یکم دسمبر ایڈزکے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
ایڈز ایک متعدی مرض ہے جوانسان کے مدافعاتی نظام کو بری طرح پامال کردیتا ہے اورانسانی جسم میں بیماریوں کے جنگ لڑنے کی صلاحیت جس کے باعث انسان اس دنیامیں زندہ رہتاہے،ایڈزاس صلاحیت کو رفتہ رفتہ بالکل ختم کردیتی ہے۔ایڈزکی بہت بڑی وجہ کثرت زناہے۔ایک حدیث نبوی ﷺ کے مفہوم کے مطابق ”جب زناعام ہوجائے گا تو ایسی بیماریاں جنم لیں گی جن کاعلاج نہیں ہوگا“۔ایک اور حدیث مبارکہ میں آپﷺ نے ارشادفرمایاجس کامفہوم ہے ”جب کسی قوم میں عریانی اورفحاشی کارواج بڑھتاہے یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے لگتے ہیں توایسے لوگوں کے درمیان طاعون اوراس جیسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جوان کے اسلاف کے زمانے میں نہیں تھیں“۔پس سیکولرمغربی تہذیب کے غلبے کے بعدسے ایک سے ایک نت نئی بیماریوں نے قبیلہ بنی نوع انسان کے گھرکو تاک لیاہے اور سرتوڑ کوششوں کے بعد ایک بیماری کاعلاج ابھی دریافت ہونے پاتاہے تو دوسری جان لیوابیماریاں سر اٹھالیتی ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش سواچارکروڑ افراداس موذی مرض کے جراثیموں کاشکارہیں جن کی بہت بڑی تعدادامریکہ اور یورپ کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جودنیامیں ”ترقی یافتہ“ممالک کہلاتے ہیں یاپھردوسرے نمبر پر ان ممالک میں یہ مرض زیادہ پایاجاتاہے جہاں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ”سیروتفریح“کے لیے جاتے ہیں،وجہ صاف ظاہر ہے۔1981میں سب سے پہلے یہ مرض دریافت ہوااوراس مرض کے حامل امریکہ اور کیلیفورنیاکے ہم جنس پرست لوگ تھے،خاص طور پر مرد ہم جنس پرست افراد بری طرح سے اس مرض میں گرفتار ہیں اور اس کے پھیلنے کا سبب بھی بن رہے ہیں جب کہ ہم جنس پرست عورتوں میں یہ شرح نسبتاََ کم ہے۔دنیاکے دوسرے حصوں میں جنس مخالف کے ساتھ ناجائزتعلقات بھی اس مرض کا سبب ہیں۔ایڈزکے مریض یامریضہ کے ساتھ جوبھی لطف اندوز ہوتاہے وہ اس مرض کا لازمی شکار ہوجاتاہے۔محسن انسانیت ﷺ کا قول کس قدر درست اور سچاہے کہ طبی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایڈززدہ افراد کے ساتھ صرف جنسی تعامل سے ہی یہ مرض پھیلتاہے،محض ہاتھ ملانے سے،گلے ملنے سے،ایک ہی برتن یاتولیہ استعمال کرنے سے یاایک ہی بیت الخلا کے استعمال سے یہ مرض کسی دوسرے کو لاحق نہیں ہوتایالاحق ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
ایڈز کے جرثوموں (HIV)کی آمدکہاں سے ہوئی؟؟یہ ایک بہت بڑاسوال تھا جوطبی ماہرین کے لیے ایک ناقابل حل معمہ بن چکاتھا۔بہت تحقیق و جستجو کے بعد اور بہت زیادہ انسانی و مالی وسائل کے صرف ہونے کے بعد پتہ چلا کہ اس مرض کے جراثیم دراصل افریقہ میں بن مانس کی ایک نسل کے اندر پائے جاتے ہیں اور اس نسل کے جانوروں کے ساتھ کسی انسان نے اس حد تک جنسی قربت اختیار کی کہ اس جانور سے یہ جراثیم انسان کے اندر اور پھر دیگر انسانوں میں نفوذ کرتے چلے گئے اورسالوں کے بعد1999میں اس حقیقت تک رسائی حاصل ہوئی اوران تحقیقاتی اداروں کے مطابق 1940اور1950کے عرصے دوران یہ مرض اس جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا۔قرآن مجید نے سورۃ فرقان کے اندرانسان کی اس گری ہوئی خباثت پر بہت خوبصورت تبصرہ کیاہے”اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ‘ ہَوٰہُ اَ فَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا(۵۲:۳۴) اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلاَّ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا(۵۲:۴۴)“ترجمہ: ”کیا تم نے اس شخص کے حال پر غورکیاجس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدابنالیاہو؟؟کیاتم ایسے شخص کوراہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟؟کیاتم سمجھتے ہو کہ ان میں اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟؟یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے“۔
