قدیم پورنیہ ضلع یا غیر منقسم پورنیہ، بہ طور ضلع جس کی بنیاد 14 فروری 1770ء کو انگریزی حکومت کے ذریعہ ڈالی گئی اب عرف عام میں سیمانچل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ضلع کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آرین قوم نے جب فتح ہند کے بعد اپنی بستیاں آباد کی اس زمانے میں اس علاقے کو ‘کوشِکی کچھ’ کے نام سے موسوم کیا گیا کیوں کہ یہ علاقہ کوسی / کوشی یا کوشِکی (कौशिकी) ندی کا علاقہ تھا۔ کوشی اور اس کی معاون ندیوں کے ذریعہ لائی گئی زرخیز مٹی کی وجہ سے یہاں جنگلوں/ارنیہ ( अरण्य) بہ معنی جنگل کی بہتات تھی۔ بہت سارے تاریخ داں اس بات پر متفق ہیں کہ پورنیہ نام کی تخلیق سنسکرت الفاظ پورن ارنیہ ( पूर्ण – अरण्य) یعنی جنگلات سے بھرا ہوا سے ہوئی ہے۔
مہرشی وشوامتر کی پوتر دھرتی جہاں وہ تپسیا کیا کرتے تھے، اسی کوشِکی کا کنارہ ہے۔ ( پورنیہ گزٹ 1963ء، صفحہ: 47)
کوشی کا سرچشمہ ہمالہ کی بلندیوں سے جاری ہو کر نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈو کے مشرقی علاقوں سے گزرتا اور کنجن جنگا کا طواف کرتا شُن کوشی، ارون کوشی اور امبر کوشی کی تین دھاراؤں کا سنگم بناتا ہے۔ بعد ازیں بھوٹیا کوشی، تامبا کوشی، لِکھی کوشی اور دودھیا کوشی چار دھاراؤں میں منقسم ہو کر سپت کوشی کہلاتا ہے۔ ایک ندی کی شکل میں کوسی بھارت کی سرحد میں سہرسہ ضلع کے شمال مشرق سمت سے داخل ہو کر جنوب کی سمت کٹیہار ضلع کے کُرسیلا میں گنگا ندی کی آغوش میں سما جاتی ہے۔
بِرہ دارنیک اُپنِشد ( बृहदारण्यक उपनिषद) کے پُرنیا رنیک (पुरण्यारण्यक) کو پورنیہ ماننے والے تاریخ دانوں کا یہ خیال ہے کہ مہابھارت کال کے متسیہ راجا وِراٹ (मत्स्य राजा विराट) کے زیر حکومت یہ علاقہ چھٹی صدی قبل مسیح تک آزاد ریاست ‘انگ’ کے ایک جز کے طور پر مگدھ کے خلاف ہونے والی جنگوں میں شریک رہا۔ ویدِک منو سمرتی ( वैदिक मनुस्मृति)، مہابھارت اور ہری ونش پُران کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ماقبل عیسوی مہابھارت کال یا اس سے کچھ قبل اس علاقے میں آریہ نسل سے تعلق رکھنے والی دو قومیں آباد ہوئیں. ایک ‘ انگ’ اور دوسری ‘ پنڈاری’. آگے چل کر انگ کے سب سے طاقتور اور مشہور راجا ‘کرن’ اور پنڈاری کے راجا ‘واسُودیو’ ہوئے۔ قدیم پورنیہ (حالیہ ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال) کے ایک قصبہ ‘ کرن دیگھی (بہ معنی کرن کا تالاب ) میں راجا کرن کی نشانی بہ شکل تالاب اب بھی موجود ہے۔ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ٹیلوں کی شکل میں پرانے محلات کی باقیات بھی اب تک موجود ہیں۔ گمان غالب ہے کہ یہ انگ قوم کے محلات کی نشانیاں ہیں لیکن چونکہ سیمانچل میں کبھی کسی طرح کے آرکیالوجیکل سروے کا کام نہیں ہوا لہذا حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔
