پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا…لیکن جب دلاور صاحب نے خدا کی قسم اٹھائی تو میں بھی شش و پنج میں پڑ گیا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اُن کی یہ انہونی سی بات کیسے مان لوں۔ وہ بضد تھے کہ اُن کی بات بالکل درست ہے۔ ہوا یوں کہ گردے کی پتھری پر بات چل رہی تھی، میں نے انہیں بتایا کہ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ انسان ایک گردے پر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔دلاور صاحب فوراً بولے 'میرے تایا کے دونوں گردے نہیں ہیں‘…اب آپ ہی بتائیے میں کیسے یقین کرلیتا؟ میں نے کچھ دیر سوچا، پھر احتیاطاً پوچھا'قبلہ آپ یہی کہہ رہے ہیں ناں کہ آپ کے تایا کے دونوں گردے نہیں ہیں؟‘ …انہوں نے اثبات میں سرہلایا۔ میں نے سرکھجایا اور کوئی ثبوت طلب کیا۔ دلاور صاحب بھڑک اٹھے'ثبوت کہاں سے لائوں؟ ہاں البتہ میں آپ کو اپنے تایا کی قبر دکھا سکتا ہوں‘…!!
ہمارے ہاں بے شمار ناقابل یقین باتوں کا یہی جواب بنتا ہے لیکن ہمیں بہت بعد میں سمجھ آتا ہے۔ میرے ایک دوست کو جاسوسی ناول پڑھنے کا بہت شوق تھا‘ قدرت نے مہربانی کی اور ایک دن پولیس میں انسپکٹر بن گئے۔پہلا ہی کیس ایک قتل کا آگیا‘اس قتل پر قاتلوں کو اتنی خوشی نہیں ہوئی ہوگی جتنی میرے دوست کو ہوئی۔ موصوف نے فوراً اپنی ساری حسیات کو آواز دی اور باریک بینی سے قاتل کا کھوج لگانے کی تیاریاں کرنے لگے۔اچانک تھانے میں مقتول کا ایک رشتہ دار آیا اور کہنے لگا کہ یہ قتل اُسی نے کیا ہے اور وہ اعتراف جرم کرنے آیا ہے۔ انسپکٹر صاحب سمجھ گئے کہ یہ شخص اصلی قاتل کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے لہٰذا اس کی بات پر یقین کرنے کی بجائے ایک ایک بندے سے تفتیش شروع کر دی، مقتول کے گھر کے ایک ایک فرد کا تفصیلی انٹرویو کیا‘ شواہد اکٹھے کیے ‘ موبائل ڈیٹا نکلوایا لیکن کیس ایسا الجھا ہوا تھا کہ قاتل کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا‘ اُدھر وہ رشتہ دار صاحب مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ قتل انہوں نے ہی کیا ہے ۔ انسپکٹر صاحب نے اسے سختی سے کہہ دیا کہ وہ اپنی بکواس بند رکھے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کسی اور کو پھانسی سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ڈیڑھ سال کی طویل جدوجہد کے بعد بھی انسپکٹر صاحب اصلی قاتل تلاش کرنے میں ناکام رہے، اسی دوران ان کا تبادلہ ہوگیا اور ان کی جگہ ایک نیا انسپکٹر آگیا۔ نئے انسپکٹر نے آتے ہی ایک ہفتے میں کیس حل کرلیا۔ میرے دوست کو جب پتا چلا تو بڑی حیرت ہوئی۔ تفصیل پوچھی تو انکشاف ہوا کہ وہ جو شخص خود کو قاتل کہہ رہا تھا‘ وہی قاتل نکلا…!!
میرے ایک کولیگ ہوا کرتے تھے،ہمیشہ اولاد کے لیے ترستے رہے، دن رات باپ بننے کے خواب دیکھتے تھے‘ بے شمار حکیموں سے علاج کروایا‘ ڈاکٹروں کے چکر لگائے لیکن من کی مراد پوری نہ ہوئی۔ ہم سب ان کی حالت دیکھ کر دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ایک دن تو انہوں نے ایک ایسی بات کی کہ بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے‘ کہنے لگے'میں دولت نہیں چاہتا‘ شہرت نہیں چاہتا‘ صرف یہ چاہتا ہو ں کہ میرا بھی کوئی بچہ ہو‘ بے شک لڑکا ہو یا لڑکی‘ لیکن کوئی تو ہو جو مجھے ابو کہے‘ پاپا کہے‘ بابا کہے…مجھ سے چاکلیٹ مانگے‘ مجھ سے ضد کرے‘ میرے ساتھ کھیلے‘۔ میں نے انہیں گلے سے لگایا اور تسلی دی کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ایک دن میری اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے بات ہوئی‘ میں نے انہیں اپنے کولیگ کا مسئلہ بتایا تو کہنے لگے آج کل بڑی جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے ‘ تمہارے دوست کی شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟ میں گڑبڑا گیا‘ یہ سوال تو میں نے اپنے کولیگ سے پوچھا ہی نہیں تھا۔میں نے جلدی سے ان کے گھر کا نمبر ملایا اور پوچھا کہ 'محترم میں اس وقت اپنے ایک نہایت مستند ڈاکٹر دوست کے پاس موجود ہوں اور وہ آپ کے مسئلے کا حل نکال رہے ہیں یہ بتائیے کہ آپ کی شادی کب ہوئی تھی‘…آگے سے انتہائی درد میں ڈوبی ہوئی آواز آئی…''شادی کہاں ہوئی ہے بھائی!!‘
سو طے ہوا کہ اگر کوئی اس بات پر پشیمان ہو کہ وہ تمام تر محنت کے باوجود ڈاکٹر نہیں بن پایا تو عین ممکن ہے موصوف 'درس نظامی‘ کیے بیٹھے ہوں۔یہ صورتحال تب پیش آتی ہے جب سیدھی سی بات پر دھیان دینے کی بجائے اپنے تئیں بلاوجہ عقل کے استعمال پر زور دیا جائے۔عموماً پہیلیوں میں بھی یہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں اچھے اچھے پھنس جاتے ہیں۔مجھے یاد ہے میٹرک میں میرے ایک کلاس فیلو نے پوچھا تھا کہ 'بتائو ایک بندے کے ہاتھ کی چھ انگلیاں تھیں لیکن سب اسے بادشاہ بادشاہ کہتے تھے، کیوں؟‘۔ یہ سن کر میں نے فوراً ذہن استعمال کیا لیکن کچھ سمجھ نہ آیا کہ ہاتھوں کی چھ انگلیوں کا بادشاہ کہلوانے سے کیاتعلق بنتا ہے، پونے دو گھنٹے مغز ماری کرنے کے بعد بالاآخر میں نے ہار تسلیم کرلی اورجواب پوچھا۔ پتا چلا کہ بندے کا نام ہی بادشاہ تھا۔دھت تیرے کی…!!
