حدیث رسول اکرم ؐ ہے کہ’میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ،اللہ کی کتاب اور میری عترت ،جب تک تم ان سے جڑے رہوگے ،گمراہ نہ ہوگےاور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوںگےیہاں تک کہ حوض کوثرپر پہونچ جائیں ۔ ‘
آنحضرت کے فرمان کا صریحی مطلب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام اور قرآن قیامت تک ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ، سو جس کو نجات چاہئے ، ان سے تمسک رکھے، اس لیےامت مسلمہ کی راہ ہدایت اسی میں ہے کہ قرآن اور اہل بیت کی سیرت پر عمل پیرا ہو۔
مذکورہ حدیث کے پیش نظر عالی جناب مولانا وقارصاحب نے سہ ماہی قرآنی جریدہ’نبا ٔ‘ کی اشاعت کا بیڑا اٹھا لیا۔ یوںتو علوم اہل بیت پر مشتمل کئی ایک علم افزا،رسائل منظر عام پر آرہے ہیں لیکن قرآنی معلومات پر مبنی رسالے شاید ہی کہیں سے شائع ہوتے ہوں ۔ رسالہ کی اشاعت کا ہدف لوگوں میں علوم اہل بیت کے ساتھ ساتھ علوم قرآن کابھی اضافہ کرنا ہے۔
یہ جریدہ عمدہ زیبائی ، بہترین سرورق اور رنگین اوراق سےمزین ہوکر اردو زبان میں شائع ہوتا ہے۔عمدہ مضامین، عام فہم مطالب ،بچوں کی دلچسپی کے لئے لطیفے ،آسان معمہ اور قرآنی سوالات سے مزین ،یہ رسالہ اہل علم و ادب کی علمی تشنگی بجھارہاہے۔
حالیہ اشاعت (محرم الحرام تا ربیع الاول) کا شمارہ کافی جذاب اور معلوماتی ہے۔ مضامین عمدہ ہیں اور دیگر مطالب بھی قابل مطالعہ ہیں۔
اداریہ میں قرآن او ر عزاداری کے سلسلے سے گفتگو ہے۔عمدہ پیرایے میں سجایاگئے مطالب ، اپنی آپ مثال ہیں۔ ایک مختصر سااقتباس ملاحظہ ہو:
’کربلا ایک انقلابی مہم کا نام ہے جس کا آغاز بھی امام حسین ؑ نے تلاوت قرآن سے کیااور بعد شہاد ت نوک نیزہ سے تلاوت قرآن کرکے بتلادیا کہ ہر حسینی کی ذمہ داری ہے کہ دامن اہل بیت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم سے بھی متمسک رہے ۔‘
اس رسالہ کی ایک بڑی خاصیت یہ بھی ہےکہ ہر مضمون کی خاص خاص باتیں اجاگر کردی گئیں ہیں تاکہ قارئین کو پڑھنے میں آسانی ہو اور جن حضرات کے پاس باالکل وقت نہ ہو ،وہ صرف انہیں پیراکا مطالعہ فرمالیں ، ان کے لئے وہی کافی ہوگا۔
اعلم دوراں آیۃ ا۔۔۔ابولقاسم الخوئی کا مضمون’قرآن میں غورو فکر‘ کالب لباب حاضرخدمت ہے:
’رسول خداؐ قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے ، ان دس آیتوں سے اس وقت تک آگے نہ بڑھتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیاجائے،پس علم قرآن پر عمل کی تعلیم ایک ساتھ دیتے تھے۔ ‘
ادارہ کے سرپرست عالی جناب مولانا ذوالفقار حیدر صاحب اپنےمضمون ’حضرت نوح علیہ السلام ‘میں تحریر فرماتےہیں:’خاتم الانبیاء نے بھی اہل بیت کو سفینہ ٔ نوح سےتعبیر کیا ۔ لہٰذا، اہل بیت کی محبت و مود ت اور اطاعت و اتباع کو وسیلہ بنا کرہی انسان شیطانی مکرو کید سے محفوظ رہ کر اور طوفان و ضلالت وگمرہی سے خود کوبچا سکتا ہے ۔ اہل بیت سےدوری نجات سے محروم کردے گی۔ رشتہ دارہو یا امتی سب کا انجام وہی ہوگا جو قوم نوح کا ہوا۔ ‘
ڈاکٹر حید رمہدی صاحب کا مضمون ’قرآنی اقدار‘اپنی نوعیت کا بڑا عمدہ مضمون ہے۔ انہوںنے اپنے مضمون میں تحریر کیا ہے کہ’۔۔۔لیکن قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ وہ اپنے دامن میں اقدار کا وہ قیمتی سرمایہ سمیٹےہوئے جو زمانہ کے ساتھ ساتھ ہی نہیں بلکہ آگے آگے چل کر راہنماکردار ادا کرتے ہیں اور مختلف ثقافتوں کو قرآنی رنگ دے کر ایک آفاقی ثقافت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسے امام حسین ؑ نےکربلا کے اپنے ہر چھوٹے بڑے سپاہی کو ثقافت حسینی کا ایک رنگ دے دیا تھا لہٰذا، شہدائے کربلا کے حوالہ سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون افضل ہے اور کون مفضول۔‘
مولانا عبدالحفیظ اسلامی صاحب نے اپنے مضمون میں’ توبہ‘ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ انہوں نے ’توبہ ‘کی بابت نہایت عمدہ مطالب ذکر کئے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’اگر کبھی کوئی گناہ ہوجائے توفوری طور پرتوبہ کی طرف ہمیں چل پڑنا چاہئے کیونکہ شیطان یہ تھپکیاں دیتا ہے کہ میاں ! ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ بعد میں توبہ کرلو اس طر ح کے دھوکے میں کبھی نہ آتے ہوئے بھی اپنے مالک اور آقا کو فوری راضی کرلینا چاہئے کیونکہ آثار موت طاری ہوجانے کے بعد اس کا موقع نہیں ملتا۔‘
اس کے علاوہ دیگر مضامین بھی معلومات سے پُر ہیں۔ مولانا شاہد جمال صاحب ، مولانا حیدر عباس صاحب، مولانا سید محمد علی صاحب ، مولانا سید عمار صاحب، مولانا غیور مولائی، محترمہ نشاط فاطمہ خان صاحبہ کے مضامین بھی قابل استفادہ ہیں۔
نثری مطالب کے ساتھ ساتھ منظوم قرآنی ،سلسلہ بھی ہے۔ ’ثنائے قرآن ‘کے عنوان پر شعرائے کرام نے قرآن کریم کی فضیلت میں اپنے گہربار اشعار پیش کئے ہیں ۔ شاہدکمال صاحب ، طاہر رضا مبارک پوری، ہلال عباس قمی، عرفان عابد ی مانٹوی اور مدیر رسالہ مولانا سید وقار صاحب کے اشعار نے رسالہ کی عظمت میں چار چاند لگادیئے ہیں ۔
المختصر، یہ اپنی نوعیت کامنفر د رسالہ ہے جو عاشقا ن قرآن کے لئے قرآنی معلومات فراہم کررہا ہے اور لوگ اس سے مستفید بھی ہورہے ہیں۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ ہم سب کو تعلیمات اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ساتھ قرآنی فرمودات پربھی عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
“