آریاؤں کی آمد سے قبل اس خطۂ ارض پر راج ونشی، کول، بھیل، جین، کیرات اور پول وغیرہ ذاتیں آباد تھیں۔ یہ ذاتیں سیمانچل کے مختلف علاقوں خصوصاً کشن گنج اور کٹیہار ضلعوں کے مشرقی علاقوں میں آباد ہیں۔ ارریہ ضلع کے جوکی ہاٹ ترقیاتی بلاک کے حدود میں واقع دبھرا، کھُٹی اور کُرسیل گاؤں اور کشن گنج کے سرائے، ڈیراماری وغیرہ گاؤں میں راج ونشیوں کی بڑی آبادی بستی ہے۔
چند تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ‘ پُنڈر کا راجیہ’ یا حکومت “پُنڈر وردھن” ( पुण्ड्रवर्धन ) سے پورنیہ نام کی تخلیق ہوئی ہے۔
پنڈر وردھن، فولاد کے عہد (Iron age) میں، ما قبل مسیح بائیسویں صدی کے آس پاس گویا کہ آج سے تقریباً سوا چار ہزار سال قبل قائم تھا۔ اس کا ذکر گپت کال کے پائے جانے والے تانبے کے اوراق میں پایا جاتا ہے۔ ان اوراق کے مطابق تقریباً پورا شمالی بنگال پنڈر دیش میں شامل تھا۔ اس کی راجدھانی حالیہ بنگلہ دیش کے بوگرا ضلعے میں رنگ پور کی جانب “مہا استھان گڑھ” تھی۔ 640 ء میں چینی سیاح ہیون سانگ ( Xuanzeng / Hiuen Tsang ) نے اس علاقے کا دورہ کر اس کی مختصر تاریخ قلم بند کی تھی۔ اس نے اس خطے کا نام پُن نا فا ٹن نا لکھا ہے۔ علم تواریخ کے ماہرین اسے پنڈر وردھنا تسلیم کرتے ہیں۔ رنگ پور اس زمانے میں پورنیہ کا مشرقی علاقہ تھا۔ پنڈروردھن غیر آریائی حکومت تھی جو کافی عرصے تک قائم رہی۔
اپنے سفر نامے میں ہیون سانگ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ مہاتما گوتم بدھ نے اس خطے میں تین ماہ قیام کر بودھ مذہب کی تبلیغ کا کام کیا تھا۔
پنڈروردھن کی راجدھانی “مہا استھان گڑھ” کی کھوج : بکانن ہیملٹن F. Buchanan Hamilton پہلے یوروپین تھے جنھوں نے 1808ء میں اس خطے کا دورہ کیا اور مہا استھان گڑھ کا پتہ لگایا۔
الیکزینڈر کنمگھم Alexander Cunningham نے 1889ء میں اِس کے دارالحکومت ہونے کی نشان دہی کی۔
مہابھارت کے دِگ وجے کھنڈ میں اس کے مونگیر کے شمال میں واقع ہونے کا ذکر ہے اور کوشی کے تٹ پر حکومت کرنے والے راج کمار کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ بات ذہن نشیں کرنے کی ہے کہ اُس زمانے میں کوشی سیمانچل کے مشرقی حصے سے ہو کر بہا کرتی تھی لیکن یہ لگاتار مغرب کی جانب سرکتی رہی ہے. یہی وجہ ہے کہ بھیم نگر کے قریب نیپال اور ہندستان کے اشتراک سے 62 – 1958ء میں کوشی بیراج اور باندھ بننے سے قبل اسے sorrow of Bihar یعنی بہار کا درد کہا جاتا تھا۔ سیمانچل کے پورے علاقے میں اس کے نشانات اب بھی موجود ہیں جنھیں عام طور پر “مریا کوسی دھار” کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اِس سے آگے کی کہانی مولانا محمد یوسف رشیدی ہری پوری کی تصنیف احسن التوارخ کے اس اقتباس سے پیش کرتا ہوں۔۔۔۔ “ظہور عیسیٰ سے 519 برس پہلے مگدھ کا راجہ بھیم بسارا نے جو اپنے زمانہ کا بہت بڑا نامور راجہ تھا اور اس کی حکومت کے دور میں گوتم بدھ کی پیدائش ہوئی تھی، انگا قوم کو شکست دے کر پورنیہ کو اپنے ممالک محروسہ کے اندر داخل کر لیا تھا۔
