(Last Updated On: )
تبصرے ، تجزیے ، تاثرات
السلام علیکم!
’’شعور ادراک ‘‘کا شمارہ نمبر ۵ موصول ہوا جس کی رسید موبائل کی پیغام سے ارسال کردی تھی۔کتاب اور کاغذ سے بیزاری کے اِس عہد میں اس مجلے کا ملنا کیا تھا کہ یوں لگا کہ جیسے مسیحائی کی تاثیر روح تک پہنچ گئی اورآنکھوں کی تراوت کا عالم ناقابلِ بیان۔شکریہ!
اس کرونا کی ماری فضا میں ایک بادِصبا کے جھونکے یعنی مجلہ’’ شعور و ادراک ‘‘کے پہنچانے کا ۔سرکار سلطان باہوؒ کے کلام سے شروع ہونے والا مجلے نے ایک الگ ہی سماں باندھ دیا۔ پھر حمد و نعت کے کیا ہی کہنے،یاورؔ کی نعت کا یہ شعر تو یاد ہی رہ گیا :
رنج دیتا ہے کسی کو نہ زیاں دیتا ہے
وہ ایسا ہے کہ دشمن کو اماں دیتا ہے
محمد یوسف وحید کی ’’اپنی بات۔۔۔۔‘‘نے اس کے عزم اور اس کی مضبوط شخصیت پتا دیا ہے کہ نامساعد حالات ہوں یا راہ کی مشکلات یہ تو رکاوٹ نہیں بنتیںبلکہ یہ تو تحرک کا موجب ہیں ،محمد یوسف وحید تو واقعی متحرک انسان ہیں۔اللہ نے اُن کو ادب کی خدمت کے لیے ویسے ہی چن لیا کہ جیسے اللہ چن لیا کرتا ہے۔ان کی اہلیت اور صلاحیت میں کلام نہیں۔ڈھیرو ں دُعائیں اور مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی۔
خصوصی گوشہ سید محمد فاروق القادری کی بارُعب اور جاذب تصویر نے جو تاثر دیا وہی اُن کے گوشے کی تحریروں کا نتیجہ بھی تھا۔ مضمون سیدنا امامِ اعظمِ ابو حنیفہ کا کیا کہنا۔ شاہ صاحب کا علمی قد کاٹھ واقعی تھا کہ ان کا گوشہ ترتیب دیا جائے اور اہلِ فکر ونظر کا ان سے تعارف ہو۔یہاں ایک اور نکتہ خاص ہے کہ جب سے ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں بی ایس میں ایم فل کیے مقالات کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اساتذہ اور ا سکالرز اپنے اپنے مقالات کے لیے شخصیات اور موضوعات تلاش کر تے ہیں ۔( بحیثیت اُستاد میرے پاس بھی سوال آتے ہیں گو میں یونیورسٹی یا ایسے کالج میں نہیں) لیکن پھر بھی موضوع کی تلاش میں مدد کے تقاضے ہوتے رہتے ہیں۔آپ کے مجلے کا یہ سلسلہ یقینابہت اسکالرز کی بالواسطہ مدد کر سکتے ہیں۔اس سلسلہ کو جاری اور ساری رکھیے گا اور میں بھی چند اسمائے گرامی آپ کو بتاؤں گا کہ جن کا گوشہ ہم مل کر ’’ شعوروادراک‘‘ میں لگائیں گے ۔اس سلسلے کے اہتمام پر میں آپ کی پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
مواد کے اعتبار سے آپ کا شمارہ بہت ثروت مند ہے،آپ یقین جانیے آپ کے شمارے کے موضوعاتی تنوع نے مرشد احمد ندیم قاسمی صاحب کے’’ فنون ‘‘کی یاد دِلا دی ہے۔اس بات میں کوئی دو رَائے نہیں ہیں کہ آپ کے مجلہ’’ شعور وادراک‘‘ میں مواد کا معیار اور مقدار دونوں قابلِ رشک ہیں۔یہاں میں یہ بات بھی کہتا چلوں کہ اللہ نے یہ خاص ذمہ داری آپ کو سونپی ہے اور اسی کی مدد ِخاص بھی آپ کے ساتھ ہے۔
اب میں آپ کو بتاؤں کہ کشور کمار کی’’ اُترن ‘‘نے تو رُلادیا،کہانی اختصار کے ساتھ بیان ہوئی اور ہندی الفاظ نے بھی اس افسانے کے تاثر کو چوکھا کیا۔فن وشخصیت کے باب میں مجھے حبیب الرحمان کا مضمون سرائیکی کے ملک الشعرا ،ڈاکٹر کبیر اطہر کا مضمون ’’نئی جہات کا شاعر۔شاہد ماکلی‘‘ بہت پسند آیا،باقی مضامین بھی خوب تھے اور محنت سے لکھے گئے تھے۔ اگر خصوصی مطالعہ کی باب کی بات کریں تو افتخار علی کا مضمون’’ جنوبی پنجاب میں اُردو افسانہ: رحجانات اور امکانات‘‘ نے لطف دیا گویا یہ سندی تحقیق کے محضر پر لکھا ہے۔ مضمون اپنے لکھاری کی محنت اور سلیقہ مندی کا گواہ ہے ،لکھاری کے اُسلوب نے اس مضمون کو خاصے کی چیز بنا دیا۔ راؤمظہر الیاس کا مضمون’’ معاصر شعرا پر اقبال کے اثرات‘‘ایک شاندار مضمون پڑھنے کو ملا، را ؤمظہر نے بڑی جاں فشانی سے ان اثرات کی تلاش کی ۔اقبال کی شاعری کے مرتبہ اثرات یقینا لفظیات،صوتیات، نحویات اورمعنیات ہر چار صورتوں پر مرتب ہوئے ہیں اس حوالے سے بھی کام کیا جاسکتا ہے جس کو عرفِ ِعام اُسلوبیات کہا جاتا ہے۔ یہ ایک طے شدہ اَمر ہے کہ شعرا کا اپنے معاصر پر اور متاخرین پر بھی اَثر ہوتا ہے۔ لفظیات کے اعتبار سے تو ہمارے فیض احمد فیض بھی شاعرِ مشرق کے خوشہ چین ہیں اور یاد رَہے اس خوشہ چینی سے کسی بھی شاعر کا قد گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے کہ تخلیق کارنے اپنی ادبی روایت اور اساتذہ کو پیش ِنظر رکھا ہے۔حافظہ عائشہ صدیقہ کا مضمون’’ پاکستان کے لیے فکر ِاقبال کی ضرورت و اہمیت‘‘ایک دردِدل سے لکھا گیا مضمون ہے،ا س حوالے سے کام کی بہت گنجائش ہے، ہماری خوش قسمتی ہے کہ اب یونیورسٹیز میں پاکستان کے حوالے سے کام سامنے آنے لگا ہے ، نیز یہ بھی کہ فکر ِاقبال کی تجسیم ہی پاکستان کی نظریاتی اساس ہے۔گیریژن یونیورسٹی میں ڈاکٹر ارشد اویسی صاحب پاکستا ن اور مشاہیرِ پاکستان کی محبت سے سرشار شخصیت ہیں۔علمی اور ادبی مجلہ نور تحقیق اعلیٰ پائے کارسالہ ہے جہاں اس حوالے سے کام سامنے آرہا ہے۔عائشہ کا یہ سندی تحقیق کے تقاضوں کو پورا کرتا مضمون بہت پسند آیا ہے۔نصرت بخاری کا مضمون ’’ذاتی کتب خانے ‘‘ سے بھی خاصی معلومات حاصل ہوئیں۔محمد حسین تسبیحی فارسی محقق نے بڑی جاں فشانی سے سارے پاکستان کے کتب خانوں کا تعارف کرایا ہے لیکن انھوں نے ان کتب خانوں میں صرف فارسی اور عربی کی قدیم کتب کی فہرست تیا رکی ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ا ن کتب خانوں کا مکمل تعارف کرایا جائے اور تمام نہ سہی لیکن تحقیق و تنقید اور اسلامی تاریخ اور دینیات کی کتب کا اشاریہ تیار کیا جائے تا کہ ز دُوردَراز کے پڑھنے والے لوگوں اور محققین کو اس مضمون اور فہرست سے رہنمائی مل سکے ۔بہر حال نصرت بخاری کا مضمون لائق تحسین ہے۔
ڈاکٹر حمیرا حیات کا مضمون’’ ترقی پسند تنقید کا تجزیاتی مطالعہ‘‘کو پڑھنے سے قبل ہی ایک ذہن سا بن گیا۔لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے ترقی پسندتنقید کے اس موضوع کو کیا ہی خوش اُسلوبی سے برتا ہے، نہایت معروضیت سے لکھا گیا مضمون پڑھنے کو ملا ہے،لکھاری نے مضمون کو مضمون کے تقاضوں کے لحاظ سے لکھا اور ایک مکمل ترقی پسند تنقید کا خاکہ پیش کر دیا اور خود کو مضمون سے الگ رکھا ہے،یہ معروضیت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ورنہ اس طرح کے موضوعات کی بد قسمتی ہی یہی ہے کہ مصنف اصل موضوع پر حاوی ہو جاتا ہے اور پھر اس کا مسلک اَصل موضوع کو نقصان پہنچا تا ہے۔گو ڈاکٹر صاحبہ کا مضمون نہایت اختصار سے لکھا گیا ہے جبکہ اس موضوع کی وُسعت اور وقعت خاصی تھی لیکن اس مضمون کو پڑھتے وقت مجھے ڈاکٹر سید عبداللہ یاد آئے کہ وہ ایسے مضامین لکھتے تھے جوبالخصوص طلبہ و طالبات کے کام آتے اور مزید مطالعہ کی آمادگی پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حمیرا نے بھی اپنے اس مضمون میں معروضی انداز اپنایا اور اختصار سے لکھا۔بہت داد اِس مضمون کے لیے۔
