ترجمانی:-مولاناسیدسلمان الحسینی الندوی
میرا احساس یہ ہے کہ صہیونیت ایک سیاسی اور دینی تحریک کی حیثیت سے یہودی دین کا ضمیمہ ہے ، جودو ٹھوس بنیادوں تورات اور تلمود پر قائم ہے اور میرا خیال ہے کہ صہیونی ذمہ داروں کے پروٹوکول دینِ یہود کی تیسری بنیاد و اساس ہیں ، موجودہ یہودی دین کا حضرت موسی علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں ، یہ دین محرَّف ہے ، یہودیوں کے مجرمانہ کردار کا پس منظروہ مظالم نہیں ہیں جن کا انہوں نے اپنی طویل تاریخ میں سامنا کیا ، بلکہ درحقیقت ان کا یہ محرف دین ہی ان کے مجرمانہ مزاج کا سبب ہے ، تورات و تلمود ان کے بگڑے ہوئے دینی پروہتوں اور بزرگان صہیون کے تخریبی منصوبوں کی نمائندگی کرتی ہیں ، ان کے اس محرف دین نے ان کے اندر جرم ، کینہ ، کرپشن ، پستی وگراوٹ ، درندگی ، تعصب اور غرور کا آمیزہ تیار کر دیا ہے جس نے ان کے لیے خونریزی ، معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ سفاکی ، دروغ بیانی اور بدعہدی کو اعلی اخلاق باور کرا رکھا ہے _
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ صہیونیت یہودیت سے جدا گانا کوئی شٸے ہے ، حالانکہ حقیقت میں وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ، صہیونیت یہودیت کے نفاذ کا آلہ کار ہے ، کوئی بھی یہودی آپ کو صہیونیت کا مخالف نہیں ملے گا جس کا مقصد یہ ہے کہ یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر بسایا جائے اور ایک عظیم اسرائیلی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے ، جو یہودی بظاہر صہیونیت سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں وہ ایک خاص منصوبے کے تحت ایسا کرتے ہیں اور ان کی تعداد ڈیڑھ کروڑیہودیوں میں چند ہزار افراد کی ہے _
میری نظر میں صہیونیت ، پر تشدد یہودیت کا دوسرا نام ہے
یہودی مٶرخ ” ایلی لیوی “ کہتا ہے
” ہم جب غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صہیونیت چار مختلف ادوار پر محیط ہے ، پہلا دور تورات کا دوسرا ہرزل سے پہلے کا ، تیسرا دورہرزل کےزمانے کاجو 1904 سے شروع ہوکر 1918 پر ختم ہوتا ہے ، چوتھا دور بلفورکے اعلان کے بعد کا “
یہی مورخ مزید کہتا ہے
” ہم کہہ چکے ہیں کہ سب سے پہلے موسی نے صہیونیت کا محل تعمیر کیا ، اس کو مستحکم کیا اور اس کے سیاسی اصول کی نشرواشاعت کی ، واقعات اس کے شاہد ہیں کہ صہیونیت ایک طویل زنجیر کی کڑی ہے “
اس یہودی مٶرخ کے اقتباس سے یہ امر واضح ہے کہ صہیونیت ہی فی الحقیقت وہ یہودی تحریک ہے جس نے حضرت موسی کے زمانے سے قومی روح کو بیدار کیا جیسا کہ اس کا دعوی ہے ، اس لیے یہودیت اور صیہونیت میں فرق کرنا مناسب نہیں ہے_
یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ہر یہودی صہیونی ہوتا ہے ، یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صہیونی یہودی ہو کیونکہ بعض مغربی زعماء جن کو صہیونیت نے خریدا تھا اورانکے ضمیرکاسوداکیا جیسے چرچل ، ایڈن ، ٹرومین ، آٸزن ہاور ، کنیڈی اورجانسن وغیرہ اس پر فخر کرتے تھے کہ وہ صہیونیت کے مددگار ہیں ، چرچل اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ خالص صہیونی ہے اور اسے اس پر فخر ہے ،
یہی حال 1917م کے برطانیہ کے وزیر خارجہ ” آرتھر بلفور “ کا تھا جو صہیونیت کے مقاصد کی تکمیل کے لیے بڑا پرجوش تھا اورروتشیلڈ اورحاٸم واٸزمین (ہرزل کے ناٸب)کا گہر ا دوست تھا ، یہ بلفوروہی ہے جس نے یہودیوں کے لیے فلسطین کو وطن بنانے کا حسب وعدہ اعلان کیا_
اقتباس از ” یہودی خباثتیں “ صفحہ ٥٨ و ٥٩