالكاذب يطلع أولا مستطيلا كذنب السرحان يصعد إلى السماء فبطلوعه لا يخرج الليل ولا يحرم الطعام والشراب على الصائم، ثم يغيب فيطلع بعده الفجر الصادق مستطيرا ينتشر سريعا في الأفق، فبطلوعه يدخل النهار ويحرم الطعام والشراب علىالصائم.
الكشف والبيان – تفسير الثعلبي – (2 / 80):
والفجر إنشقاق عمود الصبح وابتداء ضوءه ، وهو مصدر من قولك فجرّ الماء يفجر فجراً إذا إنبعث وجرى شبهّه شق الضوء بظلمة الفجر ، الماء الحوض إذا شقه وخرج منه وهما فجران ، أحدهما : يسطع في السماء مستطيلاً كذّذ السرحان ولا ينتشر فذلك لا يحل الصلاة ولا يحرم الطعام على الصائم وهو الفجر الكاذب .
والثاني : هو المستطير الذي ينتشر ويأخذ الأفق ضوء الفجر الصادق الذي يحل الصلاة ويحرم الطعام على الصائم وهو المعني بهذه الآية .
(3) صحيح مسلم – عبد الباقي – (2 / 770):
لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا بياض الأفق المستطيل هكذا حتى يستطير هكذا وحكاه حماد بيديه قال يعني معترضا
.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (2 / 573):
680 – (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (إِنَّ
بِلَالًا يُنَادِي) أَيْ: يَذْكُرُ وَقَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: يُؤَذِّنُ (بِلَيْلٍ) أَيْ: فِيهِ يَعْنِي لِلتَّهَجُّدِ أَوْ لِلسُّحُورِ، لِمَا وَرَدَ فِي خَبَرِ: " إِنَّهُ نُهِيَ عَنِ الْأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ " وَإِنْ قِيلَ بِضَعْفِهِ " (فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ) اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، وَكَانَ يُنَادِي بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الصَّادِقِ،
.
جامع الأحاديث – (17 / 201):
17949- لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا هذا البياض وفى لفظ ولا بياض الأفق المستطيل حتى يستطير (الطيالسى ، ومسلم ، والنسائى ، وابن خزيمة ، والدارقطنى عن سمرة بن جندب)
.
السنن الكبرى للبيهقي – (1 / 380):
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :« لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا بياض الأفق المستطيل حتى يستطير هكذا ».
.
الجامع لأحكام القرآن – (2 / 318):
روى مسلم عن سمرة بن جندب رضي اللّه عنه قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم : " لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال ولا بياض الأفق المستطيل هكذا حتى يستطير هكذا". وحكاه حماد بيديه قال : يعني معترضا
.
تفسير ابن كثير-ط دار طيبة – (1 / 515):
الإمام أحمد: حدثنا موسى بن داود، حدثنا محمد بن جابر، عن قيس بن طَلْق، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "ليس الفجرُ المستطيل في الأفق ولكنه المعترض الأحمر" . ورواه أبو داود، والترمذي ولفظهما: "كلوا واشربوا ولا يَهِيدَنَّكُمْ الساطع المصعد، فكلوا واشربوا حتى يعترض لكم الأحمر".
وقال ابن جرير: حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، عن شيخ من بني قشير: سمعت سَمُرة بن جُنْدَب يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يغرنكم نداء بلال وهذا البياض حتى ينفجر الفجر، أو يطلع الفجر".
ثم رواه من حديث شعبة وغيره، عن سوادة بن حنظلة، عن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يمنعكم من سَحُوركم أذان بلال ولا الفجر المستطيل، ولكن الفجر المستطير في الأفق" .
قال: وحدثني يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن عُلَية، عن عبد الله بن سَوادة القُشَيري، عن أبيه، عن سمرة بن جندب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يغرنكم أذان بلال ولا هذا البياض، تعمدوا الصبح حين يستطير"
ورواه مسلم في صحيحه عن زهير بن حرب، عن إسماعيل بن إبراهيم -يعني ابن علية -مثله سواء .
وقال ابن جرير: حدثنا ابن حمَيد، حدثنا ابن المبارك، عن سُلَيمان التيمي، عن أبي عثمان النهدي، عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يمنعَنّ أحدكم أذان بلال عن سحوره -أو قال نداء بلال -فإن بلالا يؤذن -أو [قال] ينادي -لينبه نائمكم وليَرْجع قائمكم، وليس الفجر أن يقول
(4)التفسير المنير للزحيلي – (2 / 158):
ومن شك في طلوع الفجر، لزمه الكف عن الأكل، فإن أكل مع شكه، فعليه القضاء كالناسي، في مذهب مالك، وقال أبو حنيفة والشافعي: لا شيء عليه حتى يتبين له طلوع الفجر. فإن تبين طلوع الفجر وجب عليه القضاء باتفاق أئمة المذاهب إذ «لا عبرة بالظن البين خطؤه».
(5) مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح – (6 / 931):
المراد بالنداء الأذان الأول أي أذان بلال قبل الفجر لقوله {صلى الله عليه وسلم} إن بلالاً يؤذن بليل فكلوا وأشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم.
(6) سنن أبى داود – (2 / 275):
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ يَمْنَعَنَّ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ وَلاَ بَيَاضُ الأُفُقِ الَّذِى هَكَذَا حَتَّى يَسْتَطِيرَ ».
.
سنن أبى داود – (2 / 275):
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سَحُورِهِ فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ – أَوْ قَالَ يُنَادِى – لِيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ وَيَنْتَبِهَ نَائِمُكُمْ وَلَيْسَ الْفَجْرُ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا ». قَالَ مُسَدَّدٌ وَجَمَعَ يَحْيَى كَفَّيْهِ حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا وَمَدَّ يَحْيَى بِأُصْبَعَيْهِ السَّبَّابَتَيْنِ.
.
سنن أبى داود – (2 / 275):
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلاَ يَهِيدَنَّكُمُ السَّاطِعُ الْمُصْعِدُ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَعْتَرِضَ لَكُمُ الأَحْمَرُ ».
واللہ تعالی اعلم بالصواب
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“