’’آؤحجت تمام کرتے ہیں‘‘ایک متاثر کرنے والامضمون ہے۔ منیر انور کے تازہ لب ولہجے سے تعارف ہوا۔سیدہ شاہدہ مبین نے بڑی محنت سے مضمون لکھا اور بھلا ہوا کہ ڈھیر مثالیں پیش کیں کہ منیر انورکی شاعری کا ذائقہ چھکنے کو ملا۔منیر کا ہر ہر شعر داد خواہ ہے، ایک سنتے چلیں:
میرے اشعار کے جھروکوں سے…..اس کا حسن وجمال جھانکتا ہے
(ج کی تکرار نے بے پناہ لطف دیا)
مدیر مجلہ ’’شعور ادراک‘‘ محمد یوسف وحید کی تازہ تحقیقی کاوش ’’ خان پور کا ادب ‘‘خان پور کی ۱۲۰ سالہ علمی ،ادبی اور صحافتی تاریخ پر لکھے تبصرے اور تاثرات پڑھنے کا بھی مزا آیا اور ان اسلاف کو دلی خراج کہ جنھوں نے ایسے عظیم کا م کی بنیاد رکھی اور آج ہمیں ’’شعوروادراک‘‘ کی ایک مضبوط ٹیم ملی اور قلمی معاونین میسر آئے۔
حصہ شاعری بھی بہت خوب ہے خاص کر حیدر قریشی کے ماہیے ،فاخرہ بتول کی شاعری بڑی مدت بعد پڑھنے کو ملی۔باقی شعرا کلام بھی متاثر کن تھا مثلاً
عامر بھایا:
نگاہوں پر قابو ،یہ قتلِ عام کرتی ہیں
کہیں بے دم،کہیں نادم،کہیں بدنام کرتی ہیں
ڈاکٹرکبیر اطہر :
خود سے فرصت ہی نہیں میسر آئی ورنہ
ہم کسی اور کے ہوتے تو تمہارے ہوتے
ثمینہ راجہ:
نئی صدی ہے اور اس کے نئے تقاضے ہیں
ہر آدمی کی ضرورت بدلنے والی ہے
فیصل عجمی:
کس امتحان میں گزری ہے رات،مت پوچھو
وہ مجھ سے آنکھ چراتا ،چراغ سے میں
شاعری کا سارا حصہ بہت اچھا تھا ۔چند اَشعار لکھنے سے دوسرے شعرا پر سبقت دینا ہر گز مقصودنہیں۔ سبھی کے اَشعار نے لطف دیا۔ اللہ ترقی دے ۔آمین
بقول میر:
لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
….
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے
(شعور وادارک کا محب….ڈاکٹر عادل سعید قریشی ایبٹ آباد۔ایبٹ آباد پبلک سکول ،ایبٹ آباد)
٭٭٭
تسلیمات!..عزیزم محمد یوسف وحید، مدیر : شعوروادراک خان پور
اُمید ہے آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ آپ نے سہ ماہی’’ شعور و ادراک‘‘کے اگلے شمارے میں استادِ محترم حفیظ شاہد (مرحوم) کے بارے میں جو گوشہ شائع کرنے کا اعلان کیا ہے وہ اہلِ خانپور کے لیے لیے شادمانی کا جھونکا لے کر آیا ہے۔ اُمید ہے اس گوشے سے اُستاد مرحوم کی زندگی کے اہم گوشے اور اُن کا غیر مطبوعہ کلام سامنے آ سکے گا۔ اس کے لیے آپ سلمان بھائی سے رابطہ کرتے رہیں کہ وہ اُستاد مرحوم کا کلام متعلقہ احباب سے بازیاب کرا کے آپ کے حوالے کریں۔ استاد مرحوم کو ہم سے بچھڑے سات برس ہوئے۔ اپنے وعدے کے مطابق ان احباب نے اب تک وہ کلام نہیں چھپوایا۔ وہ احباب جب چاہیں اس کلام کو کتابی شکل دیتے رہیں، اس کو چھپوائیں، اس کے مرتبین میں اپنا نام لکھتے رہیں۔ ہمیں تو یہ خوشی ہو گی کہ استاد مرحوم کا اَن چھپا کلام سامنے آ گیا۔ لیکن ان سات برسوں کے تعطل اور انتظار کو دیکھتے ہوئے کم از کم اس موقع پہ آپ کے شمارے میں اگر وہ کلام شائع ہو جائے تو نہ صرف محفوظ ہو جائے گا بلکہ اس سے حفیظ شاہد (مرحوم) کے گوشے کی افادیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا نیز استاد مرحوم کے دوستوں، شاگردوں اور پرستاروں کو خوشی ہو گی۔ میں اس میل کے ذریعے سہ ماہی ’’ شعور و ادراک‘‘ کے اگلے شمارے کے لیے ’’میں اور استاذی‘‘ کے عنوان سے ایک تازہ مضمون بھجوا رہا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔ آپ کے لیے اور’’شعور و ادراک‘‘کی کامیابی کے نیک تمنائیں!
