دادا خان نوری غصے میں تھے۔ ’’آپ پاکستانی عجیب لوگ ہیں!‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کا سرخ سفید چہرہ مزید سرخ ہو گیا۔ میں ہنس پڑا۔
پہلی ملاقات دادا خان نوری سے تاشقند میں ہوئی۔ مختار حسن مرحوم نے ان کا پتہ دیا تھا۔ اُس وقت تاشقند میں پاکستانی سفارت خانہ تھا ‘نہ اسلام آباد میں ازبک سفارت خانہ! وسط ایشیا کی ریاستیں نئی نئی آزاد ہوئی تھیں۔
دادا خان نوری نے تاشقند یونیورسٹی میں ہندی پڑھی تھی۔ اس لیے اردو لکھ نہیں پاتے تھے مگر بول لیتے تھے۔ تاشقند میں وہ پاکستان کے چلتے پھرتے سفیر تھے۔ پاکستان کی محبت دل میں بسائے‘ کبھی سفارت خانے کے قیام کی کوشش کر رہے ہوتے‘ کبھی پاکستانی سیاحوں کی رہنمائی کر رہے ہوتے اور کبھی پاکستان کے سفر کی تیاری کر رہے ہوتے ۔کئی بار پاکستان آئے۔ متعدد بار غریب خانے پر قیام کیا۔ یہ لوگ پانی نہیں پیتے۔ مسلسل چائے پیتے ہیں جس میں میٹھا نہیں ہوتا۔ جب بھی تشریف لاتے، گھر والے ان کی چائے کا خاص خیال رکھتے۔ چینک ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتی۔
اُس دن صبح صبح اُٹھ کر وہ سیر کے لیے باہر چلے گئے۔ واپس آئے تو غصے میں تھے۔ ’’آپ پاکستانی عجیب لوگ ہیں۔ ہر گھر کے ساتھ، اردگرد، خالی جگہ ہے اور بیکار پڑی ہے۔ کیا آپ لوگ پھل دار درخت نہیں لگا سکتے؟ کیا آپ لوگ سبزیاں نہیں اگا سکتے؟‘‘
میں ہنس پڑا۔ اور کیا کرتا! تزک بابری یاد آ گئی جس میں بابر اہلِ ہند کا تمسخر اڑاتا ہے کہ باغوں، پھولوں، پودوں کا ذوق نہیں رکھتے۔ تاشقند میں اور پورے وسط ایشیا میں یہ حال ہے کہ ہر گھر پھلوں میں تقریباً خود کفیل ہے۔ روایتی گھروں کا نقشہ ہی وہاں یہ چلا آ رہا ہے کہ اردگرد رہائشی کمرے ہوتے ہیں اور درمیان میں بڑا صحن جسے ’’حولی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پھلوں کا باغ ہوتا ہے۔ انگور، چیری، سیب، اخروٹ، ناشپاتی، آڑو، آلو بخارا اور نہ جانے کیا کیا۔ چیری اور شہتوت کا رس ہرگھر میں عام استعمال ہوتا ہے۔
دادا خان نوری کے بجائے کوئی اور ہوتا، کوئی انگریز ہوتا، سنگاپور کا کوئی چینی ہوتا، کوئی جاپانی ہوتا، اُس نے بھی یہی کہنا تھا کہ تم پاکستانی عجیب مخلوق ہو! اس میں کیا شک ہے کہ ہم اہلِ پاکستان عجیب لوگ ہیں۔
اپوزیشن ہماری گھٹی میں پڑی ہے۔ جو حکومت بھی ہو، اس میں کیڑے نکالتے ہیں۔ احتجاجی سیاست میں جواب نہیں۔ ہاں! اگر نہیں کرنا تو خود کچھ نہیں کرنا۔ ہماری مثال اُس شخص کی ہے جو شاہراہ کے کنارے گھاس پر لپٹا ہوا تھا۔ اس کے سینے پر بیر رکھا تھا۔ ایک گھوڑ سوار گزرا تو اسے کہا کہ گھوڑے سے اترو اور یہ بیر میرے منہ میں ڈالو۔ گھوڑ سوار نے سنی ان سنی کر دی۔ اس پر لیٹے ہوئے شخص نے طعنہ دیا کہ تم کس قدر سست ہو۔
گھروں کے اندر اور گھروں کے ارگرد پھل دار درخت لگانا اور سبزیاں اگانا تو دور کی بات ہے۔ نوے پچانوے فی صد گھروں کے ارگرد کوڑا کرکٹ پڑا ہوتا ہے۔ وہی نہیں صاف کیا جاتا تو پھل دار پودے کون لگائے! گیٹ کے نیچے نالی نہیں رکھی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں کی ’’کوٹھی‘‘ کے پورچ میں کاریں دھوئی جاتی ہیں اور پانی گلی میں بہتا ہے۔ جتنی وسیع زمین قدرت نے اہلِ پاکستان کو دی ہے، بہت سے ملک اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے ملک بھی ہیں جو سبزیاں اور پھل دار درخت گملوں میں لگا اور اگا رہے ہیں اور ہم سے زیادہ پیداوار حاصل کر رہے ہیں! یہ امتیاز صرف ہمیں حاصل ہے کہ زمین وافر ہے۔ وقت کی کمی نہیں۔ مگر ہمت ہے نہ عقل۔
