جنوبی بحر الکاہل میں سمندر کے اتھلے نیلگوں پانی میں سطح سے چند گز نیچے اس کی تہہ میں پنکٹاڈا میکسیما کو خوراک چاہئے۔ اس کے خول کے دونوں حصوں میں معمولی سا خلا پیدا ہوا اور اس نے پانی اپنے اندر کھینچ لیا۔ ہر روز کئی گیلن۔ خول کے اندر مولسک نے خاموشی سے اپنے مطلوبہ خوراک کے ذرات اپنے پاس رکھ کر باقی پانی واپس کر دیا۔ آپ اس کے اوپر تیر کر گزر بھی جائیں گے اور اس بھورے اور بیج رنگ کے کھردرے خول کا پتہ بھی نہیں لگے گا۔ سمندر کے یہ ویکیوم کلینر اس رنگ سے اس میں چھپ جاتے ہیں۔
اس کے اندر والا حصہ دیکھنے کے لئے نہیں تھا لیکن قلوپطرہ، مارلن منرو یا الیزبتھ ٹیلر جیسی خواتین اس کے اندر ہونے والی خرابی کے فخریہ مالکان میں سی تھیں۔ یہ صدف میں بننے والا موتی ہے۔
کئی بار اس کے خوراک لینے کے عمل اندر ایسی چیز چلی جائے گی جو اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ اسے باہر نہیں نکال سکتا تو اسے ڈھک کر رکھ دیتا ہے، اسی چیز سے جس سے اس کا خول بنا ہے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے کسی گند کو قالین کے نیچے چھپا دیا جائے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسے قالین خود بننا پڑتا ہے۔ یہ قالین چھوٹے سے چپٹے پلیٹلٹس سے بنا ہے جسے نامیاتی گوند سے جوڑا جاتا ہے۔ ایک بار یہ عمل شروع ہو جائے تو سیپ یہ تہیں بناتا جائے گا۔ یہ موتی گھومتا جائے گا، پانچ گھنٹے میں ایک چکر کی رفتار سے اور یہ تہیں چڑھتی جائیں گی۔
لہریں، موسم، شارک اور کچھوے گزر رہے ہیں اور یہ سکون سے اپنے کام میں لگا ہے جس میں سے ایک اس تاریکی میں بننے والا موتی ہے۔ کئی برسوں کے سکون کے بعد ایک برا دن آیا۔ کسی انسان نے اس کو تہہ سے نکال کر کھول لیا۔ اس موتی پر پہلی بار دھوپ پڑی۔ روشنی کی شعاعیں اس کی چمکدار سفید سطح سے ٹکرائیں۔ لیکن سب سطح سے ہی منعکس نہیں ہو گئیں۔ کچھ اگلی تہوں تک پہنچ گئیں اور وہاں سے منعکس ہوئیں۔ کچھ ان تہوں کے درمیان کئی بار ٹکرا کر نکلیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ہی رنگ کی روشنی، فرض کیجئے کہ سبز رنگ کی، مختلف جگہوں سے آ رہی ہے اور ایک دوسرے سے مداخلت کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب یہ سب ملیں تو یہ لہریں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر ایک دوسرے کو مضبوط کر دیں۔ جبکہ سرخ رنگ کی لہریں ہم آہنگ نہ ہوں اور اس رنگ کو دبا دیں۔
یہ تہیں اتنی مہین تھیں کہ روشنی کے رنگ اس طرح الگ ہو گئے اور اس کی سفید سطح پر گلابی اور سبز رنگ نظر آنے شروع ہو گئے۔ اس کو گھماتے جائیں اور نظر آنے والے رنگ بدلتے جائیں گے۔ اس طرح کی چمک کو اریڈسنس کہتے ہیں۔
انسان اسے اس قدر پسند کرتے ہیں کہ اسے مہنگے داموں خرید کر اپنی نمائش کا ذریعہ بناتے ہیں، جو دراصل سمندر کی تہہ کے ایک جانور کے اندر ہونی والی خرابی کا دفاعی نظام ہے۔ اس جانور کی بنائی گئی تہہ کا سائز، انعکاس کی اور لہروں کی فزکس اور ہماری آنکھ کے دیکھنے کا طریقہ اس کو قیمتی بنا دیتا ہے۔
نوٹ: اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد قطرے سے گہر بننے والے کسی بھی شعر میں سے غلطیاں نکالنا سختی سے منع ہے۔ سائنس اپنی جگہ، اعلیٰ شاعری کا ذوق اپنی جگہ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