(یاور عظیم ۔’تملیذِ حفیظ شاہدؔ‘۔اُردو لیکچرار، ایم ٹی بی کالج، صادق آباد )
٭٭٭
’’ہے کاوشِ تری صد آفرین‘‘
’’شعورواِدراک‘‘ (جنوری تا مارچ ۱۲۰۲ء)
تُو ایک تھا مرے اشعار میں ہزار ہوا
اس اِک چراغ سے کتنے چراغ جل اُٹھے
’’شعور واِدراک‘‘ کے مذکورہ شمارے کا مطالعہ کیا تو یہ کاوش کسی ایسے ہی چراغ کی مانند محسوس ہوئی۔ جہد و کوشش کے معانی و مطلب کا پہلا نکتہ بھی یہی ہے کہ ’’ہمیشہ پہلا قدم اُٹھانا ہی مشکل ٹھہرتا ہے‘‘ اور یقینا ’’شعور واِدراک‘‘ کے مُدیر نے بھی یہ قدم اُٹھاتے ہوئے کئی بار سوچا ضرور ہو گا۔کہیں بادِ مخالف نے روکا ہوگا تو کہیں مصائبِ زمانہ نے ہتھیار پھینک دینے کی سرگوشی بھی کی ہو گی۔میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسا لمحہ یوسف وحید صاحب کے ذہن پر بھی نقش ہوگا۔ میری طرف سپاس تمہید ی لفّاظی کا مقصد قارئین کی سوچ’’اُس ایک چراغ کی لَو‘‘ تک لے جانا ہے۔در حقیقت محض تعریفی کلمات تک بات محدود نہیں ہو جاتی بلکہ نصب العین کی گہرائی تک رَسائی اصل صُورت عیاں کرتی ہے۔مولوی عبدالحق نے اُردو زبان کی ترقّی و ترویج کا بِیڑا اُس وقت اُٹھایا جب یہ زبان آغاز کے صِفرسے پاکستان میں عام کرنامقصود تھااُس وقت کی مشکلات میں یہ مشکل تو نہ تھی کہ کسی اُردو زبان کے آشنا کو اُردو بولنے کی ترغیب دی جارہی تھی اب تو المیہ یہ ہے کہ ’’آشنائی کے دعوے دار بھی اجنبی بن بیٹھے ہیں‘‘اور اُنہیں نئے سِرے سے فراموش شُدہ زبان کے حروفِ تہجّی سے ہم کنار کرنا ہے۔ اس طرح کی نازک ترین حالت میں علمی، ادبی اورثقافتی سطح پر قومی زبان کی اہمیت بہ زبانِ قلم بیان میں لانا یقینا قابلِ ستائش ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی زبان کی ترویج و اشاعت میں جرائد و رسائل نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ‘یہی وجہ ہے کہ یہاں بھی ترقی ٔ اُردو کی تاریخ میں جرائد نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور میری نظر میں اب’’شعور و اِدراک‘‘ بھی اُن رسائل کی فہرست میں شمار ہونے کے لیے بالکل تیارہے جن کا مقصد آنے والی نسلوں کو اُردو زبان کاروشن مستقبل سونپناہے یا اُنہیں ایک عظیم وراثت کا حق دار بنانا ہے۔
مذکورہ شمارہ پاک وطن کی تین اہم زبانوں کے سفر پر گام زَن ہے۔محترم یوسف صاحب نے ان تین زبانوں سے انصاف کرتے ہوئے ادبی نکتہ نظر سے رسالے کا معیار بھی قائم رکھاہوا ہے۔ مذکورہ شمارے میں گوشہ خصوصی ادبی شخصیت کے جزو میں’’قیس فریدی اور حیدر قریشی‘‘کے بعد ’’سیّد محمد فاروق القادری‘‘ سے مفصّل اور نہایت جامع انداز میں متعارف کروایا گیا۔ کسی ادبی شخصیت کی زندگی کے ہر پہلو پر نظر ڈالنے کے لیے بے شمار کُتب کا مطالعہ لازم ہوتا ہے لیکن یہاں اندازِ بیاں کچھ اس لیے بھی متاثر کُن ٹھہرتا ہے کہ ایک ’’شعورو اِدراک‘‘ کا مطالعہ اُس میں شامل شخصیت کے تمام تر ادبی حوالہ جات کی کامل ترجمانی کرتا ہے۔ مذکورہ شمارہ میں ڈاکٹر عمر حیات کا مضمون ’’تاریخ سازشخصیت‘‘صادق جاوید کا مضمون’’سر نگوں ہیں پرچم اَدب کے جہاں میں‘‘الفاظ کے خوب صورت چُناؤکے ساتھ سیّد محمد فاروق القادری کی شخصیت کے لیے عُمدہ خراجِ تحسین ہے الغرض اس گوشے کی زینت بننے والا ہر مضمون قارئین کے لیے سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔
مذکورہ شمارے میںایک بار پھر ہر حِصّے کی ترتیب کا خاص خیال رکھا گیاہے ۔شاعری،افسانے و خاکے ، فن وشخصیت اور تحقیقی و تنقیدی مضامین پڑھنے والوں کے لیے دل چسپ اندازِ بیان لیے ہوئے ہیں۔ بحوالہ ’’فرید یات‘‘ اس جُزو کے دونوں مضامین مختصر ترین صُورت میں کلامِ فرید کے اہم نکات کی نشان دہی ہے۔ راکب راجا کا مضمون بھی اس شمارے کے لیے نہایت خوب صورت چُناؤ ہے’’اُردو شاعری کا دبستان: ٹیکسلا‘‘ وہ جو ٹیکسلا شہر کو محض ثقافت اور نوادرات کی علامت سمجھتے ہیں اس مضمون کا مطالعہ اب اُن کے ذہن پر شہرِ ٹیکسلا کے علمی و ادبی دریچے بھی وَا کرے گا۔
میرے الفاظ سے بنتے یہ جملے طوالت پکڑتے جا رہے ہیں اگرچہ میری کوشش تھی کہ آج قصّہ مختصر ہی رہے لیکن جو پڑھاہے وہ دل ودماغ پر اس طرح نقش ہے کہ وہ اپنی پذیرائی کی راہ از خود نکال رہا ہے اور اگر اس ستائش کا کوئی بھی جزو میرے ذہن میں باقی رہ گیا ہے تو یقینا یہ ’’شعورواِدراک‘‘ کے ساتھ نا انصافی ہو گی‘ اس لیے جو کہنے کے لیے مَن راضی تھا اُس کا بڑا حصّہ قلم کی نذر کر دیاہے۔