اس کے بعد ظہور عیسیٰ سے 340 سال پہلے پھر یہ چندرگُپت خاندان کے راجہ سمُدر گُپت کے قبضہ میں آیا۔ راجہ چندر گپت خاندان کے راجاؤں کی سلطنت کو جب قوم ہنس نے تہہ و بالا کر دیا تو یہ ضلع پھر مگدھ کے راجہ بلادیت کے تصرف اور قبضہ میں آیا۔ انھوں نے دوسرے راجاؤں بالخصوص ہندوستان کے راجہ جسودھرمن کی اعانت و مدد سے ہنس قوم کے راجہ مہیرا گولہ کو شکست دے کر جب اس کے ملک پر متصرف اور قابض ہوا تو اس ضلع کو بھی اپنے تصرف میں کر لیا. ”
اس خطے پر بودھ راجاؤں کی بھی طویل عرصے تک حکومت رہی۔ ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں تین ہزار بودھوں اور 20 بودھ مٹھوں کا تذکرہ کیا ہے۔ 647 ء تک یہاں بودھوں کی حکومت قائم رہی۔ 647ء سے 900ء تک پورنیہ کے حکمرانوں کی تفصیلات صحیح طور پر حاصل نہیں ہیں۔ 900ء سے 1200ء تک یہ ضلع کچھ عرصہ پال قوم کے راجاؤں کے زیر حکومت رہا۔ اس کے بعد سین قوم کے راجاؤں نے اس پر حکومت کی۔ سین راجاؤں کی دارالحکومت بنگال کے ندیا ( Nadia ) میں تھی۔ 1200ء میں بختیار خلجی نے آخری سین راجہ لکشمن رائے سین یا رائے لکھمنیا کو شکست دے کر ندیا کی جگہ گور (Gour) کو اپنی راجدھانی بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ لکشمن سین نے شہر پورنیہ کو بسایا تھا۔ پروفیسر طارق جمیلی نے اپنی مشہور نظم “پورنیہ” کے ایک شعر میں”بسایا سین نے تجھ کو” کہہ کر اس بات کا حوالہ بھی پیش کیا ہے۔
پورنیہ کے مشہور مورخ بابو بھوانن سنگھ جو موضع کھنا باڑی، پورنیہ کے رہنے والے تھے نے بنگلہ زبان میں “پورنیہ ایتی بیرتو” نام سے چند اوراق کی ایک کتاب پورنیہ کی تاریخ سے متعلق لکھی تھی۔ اپنی کتاب میں انھوں نے پورنیہ کے دورِ قدیم کے بعض خاص خاص مقامات اور بعض قدیم آباد اقوام مثلاً کیرات، کھتری، چین، راج بنسی، پول، کول، بھیل اور پولیا وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ لوگ اپنی عادات و اطوار کی وجہ سے شدر اور ذلیل سمجھے جاتے تھے، مگر حقیقتاً تھے نہیں۔ منو شاستر میں ہے کہ یہ قومیں کھتری ہیں۔ ان اقوام میں سے راج بنسی، پولیا اور کول کا راجا پانڈؤں کے زمانہ میں کیچک تھا جو راجا بیراٹھ کا سالا تھا۔
بابو بھوانن سنگھ نے ہندو مذہبی کتب مہابھارت، بھاگوت، کالیکا، پُران، جوگیتی تنتترو کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ شورشین، پنچال، تری گتّو اور مچھ راج یہ چار ریاستیں آپس میں حلیف تھیں اور یہ چار ریاستیں ہمالیہ پہاڑ سے بندھیاچل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ شورشین متھُرا کا راجہ تھا۔ پنچال نگر کا نام فی زمانہ قنوج ہے۔ تِری گتّو اب تِرہت کہلاتا ہے۔ ترہت راج کا مشرقی حد کوسی ندی تھی اور مچھ راج کا شمالی حد ہمالیہ پہاڑ اور مشرقی حد کراتویہ ندی اور اس کے جنوبی حصہ میں رنگ پور، دیناج پور اور مالدہ وغیرہ داخل تھے۔