پانی کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ بارش کا پانی لاکھوں کروڑوں لٹرضائع ہو رہا ہے۔ جو ممالک اس ضمن میں حساس ہیں، وہاں بارش کاپانی جمع کر لیا جاتا ہے۔ چھتوں کا پانی پائپ کے ذریعے نیچے لایا جاتا ہے۔ ایک الگ ٹینکی اس پانی کے لیے بنائی جاتی ہے اور یوں اس پانی کا ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ باغبانی کے لیے، کار دھونے کے لیے اور کئی دوسرے مقاصد کے لیے یہی پانی استعمال ہوتا ہے۔ کموڈ کی ٹینکی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے، دو بٹن لگائے جاتے ہیں تا کہ ہر بار پوری ٹینکی کے بجائے، آدھی ٹینکی کا پانی فلش میں استعمال ہو۔ یوں پانی کا استعمال پچاس فی صد کم کر لیا جاتا ہے۔ لیکن اجتماعی سطح پر جس ملک میں بارشوں اور سیلابوں کا اربوں کھربوں ٹن پانی ضائع ہو رہا ہے اور سیدھا سمندر میں گر رہا ہے‘ وہاں انفرادی لحاظ سے گھروں کا ماتم کیاکیا جائے۔ حکومت ڈیم نہیں بنا رہی۔ بری ہے، مگر کیا زمیندار اور کسان ڈیم بنا رہے ہیں؟
گھروں کی تعمیر پر غور کیجیے۔ غور کرنے سے آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ شخص، جو پتلون قمیض یا ریشمی واسکٹ پہنے، راج اور مزدوروں کے سر پر کھڑا، محل نما مکان بنوا رہا ہے، کس قدر احمق ہے! ایک طرف یہ رونا کہ بجلی مہنگی ہے۔ ایئرکنڈیشنر کا بل زیادہ آ رہا ہے۔ ہیٹر چلے تو گیس کی قیمت جیب پر جیسے ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ دوسری طرف گھروں کے کمرے بے تحاشا بڑے۔ ایک اصطلاح چل نکلی ہے۔ ’’ماسٹر بیڈ روم‘‘۔ یہ بڑا ہونا چاہیے۔ عقل کے اندھے سے پوچھیں کہ کیوں بڑا ہونا چاہیے؟ کیا تم نے یہاں کبڈی کھیلنی ہے؟ تمہارا دن پیسے کمانے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ بیگم صاحبہ کچن میں مصروف رہتی ہیں یا ملنے ملانے میں۔ شام کو تم لوگ لائونج میں بیٹھ کر، بچوں کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہو۔ ماسٹر بیڈ روم رات کو سونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آدھا ہو، تب بھی کافی ہے۔ ایک خواب گاہ میں آخر کیا چاہیے؟ پلنگ، سنگل یا ڈبل! ایک دو کرسیاں۔ تھوڑی سی جگہ نماز ادا کرنے کے لیے۔ بس یہ ہے ایک خواب گاہ کی ضرورت۔ بیڈ روم جتنا چھوٹا، یعنی ضرورت کے اعتبار سے پورے سائز کا ہو گا، بجلی، ہیٹر اور ایئرکنڈیشنر کا خرچ اتنا ہی کم ہو گا۔ اسی طرح سچ پوچھیے تو کھانے کے کمرے کی الگ ضرورت نہیں۔ کھانے کی میز لائونج میں بھی لگائی جا سکتی ہے اور بیٹھک میں بھی جسے اب ڈرائنگ روم کہا جاتا ہے جو شیش محل کی طرح سجایا جاتا ہے مگر استعمال کم ہی ہوتا ہے۔ کمروں کا سائز کم کرنے سے، جو جگہ بچے، اس سے صحن کا یالان کا سائز بڑا ہو سکتا ہے۔ جہاں سبزہ بھی لگایا جا سکتا ہے، پھل دار درخت بھی اور سبزیاں بھی اگائی جا سکتی ہیں۔
’’عقل مند‘‘ ملکوں میں گھروں کی بیرونی صورت پر پیسہ نہیں لٹایا جاتا۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک دیکھ لیجیے، باہر سے سارے گھر سادہ اور ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر حالت میں رنگ روغن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہ صرف پاکستان اور عرب دنیا میں گھروں کی بیرونی آرائش پر بے تحاشا اسراف بلکہ تبذیر سے کام لیا جاتا ہے۔ ڈھیروں ماربل تھوپا جاتا ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے خوبصورت، زیور نما، اینٹیں منگوا منگوا کر، ٹانکی جاتی ہیں۔ کچھ ’’اہلِ ذوق‘‘ گیٹ پر سونے کے رنگ کی پتریاں لگواتے ہیں، جنہیں دیکھ کر، سچ پوچھیے تو اُبکائی آتی ہے۔ اس دبئی پلٹ ذہنیت کا بس چلے تو مکانوں کے باہر سونے کی چوڑیاں، بندے، بِندی اور ٹِکا بھی لٹکا دے۔
مگر عوام پر کیا گلہ! جس ملک کے حکمرانوں کی ذہنی سطح یہ ہو کہ وہ کروڑوں روپوں کی گھڑی باندھ کر تسکین حاصل کریں‘ وہاں کے عوام کا ذوق بھی تو یہی ہو گا کہ گھر کروڑوںکے، گلیوں میں کوڑا کرکٹ، درخت پودے پھل پھول ناپید اور سڑکوں پر پانی۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“