میری دُعا ہے کہ یوسف صاحب کی یہ کاوش صد آفرین ہی رہے۔خان پور شہر سے روشن ہونے والا یہ چراغ ‘علم و ادب کے کئی چراغ روشن کرے اور اس روشنی کے سلسلے کا ہر چراغ اپنی لَو سے قابلیت کے نئے جوہر منظر پر لائے،ادب کی دُنیا کے نئے ادیب اُردو کے اُفق پر روشن چراغ بن کر صدا جَگمگائیں۔ آمین
عطیہ جدون۔ (صدر :شعبہ اُردو ، آرمی برن ہال کالج برائے طالبات۔ایبٹ آباد)
٭٭٭
السلام علیکم ! ….محترم مدیر مجلہ ’’ شعوروادراک‘‘ خان پور ۔ مزاج بخیر
علمی و ادبی مجلہ ’’ شعوروادراک‘‘، محمد یوسف وحید کی شاندار ادبی خدمات ۔۔۔ ضلع رحیم یار خان تعلیمی ، ادبی ، معاشی اور ثقافتی لحاظ سے کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔ اس ضلع میں جہاں ادبی اور تعلیمی کام ہو رہا ہے ‘ بہترین ادب تخلیق ہورہا ہے ۔ وہیں ضلع کی چاروں تحصیلوں میں مختلف شعبوں میں بہتر انداز میں کام جاری ہے اور یہاں کے رہنے والے اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ نوعیت کا کام کرکے دنیا بھر میں خود کو منوا رہے ہیں ۔ آج ذکر کریں کہ تحصیل خان پور کا جو اپنی زرخیزی اور زرعی پیداوار کے لحاظ سے بہترین نتائج دے رہا ہے ۔ خان پور میں ادبی لحاظ سے بہت عمدہ کام جاری ہے ۔ جواں سال ادیب اور ادبی رسائل کے مدیر محمد یوسف وحید مسلسل گزشتہ ۱۴ سال سے وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ناصرف بچوں کے لیے ادبی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ادبی ، تعلیمی اور ثقافتی محاذ پر کسی حد تک سہ ماہی ’’شعوروادراک ‘‘ شائع کرکے مفید معلومات پہنچا رہے ہیں ۔
علمی و ادبی حلقوں میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑھ رہے ہیں ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی اب انہوں نے ادبی کام کے لیے بیڑا اُٹھایا ہے ۔ اُردو ادب کے علاوہ مقامی ادب کے فروغ کے لیے قلم اُٹھایا بلکہ ضلع رحیم یار خان کے لکھنے والوں کے لئے نئے مواقع پید ا کئے اور بڑی ضخامت میں ’’ شعوروادراک‘‘ کے نام سے شاندار ادبی پرچے کی اشاعت کا بندوبست کرکے ادبی رزق پہنچانے کا انتظام کیا اور نئے ادب سے نئی تخلیقات سے لکھنے والوں کے لئے سامان کیا ۔ ’’ شعوروادراک‘‘ میں خان پو رکی مختصر ادبی تاریخ (۱۹۰۱ء تا ۲۰۲۰ء )شائع کر کے نئی نسل کو ادبی تاریخ سے ہمکنار کیا ہے جو ایک بہترین عمدہ ادبی کاوش ہے ۔ اس کے بعد نئے شمارہ میں ملک کے معروف دانشور اور شاعر قیس فریدی کا گوشہ شائع کرکے ایک اور بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کے وہ مستحق تھے ۔ برادرم محمد یوسف وحید ادبی تاریخ مرتب کرکے خود کو ایک دانشور اور ادیب کے طور پر منوا رہے ہیں ۔ جس سے محمد یوسف وحید بطور باصلاحیت ادیب اور خان پور کا ادبی نمائندہ بن کر سامنے آیا ہے ۔
’’ شعوروادراک‘‘ کی اشاعت ایک خوب صورت علمی و ادبی کاوش ہے جو سراہے جانے کے لائق ہے ۔ یہ ادب کی عمدہ و اعلیٰ مثال ہے جس میں ماضی کے نمائندہ ادیبوں ، شاعروں کو ناصرف شامل کیا بلکہ آج کے ادیبوں اور شاعروں کو شامل کرکے خوب صورت کہکشاں مرتب کر دی اور یقینا یہ بات اہلِ قلم کے دلوں تک پہنچنے کا ذریعہ بنے گی اور نئے لکھنے والوں کے لئے مشعل کا کام دے گی ۔ جبکہ مجلہ ’’ شعوروادراک ‘‘ میں راقم کا مضمون ’’ ضلع رحیم یار خان میں پنجابی ادب کا جائزہ ‘‘ بھی شامل ہے ۔ محمد یوسف وحید آج کا اہلِ قلم ہے اور آنے والا کل بھی اس کا ہوگا ۔
ملک بھر کی یو نیورسٹیوں میں تاریخی اور تحقیقی کام ہورہا ہے اور محمد یوسف وحید ’’ شعوروادراک‘‘ کے ذریعے تخلیقی کام کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا حِصّہ ڈال رہے ہیں ۔ جو اُس کو تاریخ میں زندہ رکھے گا ۔ محمد یوسف وحید جیسے لوگ کم وسائل کے باوجود بڑے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ آج کے الیکٹرونک میڈیا اور جدید دَور میں ’’ شعوروادراک‘‘ کی مستقل اشاعت قابلِ فخر اور صد لائقِ تحسین ہے ۔
(خالد جاوید ،رحیم یار خان’’ ریٹائرمنیجر اوقاف داتا دربارلاہور )
مدیر ’’ شعوروادراک‘‘۔۔۔ محمد یوسف وحید ۔۔ ۔ السلام علیکم !
