(Last Updated On: )
1947 میں برصغیر کی تقسیم مذہب کے نام پر ہوئی ۔ ایک ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا۔کئی صدیوں تک محبت اور باہمی احترام کے ساتھ اکٹھے رہنے والوں نے 1857 کی جنگ آزادی بھی مل کرلڑی ۔ناکام ہوئے تو انگریزوں کے بنائے گئے پھانسی گھاٹ پر ہندوستانی حریت پسندوں کو لٹکا دیا گیا ان میں سے کچھ ہندو اور کچھ مسلمان تھے ۔مطلب یہ کہ اس وقت وہ لوگ بطور مسلمان یا ہندو نہیں بلکہ بطور ہندوستانی لڑ رہے تھے ۔ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی چلی تو اس کا ایک ہیرو بھگت سنگھ بھی تھا جس کی مہم جوئی نے اس وقت کی نوجوان نسل کو ایک نئی راہ دکھائی ۔بھگت سنگھ کی پھانسی کی سزا کے خلاف قائد اعظم جیسی شخصیت بھی چیخ اٹھی اور بھگت سنگھ کے لیے بھرپور آواز اٹھائی اور انگریز سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔
انگریزوں کے خلاف تحریک چلاتے ہوئے باہمی عدم اعتماد پیدا ہوا تو دو قومی نظریہ پیش ہوا اور اس کی بنیاد پر انگریزوں کے ملک چھوڑنے کے بعد دو ملک تشکیل پائے ۔ایک غیر فطری تقسیم ہوئی ایک ایسی مضحکہ خیز تقسیم کہ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ایسی تقسیم سے کس کو فائدہ ہوا۔پاکستان کے نام پر ایک ایسا ملک بنایا گیا جس کی جغرافیہ دنیا میں اپنی مثال آپ تھا ۔ملک کے دو حصے اور ان دو حصوں کے درمیان ایک دشمن ملک ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ مذہب کے نام پر بنائے گئے ملک میں کچھ لوگ ہجرت کرکے آئے جبکہ باقی ماندہ مسلمانوں نے مذہب کے نام پر بنائے گئے ملک میں جانے کی بجائے ہندوستان میں رہنے کو ترجیع دی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کا مطالبہ ہندوستانی مسلمانوں کا مشترکہ مطالبہ نہیں تھا۔
اگر مشترکہ فیصلہ تھا تو سب مسلمانوں نے ہجرت کیوں نہیں کی اور آج بھی ہندوستان میں کروڑوں مسلمان کیوں ہیں۔اگریہ ہندوستانی مسلمانوں کا مشترکہ مطالبہ نہیں تھا تو پھر یہ تقسیم کیسے ہوگئی۔کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ ایک بحران کو حل کرنے کے لیے ہمارے فیصلوں نے مزید کئی نئے بحرانوں کوجنم دے دیا ہے اور اب ان بحرانوں کو حل کرنے کے لیئے ہمیں باامر مجبوری ایٹم بم بنانے پڑے۔زرا سوچیئے کہ تقسیم تو بہتر مستقبل کے لیے ہوئی تھی اور بہتر مستقبل بھی عوام کا نا کہ سیاسی اشرافیہ کا تو پھر کیا دونوں ملکوں میں عام آدمی کی حالت میں بہتری ہوئی ہے ۔کیا بھوک ، غربت اور محرومیاں ختم ہوگئی ہیں ۔
کیا دونوں ملکوں کی عوام خوشحال اور آسودہ زندگیاں گذاررہی ہیں۔کیا صحت ، تعلیم اور روزگار کے مواقع دونوں طرف کی عوام کو یکساں دستیاب ہیں ۔کیا ان ملکوں کی عوام کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے ۔کیا ہر کوئی اپنے ریت رواج اور اپنی ثقافت کے ساتھ زندگی گذار رہا ہے ۔اگر ایسا ہے تو پھر تقسیم کا فیصلہ صد فیصد درست ہےاگر ایسا نہیں ہے تو پھر کون فائدے میں رہا کس کو زندگی کی آسائشیں اور سکھ میسر ہیں کس کی زندگی اس خطہ ارضی پر بھی جنت سے کم نہیں ہے ۔کہیں یہ دونوں ملکوں کی سیاسی اشرافیہ اور دولت مند طبقہ تو نہیں جن کو ہر سہولت ، سکھ اور آسانی میسر ہے جو قانون سے بالاتر ہیں جو ہم جیسے تو ضرور ہیں مگر ہم جیسے بالکل بھی نہیں مگر وائے قسمت کہ ہماری تقدیر کا فیصلہ یہی لوگ کرتے ہیں۔
