گوبی سے لے کر تھر، صحرائے عرب، صحارااور پھر امریکہ کے موہاوے تک دنیا میں صحرائی پٹی ہے۔ یہ پٹی یہاں پر ہی کیوں؟ اس کی وجہ زمین کی گردش کی وجہ سے چلتی تجارتی ہواوٗں کا رخ ہے جس وجہ سے یہاں بارش نہیں ہوتی۔ ان ریگزاروں میں سے صحارا سب سے بڑا ہے۔ امریکہ کے رقبے جتنا یہ صحرا آج ایک بے رحم جگہ ہے۔ کیا یہ ہمیشہ سے ایسا تھا؟ نہیں۔ یہ زمین کی بیس ہزار سالہ گردشی wobble کے ساتھ یہ بدلتا رہا ہے۔ آج سے سات ہزار سال قبل یہ علاقہ سرسبز تھا اور انسان یہاں آباد تھے۔ یہاں پر دریا بھی تھے اور جھیلیں بھی۔ صرف سو سال کے مختصر عرصے میں یہ سبز علاقہ صحرا میں بدل گیا۔ صحرا اور سبزے کی آنکھ مچولی تیس لاکھ سال سے جاری ہے۔ لیکن اس مسلسل متغیر زمین کے چکر کئی اور طرح کے بھی ہیں۔ زمین کی متحرک پلیٹس کا مطلب یہ کہ یہاں پر چار کروڑ سال پہلے ٹیتھس کا سمندر تھا۔
اس صحرا میں ہمیں آبی مخلوقات کی باقیات بکثرت نظر آتی ہیں۔ اہرامِ مصر کے پتھروں میں ہمیں چھوٹے سمندری کیڑوں کے فاسل ملتے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ یہ مٹی جہاں سے لی گئی، وہ تاریخ میں ساڑھے تین کروڑ سال پہلے زیرِ آب تھی۔ ان پتھروں میں موجود فاسلز میں دنیا کے سب سے بڑے یک خلوی جاندار ملے ہیں۔ صحرا میں گھونگھے اور جھیلوں میں رہنے والے جانداروں کی باقیات پائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں پر جو سب سے حیران کن ہے، وہ قاہرہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور حیتان کی وادی ہے۔ اس جگہ پر رسائی کی مشکلات کی وجہ سے یہ بہت عمدہ طریقے سے محفوظ رہی۔ حیتان عربی میں وہیل کو کہتے ہیں اور یہاں پر وہیل کے آباء کی فاسل بکثرت ملتے ہیں۔ آبی پودوں کی جڑیں اور دوسرے آثار ہمیں یہاں پر گزری داستان سناتے ہیں۔
یہ سمندر اس جگہ پر زیادہ گہرا نہ تھا۔ وہیل یہاں پر اپنے بچے کی پیدائش کے لئے آتی تھیں۔ یہاں پر زیادہ باقیات نوزائیدہ وہیل کی ہیں لیکن کچھ بہت بڑے سائز کی بھی ہیں۔ سب سے بڑی کا سائز ساٹھ فٹ کے قریب ہے۔
زندگی کی ابتدا پانی سے ہوئی اور زندگی پانی سے خشکی کی طرف آئی۔ وہیل یا سمندری گائے جیسے بڑے ممالیہ زندگی کا وہ باب ہیں جب یہ سفر خشکی سے واپس پانی کی طرف ہوا۔ یہاں پر پائی جانے والی باقیات موجودہ وہیل سے مختلف ہیں۔ اس وقت ابھی وہیل نے اپنے ٹانگیں نہیں کھوئی تھیں۔ غیرمتوقع طور پر یہاں ملنے والے اکیس میٹر لمبے ڈھانچے میں تیراکی کے لئے فلپر کے ساتھ پچھلی ٹانگیں، پاوٗں اور پنچے سمیت دکھائی دیتی ہے۔ یہاں پر کئی ملین سال کے فاسلز محفوظ ہیں اور اس نوعیت کی دنیا کی بہترین جگہوں میں سے ہے۔ یہ وہیلز خشکی سے سمندر کی طرف سفر کی درمیانی کڑیاں ہیں۔ نہ صرف وہیل بلکہ سمندری گائے کے اور مچھلیوں کے فاسل بھی محفوظ ہیں۔
قصر الصغریٰ کی پوری فارمیشن پرانی زندگی کے زبردست ریکارڈ کیلئے مشہور ہے لیکن اس میں واقع بارہ میل لمبی وادی کے حیران کن فاسل یہاں کی سب سے بڑی اٹریشکن ہیں۔ یہاں تک سڑک کی رسائی نہ ہونے کا مطلب یہ کہ صرف فور وہیل کی جیب سے یہاں پر ایک مشکل سفر کر کے پہنچا جا سکتا ہے لیکن ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ دنیا کے سب سے بڑے ریگستان میں مچھلیاں دیکھنے آتے ہیں۔
آج کے اس گرم اور ظالم صحرا کے سفر کے دوران جو چیز نمایاں نظر آتی ہے، وہ یہ کہ قدرت نے یہاں سے سبز رنگ جیسے چھین لیا ہو۔ مگر یہ کبھی نیلگوں پانی کا ساحل تھا۔ اس جگہ دریا بھی تھے اور جھیلییں بھی۔ صحارا جیسے لق و دق صحرا کے نیچے صاف پانی کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر دفن ہیں۔ اس کے اپنے جنوبی حصے میں چاڈ سے ہمیں 2001 میں سب سے پرانی دو ٹانگوں پر چلنے والے انسان نما کی باقیات ملی ہیں (یہ چاڈ سے ملنے والا ساحل اینتھروپس ہے)۔ صحارا اس وقت ایکٹو تحقیق کی جگہ ہے۔ اس میں ہم نہ صرف یہاں سے، بلکہ سمندر میں جانے والی اس کی ریت اور سیٹلائٹ کی مدد سے اس کی سطح کے نیچے سے اس کو سٹڈی کر رہے ہیں۔ یہاں پر قدیم آبی زندگی کی باقیات آج کی دنیا کے سب سے بڑے جنگل کیلئے کھاد کا کام کر رہی ہیں۔ یہ اس متغیر زمین کے چکر ہیں۔