شہر کے اندھیروں کو اِک چراغ کافی ہے
سو چراغ جلتے ہیں اِک چراغ جلنے سے
(احتشام اختر)
اگرچہ خان پور کی سر زمین نے دنیا ئے ادب میں متعدد اہلِ علم واہلِ فن پیدا کیے مگر یوسف وحید صاحب نے کم وقت میں جو مقبولیت حاصل کی وہ اظہر من الشمس ہے۔ درج بالا شعر اُنہی پر صادق آتا ہے۔یوسف وحید کی علمی وادبی کاوشیں قابل تحسین ہیں‘جس طرح محبت اور جہد ِمسلسل سے’’ـــ شعور وادراک‘‘ کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں‘جریدے کی کامیابی کا سہرا اُنہی کے سرجاتا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ’’شعور و ادراک‘‘ کی اشاعت کا پہلا سال مکمل ہو گیااور وہ کامیابی سے شعوروآگہی کے سفر کی طرف رَواں دَواں ہے۔
حسب ِروایت جریدے کی کتابت و طباعت نفیس ہے۔ مضامین کا معیار بلند ہے۔صوری اور معنو ی ا عتبار سے یہ ایک ایسا جریدہ ہے جس پر اہلِ خان پور بجا طور پر فخر محسوس کر سکتے ہیں۔ ہرنیاشمارہ گذشتہ شمارے سے بڑھ چڑھ کرہوتا ہے۔’’شعور و ادراک‘‘ اُردو،پنجابی اور سرائیکی زبانوں کی مختلف اصنافِ سخن پر مشتمل علم وادب کا ایک ایسا حسین گلدستہ ہے جس میں نامور مصنفین،صوفیاکرام اور شعراء کے کلام کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ خالصتاًـ ادبی مجلہ ہے جو ہر قسم کے ــ’’ازم‘‘ سے پاک ہے اور کسی نظریے یاتحریک کی حمایت کیے بغیر ذاتی تاثرات اور تعصبات سے ہٹ کر معروضی انداز میں قلم کاروں کی تخلیقات کو پیش کرتا ہے۔جریدے کے لیے مضامین اور دیگر اصناف ِسخن کا انتخاب اَہم ہوتا ہے۔انتخاب کا کام دیکھنے میں جس قدر آسان معلوم ہوتا ہے اسی قدر مشکل بھی ہے۔ مسئلہ صرف مضامین اور اشعار کے انتخاب کا ہی نہیں ہوتا بلکہ مرتب کے جمالیاتی ذوق کی آزمائش بھی ہوتی ہے۔محترم مدیر نے بڑی محنت سے تحقیقی مضامین،افسانے، انشائیے اور شعری کلام کا انتخاب کیا ہے کہ انتخاب کا معیار بھی ذوقِ مرتب کو داد دے رہا ہے۔اس شمارے کے خصوصی گوشہ میںسیّد محمد فاروق القادریؒ جو کہ کاملین ،عالمین اور عارفین کی لڑی کا گوہرِ کمال ہیں‘پر سیر حاصل مضامین قابلِ تحسین ہیںجو کہ تحقیق کے طلباء کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔طلباء،دانشور اور قلمکاروں کے قلم نئے موضوعات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ خصوصی گوشہ میں ڈاکٹر نذر خلیق کا انٹرویو خصو صیت کا حامل ہے اس میں نہ صرف سیّد محمد فاروق القادری ؒکی تصانیف کی فہرست مہیا کی گئی ہے بلکہ اُن کے خیالات سے شناسائی بھی حاصل ہوتی ہے۔
شمارے میں شامل مضامین فکرانگیز ہیں ،زبان صاف اور خیالات واضح ہیںنیز تمام تحقیقی مضامین میں حوالہ جات شامل ہیںجو کہ نہایت خوش آئند ہے۔امین بابر کی خوبصورت نعت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ شعری کلام سے شاعر کے بنیادی رُحجان اور اس کے مزاج کوپرکھا جا سکتا ہے۔کلاسیکی المیات کے احساس کے ساتھ نئے مشاہدے اور تجربے ہیں جن کی دل آویزی قارئین کو متاثر کرتی ہے۔شمارے میں شامل نظمیں اور غزلیں فنی تکمیل کا احساس دلاتی ہیں اور یقینا سخن شناسوں کے حلقے میں پسند کی جائیں گی۔’’شعور و ادراک ‘‘ میں تبصروں کو ترتیب دینے میں کافی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا گیا ہے۔ان تبصروں اور آرا ء کے مطالعہ سے قاری کے ذہن میں نئے دریچے کھل جاتے ہیںاور اسے باوثوق اور پختہ انداز ِنظر حاصل ہوتا ہے۔
ـ’شعور کا سفر ‘ میں محترم یوسف وحید صاحب نے تجاویز کے ساتھ قارئین کیا پڑھنا چاہتے ہیں‘کے حوالے سے بات کی ہے تو گزارش ہے کہ صوفی شعراء کے منتخب کلام کے ساتھ اُن کی شرح بھی شامل کر دی جائے کیونکہ ہمارے ہاں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو قدیم زبان اور لفظیات سے آشنا نہیں ‘لہٰذا معنی و مفہوم کے ساتھ کلام کی گہرائی تک رسائی سے مطالعہ کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔اس سے نوجوان نسل کی صوفی شعراء کے کلام میں دلچسپی بھی بڑھے گی اور ان سے عقیدت میں بھی اضافہ ہو گا۔آخر میں اللہ ربّ العزت سے دُعاگو ہوں کہ’’شعور و ادراک‘‘کو مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرے اور اسے عروج و بلندیاں عطا فرمائے۔ آمین
