19؍فروری 1996*
تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی، قطعہ نگار اور معروف شاعر” صہباؔ اختر صاحب “ کا یومِ وفات…
نام اختر علی رحمت اور صہباؔ تخلص تھا۔ ۳۰ ؍ستمبر۱۹۳۱ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ تعلیم وتربیت والدہ کی سرپرستی میں بریلی اور علی گڑھ میں ہوئی۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے ۔ نامساعد حالا ت کی وجہ سے وہ مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے انھوں نے کئی جگہ ملازمت کی۔ بعدازاں محکمۂ خوراک میں انسپکٹر ملازم ہوگئے اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچے۔ صہبااختر کو شعر وسخن کا ذوق اوائل عمر سے تھا۔ان کا کلام ملک کے مقتدر ادبی رسالوں میں چھپتا تھا۔ریڈیو سے وابستہ ہونے کے بعدگیت لکھے اور ان گیتوں کی بدولت فلم لائن میں پہنچے۔ سات سال تک روزنامہ ’حریت‘ سے وابستہ رہے۔ روزنامہ ’مشرق‘ میں قطعات بھی لکھتے رہے۔ صہباؔ اختر نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزلوں کی نسبت نظمیں زیادہ کہی ہیں۔ انھوں نے ملی نغمے اور دوہے بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ۱۹؍فروری۱۹۹۶ء کو کراچی میں اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’سرکشیدہ‘ (شعری مجموعہ)، ’اقراء‘، ’سمندر‘،’ مشعل‘ ۔
اعزاز :- صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:258
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف شاعر صہباؔ اختر کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ
—
بیانِ لغزش آدم نہ کر کہ وہ فتنہ
مری زمیں سے نہیں تیرے آسماں سے اٹھا
—
ثبوت مانگ رہے ہیں مری تباہی کا
مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے
—
تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا
چپ رہنے کی عادت نے کچھ اور ہمیں بد نام کیا
—
شاید وہ سنگِ دل ہو کبھی مائلِ کرم
صورت نہ دے یقین کی اس احتمال کو
—
میرے سخن کی داد بھی اس کو ہی دیجئے
وہ جس کی آرزو مجھے شاعر بنا گئی
—
میں اسے سمجھوں نہ سمجھوں دل کو ہوتا ہے ضرور
لالہ و گل پر گماں اک اجنبی تحریر کا
—
ہمیں خبر ہے زن فاحشہ ہے یہ دنیا
سو ہم بھی ساتھ اسے بے نکاح رکھتے ہیں
—
چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں
—
جاؤں کہاں کہ ترکِ تمنا کے باوجود
ہے ہر طرف حصارِ تمنا کھنچا ہوا
—
میرے لیے وجود کا دریا سراب تھا
ناکامیوں کے باب میں میں کامیاب تھا
—
کل جہاں اک آئینہ ہے حسن کی تحریر کا
حال کس پتھر پہ لکھا ہے مری تقدیر کا
—
ہر نئے چہرے سے پیدا اک نیا چہرا ہوا
طاقِ نسیاں پر ہے کوئی آئنہ رکھا ہوا
—
اس طریقے کو عداوت میں روا رکھتا ہوں میں
اپنے دشمن کے لیے حرفِ دعا رکھتا ہوں میں
—
آنکھ حائل ہے تری دید میں اچھا ہوگا
آج یہ آخری پردہ بھی اٹھا دیکھتا ہوں
—
محیطِ مثلِ آسماں زمین فکر و فن پہ ہوں
سکوت کا سبب ہے یہ مقامِ لا سخن پہ ہوں
—
وہ رات چشمۂ ظلمات پر گزاری تھی
وہ جب طلوع ہوا مجھ پہ روشنی کے ساتھ
—
مومن کے ساتھ صرف خدا ہے صنم نہیں
اس بیکسی کو عقدۂ مشکل کا حل نہ لکھ
—
اس بے طلوع شب میں کیا طالع آزمائی
خورشید لاکھ ابھرے لیکن سحر نہ آئی
—
خواب کی صورت کبھی ہم رنگ افسانہ ملے
چاند جیسے لوگ ہم سے ماہتابانہ ملے
—
بہ ہر عالم برابر لکھ رہا ہوں
میں پیاسا ہوں سمندر لکھ رہا ہوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
صہباؔ اختر