کہیں یہ تقسیم ، یہ بٹوارہ یہ سرحدوں پر نفرتوں کی باڑ اس اشرافیہ کے لیے تو نہیں لگائی گئی ہے۔اگر ایسا ہی ہے بلکہ بالکل ایسا ہی ہے تو پھر سرحد کے دونوں طرف کی عوام کو کیا حاصل ہوا۔سرحد کے اس طرف بھی کروڑوں بھوکے ننگے لوگ سڑک پر بنے فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور سرحد کے اس طرف بھی لاکھوں لوگ سہولت کارڈ کے نام ایک معمولی سی رقم کےلیے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں ۔کیا اس طرح کی زندگی احترام انسانیت کے معیار پر پورا اترتی ہے ۔کیا باوقار قومیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے لیے لنگرخانے کھولے جائیں۔ ستم یہ کہ اصل مسلئہ پر توجہ دینے کی بجائے لوگوں کی معاشی حالت میں بہتری کی بجائے عوام میں مذہبی جنونیت کا زہر بھردیا گیاہے ۔سرحد کے اس طرف مسجد شہید کردی جاتی ہے تو اس طرف مندر میں توڑ پھوڑ کرکے جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔
ایک لمحے کو سوچیئے کہ بطور قومیں ہمارا رویہ کیا ہے ؟ نا ہم کلچر کا احترام کرتے ہیں نا ہی مذہب اور مسلک کا اور نا ہی رنگ ونسل کا احترام سیکھا ہے ۔ستم تو یہ ہے کہ ہم بطور انسان بھی ایکدوسرے کا احترام نہیں سیکھ سکے ۔ہم شدت پسند ہیں صرف شدت پسند۔اور المیہ یہ کہ اس شدت پسندی کو اپنی حب الوطنی اور ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں ۔اسی شدت پسندی کے زیراثر ہم نے سات دہائیاں گذار دیں اور اگریہی رفتار رہی تو مزید سات گذر جائیں گی مگر خوشحالی ، امن اور محبت کی منزل پھر بھی نہیں ملے گی۔
مہاتما گاندھی کالج اوڈوپی کی مسکان کا نعرہ تکبیر قابل فخر سہی مگر کب تک یہ سلسلہ چلے گا ۔کیا بیٹیاں اس لیے گھر سے باہر جاتی ہیں کہ مذہبی جنونی جتھوں کے وحشیانہ پن کا سامنا کریں۔ہم طالبہ مسکان کی جتنی تعریف کریں مگر یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج کی نوجوان طالبہ کو کن مسائل اور حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس کو ایسا ماحول ہم نے دیا ہے ۔
سیکولر ہندوستان کا نعرہ خواب ہوا اب مودی کا شدت پسند ہندوستان قائم ہے ۔ایک ایسا ہندوستان جہاں نفرتوں کو پروان چڑھایا گیا ہے جہاں ظلم وستم کو جائز کردیا گیا ہے۔مودی کی سیاست کو اس سے فائدہ ضرور ہوگا مگریہ رویہ ہندوستان کی ساکھ اور سالمیت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگا ۔یہ طے ہوگیا ہے کہ ہندوستان ایک سلگتا ہوا آتش فشاں بن چکا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے جس دن ایسا ہوا اس دن ہندوستان کا ایک نیا جغرافیہ تشکیل پائے گا اور کئی نئے ملک وجود میں آئیں گے ۔اور ہندوستان کی اس حالت سے ہمیں بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