(صائمہ فردوس،گیریژن یونیورسٹی ،لاہور)
محترم محمد یوسف وحید ۔۔ مدیر : شعوروادراک خان پور
’’شعوروادراک‘‘ کے شمارہ 5 میں چھپنے والا معظمہ شمس تبریز کا مضمون میرے سامنے ہے۔ان کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے میری افسانہ نگاری کو موضوع بنایا اور افسانوں کے ساتھ ساتھ میرے بارے میں بھی نیک جذبات اور توصیفی کلمات لکھے۔
مجھے اُمید ہے کہ وہ مستقبل میں اُردو اَدب کی اہم لکھاری بنیں گی۔زیرِ نظر مضمون کے حوالے سے چند اُمور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔اس سے اُنہیں مزید بہتر لکھنے کی تحریک ہو سکتی ہے۔مضمون میں کمپوزنگ کی اَغلاط بہت زیادہ ہیں۔اپنی تحریر کی پروف ریڈنگ خود کرنی چاہئے۔
معظمہ بی بی نے میرے افسانوں سے متعلق جو مجموعی تجزیے اور نتائج اخذ کئے ہیں۔وہ زیادہ تر درست ہیں تاہم اپنے مؤقف کو واضح کرنے لئے افسانوں کے اقتباسات پیش کرنے چاہئیں تھے۔اقتباسات کے بغیر اُن کے تجزیے اور نتائج ایک فریم کی طرح لگیں گے جن میں کسی بھی افسانہ نگار کو فٹ کیا جا سکتا ہے۔ اقتباسات درج کرنے سے زیرِ گفتگو افسانہ نگار کی پہچان واضح ہو سکے گی۔
ادب میں کسی کے بارے میں تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ جاننے کی کوشش آج کے زمانے کی رفتار کے مطابق درست ہو سکتی ہے لیکن علم و ادب کی دنیا میں توجہ کے ساتھ پڑھنا، اس پر غور کرنا اور پھر کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرنازیادہ با معنی ہوگا۔
آپ کو جو مشورہ اچھا نہ لگے اُسے چھوڑ دیں۔آپ کی کامیابی کے لئے دُعا گو ہوں۔
ایک بار پھر آپ کا شکریہ
حیدر قریشی ( جرمنی )
٭٭٭
مدیر محترم محمد یوسف وحید ۔۔۔ السلام علیکم !
یہ کتب و رَسائل کی اہمیت کے زوال کا الم ناک دَور ہے۔ آبادی کی فزونی کے ساتھ ساتھ اُردو کے لفظ و معنی سے شناسا لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن زبان و اَدب کا ذوق ایک خطرناک نشیبی راہ سے دوچار ہے۔ اس کے علاوہ مادیت کے حرص میں مبتلا لوگوں کا معیارِ نظر بھی ہر نئے دن پست تر نظر آتا ہے۔
یہ کوئی ڈینگ ہرگز نہیں کہ سال بھر میں تین چار ایسے نئے رَسائل و جرائد کے لیے فون بھی آتے ہیں اور پھر وہ رَسائل مل بھی جاتے ہیں لیکن ان کا ملنا نہ ملنا برابر ہوتا ہے۔ اب ہمارے ہاں چھپنے والے اکثر رَسائل کا اہم ترین مقصد خدمتِ ادب کی بجائے کسی اور ہی بات کی پروموشن ہوتا ہے۔ یوں رسالہ بے روح ہو جاتا ہے۔ ایسے میں جب کو ئی اچھی کتاب یا اچھا رسالہ دستیاب ہو جائے تو یہ اَمر مجھ ایسے کم مایہ ادب شناس کے لیے باعث ِ حیرت ہو جاتا ہے۔
کچھ وقت قبل خان پور کے محمد یوسف وحید نے کمال محبت سے از خود مجھ سے رابطہ کر کے بتایا کہ وہ اپنے ادبی جریدے’’شعور و ادراک‘‘ کا تازہ شمارہ جنوری تا مارچ 2021ء مجھے ارسال کر رہے ہیں تو یقین کیجیے میں فون سننے کے بعد ایک بار بھی اس تجسس میں نہیں رہا کہ کوئی نیا رسالہ آنے والا ہے۔
رسالہ ملا تو سپاٹ سے روّیے کے ساتھ ڈاکیا سے لیا کہ لو جی گھر میں کچھ اور ’’رَدی‘‘ آ گئی۔ پیکٹ وزنی تھا سو اس خیال نے بھی کوفت بڑھا دی کہ مدیر موصوف نے دو تین کاپیاں بھیج دی ہیں۔
لیکن۔۔۔ رسالہ دیکھنے کے بعد میں اپنے تمام خیالات پر کچھ شرمندہ سا ہو گیا کہ یہ رسالہ ہرگز ہرگز موجودہ زمانہ کے روایتی رسائل سے بہت بہتر تھا۔ کم و بیش 400 صفحات کی عمدہ ادبی تخلیقات کا مرقع۔ پرنٹنگ، کاغذ اور معیارِ انتخاب سب عمدہ ہیں۔ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی اور محمد یوسف وحید اور اُن کی ٹیم کے لیے دُعا نکلی کہ اللہ اُن کے علم، محنت، اور مال میں برکت دے اور اس زبان و ادب کی خدمت کو اُن کے لیے ثمربار فرمائے۔ آمین
ڈاکٹر عاصم ثقلین (اسسٹنٹ پروفیسر آف اُردو)گورنمنٹ ایس ای کالج، بہاول پور
٭٭٭
مکرمی و محترمی ۔ السلام علیکم !