قارئین اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ مالدہ کا بڑا علاقہ قدیم پورنیہ ضلع کا ہی حصہ تھا۔ گور جو ایک زمانے میں بنگال کی راجدھانی تھی وہ بھی پورنیہ ضلع میں ہی واقع تھی۔ انگریزی حکومت نے پورنیہ ضلع بننے کے 43 سال بعد یعنی 1813ء میں راج شاہی، دیناج پور اور پورنیہ کے حصص کو ملا کر مالدہ نام سے نیا ضلع بنایا تھا۔
جنت آباد “گور” یا لکھنوتی:
قدیم بنگالہ کی دارالحکومت اور قدیم ضلع پورنیہ کا بھولا ہوا ایک باب ۔
مشہور مورخ فرشتہ کا بیان ہے کہ “حکام جانی پور ترہت اور اس نواح کو جو صاحبِ سکہ اور خطبہ ہوئے سلاطین شرقی کہتے ہیں اور والیان بنگالہ سونار گاؤں اور لکھنوتی اور بہار اور جاج نگر اور اس حدود کو سلاطین پورنیہ کہتے ہیں۔ یہی پوربی راج ہے جسے بنگالہ بھی کہا گیا ہے لیکن وہ بنگالہ آج کا محدود بنگال نہیں تھا۔ ہند کا یہی وہ بنگالہ تھا جس کی نسبت حضرت حافظ نے اپنے اس شعر میں اشارہ کیا ہے۔
شکر شکن شوند ہمہ طوطیان ہند
زیں قند پارسی کہ بہ بنگالہ می رود
یہی وہ پوربی راج ہے جس کی راجدھانی مدتوں ” گور” کا مقام رہی۔ جب بنگال میں آدی سور کے خاندان کا راج قائم ہوا تو گور کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔ گرچہ سونار گاؤں کو راجدھانی ہونے کا فخر حاصل رہا لیکن بلال سین کی حکومت کے بعد جب لکشمن سین کو راج ملا تو انھوں نے گور کو لکھنوتی نام سے اپنی راجدھانی بنایا اور اس شہر کو پورا پورا عروج حاصل ہوا۔ لکشمن کے جانشین کمزور ہوئے تو ندیا چلے گئے۔ لیکن جب راج مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو اس وقت بھی گور کی اہمیت اور عظمت باقی رہی۔
قطب الدین ایبک نے جب بختیار خلجی کو بہار اور لکھنوتی کا فرمان عطا کیا ہے تو بنگالہ کا راجہ لکھمن ندیا میں راج کرتا تھا۔ بختیار خلجی نے ندیا کو تباہ کیا۔ رنگ پور کو بسایا اور لکھنوتی کو آباد کیا۔ ۶۰۲ھ میں اس کی موت ہوئی تو ملک فخر الدین جا نشینی پر فائز ہوا. اس نے سونار گاؤں کو تخت گاہ رکھا اور اپنی طرف سے ایک غلام مخلص نامی کو گور میں تعینات کیا۔ مخلص کو علی مبارک فیروز شاہ سے شکست ہوئی۔ فیروز شاہ نے علاءالدین کا لقب اختیار کیا۔ حاجی الیاس بانی حاجی پور نے سلطان شمس الدین کا خطاب اختیار کیا۔ علاءالدین اور فخر الدین دونوں مارے گئے۔ فخر الدین زندہ گرفتار ہو کر لکھنوتی آیا اور وہیں اس کی گردن ماری گئی۔ شمس الدین کے بعد سکندر اور اس کے بعد غیاث الدین اور اس کے بعد سلطان السلاطین نے لکھنوتی پر حکومت کی۔ پھر سلطان جلال الدین کا عہد آیا۔ انھوں نے لکھنوتی میں سترہ برس چند مہینے حکومت کرکے ۸۱۲ ھ میں انتقال کیا۔ فرشتہ انھیں اپنے عہد کا نوشیرواں ثانی کہتا ہے۔