ہماری زندگی میں بہت سے سوالوں کا جواب بھی اتنا ہی سادہ ہے لیکن چونکہ ہم بہت 'ذہین‘ ہیں اس لیے پیچیدہ سا حل ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔مثلاً مہنگائی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے‘ ہر شخص مہنگائی سے نجات چاہتا ہے لیکن اس کے لیے بھی ہم زگ زیگ حل سوچتے ہیں ۔ ہمیں لگتاہے کہ مہنگائی کی ذمہ دارصرف
حکومتیں ہوتی ہیں اور اس سے نجات بھی وہی دلا سکتی ہیں حالانکہ اپنی مہنگائی کے 50 فیصد ذمہ دار ہم خود ہیں۔یورپ امریکہ میں یہاں سے بھی زیادہ مہنگائی ہے لیکن لگتی اس لیے نہیں کیونکہ وہاں 18 سال کی عمر کو پہنچنے والا ہر فرد کماتا ہے خواہ وہ لڑکا ہویا لڑکی۔ذرا تصور کیجئے کہ ایک گھر کے چار افراد بشمول باپ‘ بیوی‘ بیٹا اور بیٹی نوکری کر رہے ہوں تو گھر میں آسودگی کا کیا عالم ہوگا۔ہمارے ہاں الٹا حساب ہے، ایک کماتا ہے، آٹھ کھاتے ہیں۔چیخیں تو نکلنی ہیں۔آپ نے اکثر بڑی عمر کے لوگوں سے سنا ہوگا کہ ان کے دور میں آٹا ایک روپے من ہوا کرتا تھا‘ بکرے کا گوشت تین روپے سیر تھا‘ دس ہزار روپے میں گھر بن جاتا تھا‘ سونا دو سو روپے تولہ تھا‘ چینی آٹھ آنے روپے کلو تھی‘ دودھ دو روپے کلو تھاوغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں سن کر بظاہر آنکھیں پھیل جاتی ہیں، دل پر ہاتھ سا پڑتاہے کہ کتنا سستا زمانہ ہوا کرتا تھا لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اس وقت آبادی کتنی تھی اور عام آدمی مہینے میں کتنے پیسے کماتا تھا؟ظاہری بات ہے تب تنخواہیں ہزاروں کی بجائے سینکڑوں میںہوتی تھیں۔ کیبل‘کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ موبائل فون اور ایل ای ڈی اخراجات کا حصہ نہیں تھے۔ بچے پرائیویٹ سکولوں میں نہیں بلکہ سرکاری سکولوں میں ٹاٹ پر پڑھا کرتے تھے۔ فریج کا تصور اتنا عام نہیں تھا، گھڑے ہوتے تھے یا زیادہ سے زیادہ باہر پھٹے والے سے برف منگوا کر واٹر کولر میں ڈال لی جاتی تھی۔تب ہیرسیلون بھی نہیں تھے، گلی کی نکڑ پر بیٹھا نائی جس طرح کے بھی بال کاٹ دیتا تھا قابل قبول ہوتے تھے۔'فرمان الٰہی ‘تمام مصروفیات کے خاتمے کا اعلان ہوتا تھا اورزیادہ سے زیادہ رات دس بجے تک سب گہری نیند سوجاتے تھے۔اُس وقت مہنگے کچن بھی نہیں ہوتے تھے، سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ ہوتا تھا اور مائیں پیڑھی پر بیٹھ کر پورے گھر کے لیے ناشتہ تیار کرتی تھیں۔ مہنگی کراکری سے مراد نقش و نگار والے پیالے ہوتے تھے اور اچھا لباس صرف کہیں 'آنے جانے‘ کے لیے پہنا جاتا تھا۔کتنا سادہ زمانہ تھا، کتنے سادہ حل تھے…لیکن ذہن ہے کہ اس سامنے کے جواب تک پہنچنے سے بھی قاصر ہے…!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“