آپ کی طرف سے ارسال کردہ سہ ماہی ’’ شعوروادراک‘‘ ڈائریکٹر جنرل کی وُساطت سے لائبریری میں موصول ہوا ۔ یقینا یہ رسالہ طلبہ /محققین کے کاموں میں معاو ن ہوگا ۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہیں ۔ امید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے ۔
(محمد انور ، لائبریرین ، ادارہ فروغِ قومی زبان، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن ، اسلام آباد)
٭٭٭
مدیر محتر م …السلام علیکم !
مجھے بچپن سے ڈاکٹر بننے‘ پائلٹ ‘ انجینئر بننے کا شوق تھا ۔ مگر میں نے معدُودے چند لوگوں سے یہ جانا کہ انہیں بچپن سے ادب کا شوق تھا ۔ ادبی حظ کا شوق تھا ۔ ادب اکٹھا کرنے کا شوق تھا ۔ ادبی اور تخلیقی جہتوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے کا شوق تھا ۔ یہی شوق’’ بچے من کے سچے‘‘ کی صورت جوگزشتہ چودہ سالوں سے ہمارے سامنے ہے جس کے چیف ایڈیٹر حفیظ شاہد تھے‘اہلیانِ خان پور کی علمی ادبی ،سماجی ،اساتذہ ، صحافی ، وکلاء ،ڈاکٹرز اور دیگر سینکڑوں شخصیات سے تعارف کاسبب بنا ۔ بچوں کی مختصر مگر اَہم کاوشوں کو اکٹھا کرنے ،حُسنِ و ترتیب کے خوبصورت رنگوں سے نکھارنے کا شوق محمد یوسف وحید کو ادبی دُنیا میں لے آیا ۔
میںکم و بیش ۲۰ سالوں سے اس بات کی شاہد ہوں کہ محمد یوسف وحید کو ادبی دنیا میں ایک کے بعد ایک قدم بڑھاتے اور اندھیرے سے اُجالے کا سفر طے کرتے دیکھا ہے ۔ ہمت ، عزم و استقلال ، جدو جہد اور لگن کو ساتھ لیے اور اسی شوق کی راہ میں حائل تمام مشکلات کو عبُور کرتے چلے جانا محمد یوسف وحید کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے ۔
علمی و ادبی تنظیم ’’الوحید ادبی اکیڈمی‘‘ کے پلیٹ فارم سے جہاںاس نے اپنے ذوق و شوق کی خوب آبیاری کی ہے‘ وہاں اسے خوب سے خوب ترکے لیے گامز ن رہنے کا ہمت و حوصلہ بھی فراہم کیا ہے ۔
بلاشبہ محمد یوسف وحید اپنی مستقل مزاجی اور محنتِ شائقہ کی بدولت خان پور کی ادبی فضاکو بحال اور فعال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ’’ شعوروادراک ‘‘ ضلع رحیم یار خان کا علمی و ادبی اور ثقافتی مجلہ ہے جو بیک وقت تین زبانوں اُردو ، پنجابی اور سرائیکی میں علمی ،ادبی ، تاریخی ، ثقافتی ، تنقیدی اور تحقیقی مضامین ، افسانے ، نظم اور دیگر اَصنافِ سُخن میں عمدہ تخلیقات شائع کر رہا ہے ۔ ’ ’ شعوروادراک‘‘ میں خصوصی گوشہ’’ قیس فریدی ‘‘ ، خاص نمبر ’’ حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ اور حال ہی میں شائع ہونے والا شمارے میںشامل خصوصی گوشہ ’ ’ سیّد محمد فاروق القادری ‘‘ ادب میں منفرد اور اپنی نوعیت کا بھر پور علمی و تحقیقی کام ہے ۔ جس پر میں مدیر محمد یوسف وحید اور جملہ ٹیم کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔ علمی وادبی شخصیات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہ عمل یقینا لائقِ صد تحسین ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دَور میں جب کتاب سے رشتہ تقریباً ٹوٹ چکا ہے ‘ ایسے میں محمد یوسف وحید کا ادب سے والہانہ لگائواور ترویجِ علم و ادب کے لیے کی جانے والی کاوشیںتعریف کے قابل ہیں ۔
(نصرت جہاں ۔ ماہرِ تعلیم ۔ سابق پرنسپل گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج خان پور )
٭٭٭
٭ شمارہ نمبر 6میں شامل صفحہ نمبر 189پر شامل مستقل سلسلہ مدیر کے نام ! میں شامل خطوط
ترتیب : سعدیہ وحید
ترتیب : سعدیہ وحید