سید شریف مکی نے جو سلطان علاؤالدین کے خطاب سے بادشاہ بنا گور پر کافی آفت ڈھائی. علاؤ الدین کے بعد نصیب شاہ کو راج ملا ۔ وہ ۹۴۳ھ میں فوت ہوا۔ سلطان محمود بنگالی اس کا جا نشیں بنا۔ ۹۶۵ھ میں ہمایوں نے مملکت بنگالہ کو شیر شاہ سوری کے تصرف سےنکال کر گور میں اپنے نام کا خطبہ پڑھا اور گور کا نام “جنت آباد” رکھا۔
کہا جاتاہے کہ اس کے بعد سلیمان کرانی افغانی نے گور کو تباہ و برباد کرکے ٹانڈہ کو اپنی راجدھانی بنایا۔
جب ۱۷۲۷ء میں شجاع شاہ برادر اورنگ زیب بنگالہ کا حکمراں ہوا تو اس نے بھی گور میں بعض عمارتیں بنوائی لیکن راجدھانی راج محل ہو جانے کے سبب گور پر جو زوال آیا تو پھر یہ ہمیشہ کے لیے آیا۔
جب شریف مکی سلطان علاؤالدین کے وقت گور لوٹا گیا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ اس کی آبادی شہر مصر سے بہتر تھی۔
گرچہ بوکانن گور کا رقبہ بیس مربع میل بتاتے ہیں لیکن رینیل کا تخمینہ تیس مربع میل کا ہے۔
بوکانن نے گور کی آبادی کا تخمینہ چھ سات لاکھ کا لگایا ہے۔ جب ۱۰ – ۱۸۰۹ ء میں بوکانن نے پورنیہ کی رپورٹ لکھی ہے، اس نے گور کو دیکھا ہے۔
اب ہم یہ بتادیں کہ ہم نے پورنیہ کے سلسلے میں گور کا ذکر کیوں چھیڑا ہے؟ اس کے لیے آپ کو آج نہیں گذرے ہوئے کل کے پورنیہ کو دیکھنا ہوگا۔ بوکانن کی رپورٹ ۱۰ – ۱۸۰۹ ء کی ہے۔ اس نے پورنیہ کو جن حصوں میں بٹا ہوا دکھایا ہے وہ ہیں . ۱ – حویلی پورنیہ ۲- سیف گنج یا ڈنگ کھورا ۔ ۳ – گوندوارہ ۔ ۴ – دھمدھا ۔ ۵ – ڈیمیا ۔ ۶ – مٹیاری ۔ ۷ – ارریہ ۔ ۸ – بہادر گنج ۔ ۹ – اودھریل ۔ ۱۰ – کرشناگنج ۔ ۱۱ – دلال گنج ۔ ۱۲ – نہا نگر ۔ ۱۳ – کھروا ۔ ۱۴ – بھولا ہاٹ ۔ ۱۵ – سیب گنج ۔ ۱۶ – کلیا چک ۔ ۱۷ – گورگری باہ ۔ ۱۸ – منیہاری ۔
اگر ۱۰ – ۱۸۰۹ ء تک بھولا ہاٹ پورنیہ کا جز رہا تھا اور یہی بھولا ہاٹ کا وہ علاقہ ہے جس میں گور کا قدیم اور عظیم الشان شہر واقع تھا اور جو سیکڑوں برس تک سارے پوربی راج کی راجدھانی بنا رہا تھا، جس کی آبادی مصر سے بہتر تھی اور جس کو ہمایوں نے جنت آباد کا نام دیا تھا۔ ہم پورنیہ واسی گور کو کس طرح بھول سکتے ہیں؟
ہیں یہ باتیں بھول جانے کی مگر کیوں کر کوئی
بھول جائے رات کا سب صبح ہوتے ہی سماں !!
( جناب مولوی محمد سلیمان صاحب سلیمان ۔ بی ایل ) انسان پورنیہ نمبر ، جنوری ۱۹۵۵ ء
(جاری….)
۔
تصاویر میں :- اوپر بائیں ‘ پنڈروردھن کی راجدھانی ‘ مہا استھان گڑھ ‘ ۔
اوپر دائیں ۔ بڑے بھیا محمد سراج الاسلام صاحب جنت آباد گور کی سیر کرتے ہوئے ۔
دائیں نیچے – نواسہ بادل عادل اور گور یا لکھنوتی۔
نیچے بائیں – کوشی بیرج
درمیان میں – مولانا محمد یوسف رشیدی ہری پوری کی ‘احسن التوارخ’ کا دوسرا ایڈیشن بہ عنوان ‘ تاریخِ پورنیہ ‘ مطبوعہ ۲۰۱۷ء
دائیں ۔ ہفتہ وار انسان ، کشن گنج کا ‘ پورنیہ نمبر ‘ مطبوعہ جنوری ۱۹۵۵ ء زیر ادارت اکمل یزدانی ۔ ایم اے
***
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...