جس کو ایڈز کا مرض لاحق ہو جائے توپہلے مرحلے میں ابتدائی ایک سے تین ہفتوں کے دوران اسے عام سی بیماریاں لاحق ہونے کی شکایت رہتی ہے جیسے گلے کی خراش،نزلہ زکام،جلد میں خارش،بخار،سردرد،تھکاوٹ اور مسلسل بے آرامی و بے چینی وغیرہ،یہ ابتدائی شکایات بعض اوقات چار ہفتوں تک بھی جاری رہ سکتی ہیں۔اس دوران انسانی جسم ان ایڈز کے جرثوموں (HIV)کے ساتھ جنگ تو کرتاہے اور انہیں کبھی کبھی کمزور بھی کرپاتا ہے لیکن ختم نہیں کرسکتا۔ایڈزکے مریض کادوسرامرحلہ کافی طویل ہوتاہے اور بعض اوقات دس سالوں تک بھی محیط ہوجاتاہے۔اس دوسرے مرحلے میں مریض کی صحت اگرچہ بہت اچھی رہتی ہے اوردیکھنے میں وہ تندرست و توانا نظر آتاہے اور بظاہر اسے کوئی عارضہ بھی لاحق نہیں ہوتا لیکن ایڈز گھن کی طرح اسے چاٹتی رہتی ہے اور اندر ہی اندر بیماریوں سے بچاؤ کا مدافعاتی نظام تباہ و برباد ہوتارہتاہے۔اس دوسرے مرحلے کی سب سے خطرناک بات یہ ہے مریض کو اپنے مرض کا پتہ ہی نہیں چلنے پاتاکہ وہ علاج کراسکے۔ایڈز کے تیسرے مرحلے کے مریض کا وزن گھٹنا شروع ہوجاہے،اسے وقفے وقفے سے بخارآتے ہیں،پیچش لاحق رہتی ہے،گلا مسلسل شکایت کرتارہتاہے،زبان اور منہ بھی بدذائقہ رہنے لگتے ہیں اور خواتین بھی اپنی مخصوص بیماریوں میں مبتلا رہنے لگتی ہیں۔یہ تیسرامرحلہ اگرچہ جان لیوا نہیں ہوتا لیکن مریض کے لیے بہت صبر آزما ضرور ہوتاہے۔آخری مرحلے میں بعض لوگ ایڈز کے باعث کینسر جیسے موذی مرض میں بھی گرفتار ہوجاتے ہیں۔ہوشربابات یہ ہے کہ بچے بھی اس مرض کا شکار ہیں کیونکہ سیکولرازم کی جنسی آزادی نے انسانوں کی اس قیمتی متاع کو بھی معاف نہیں کیااور بچوں میں یہ مرض بڑوں کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتاہے کیونکہ ان کا مدافعاتی نظام ویسے ہی ابھی کمزور ہوتاہے اور ان جرثوموں کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔خاص طور پر ایڈزکاشکانومولود بچے دوسال سے زیادہ سانس نہیں لے سکتے اور بلآخر موت کاخونخوار آسیب انہیں ہڑپ کرجاتاہے۔
عالمی ادارہ صحت کے حوالے سے اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائی کے وسط تک کے اعدادوشمار کے مطابق آغاز میں ساڑھے تین کروڑمرد،تین کروڑ سے زائد عورتیں اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے اس مرض کا شکار تھے،اس سال کے دوران ڈھائی کروڑ بالغ اور دوکروڑ سے کچھ زائد بچے اس مرض کا شکار ہوئے جن میں سے چارلاکھ بیس ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے اور باقیوں میں سے اکثریت زندگی سے مایوس ہو کر اپنے وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ اس بیماری کے علاج پر روزانہ خرچ کرتے ہیں۔بھارت میں اس وقت کم و بیش چالیس لاکھ لوگ اس بھیانک مرض کے جرثوموں کا شکار ہیں جبکہ چین کے اندر ایڈز کا پھیلاؤ سب سے کم ہے کیونکہ ان کی قیادت نے کثرت زناکاسبب بننے والے انٹر نیٹ کلبوں کو بہت پہلے ریاستی قوت سے بزوربند کرادیاتھااوریوں انکی نوجوان نسل ایک بہت بڑی تباہی سے بچ گئی۔ ان حقائق سے آنکھیں کھل جانی چاہییں کہ انسانوں کی کتنی بڑی تعداد ”سیکولرازم“کی بے راہ روی سے مستعار آزادیوں کی بھینٹ چڑھتی چلی جارہی ہے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کاعمل ہنوزجاری ہے اور ایڈز کی بین الاقوامی کانفرنوں کے انعقاد کے باوجود بھی ابھی تک واپسی کا سفر شروع نہیں ہوسکا۔اقوام متحدہ کے ایڈز سے روک تھام کے ادارے نے خبر دار کیاہے کہ اگر اس رفتار سے بڑھتے ہوئے اس مرض کو باگیں نہ ڈالی گئیں تو بہت جلد یہ کل انسانیت کو اپنے جبڑوں میں کس لے گا۔ابھی بھی وقت ہے اختلاط مردوزن ختم کردیاجائے،مخلوط تعلیم پر پابندی لگادی جائے اور لڑکوں اورلڑکیوں کو علیحدہ علیحدہ نصاب میں تعلیم دی جائے،دفتروں،بازاروں،تفریح گاہوں،ذرائع مسافرت اورتقریبات اورمیلوں ٹھیلوں وغیرہ میں حضرات و خواتین کے آزادانہ میل جول کی بتدریج بیخ کنی کی جائے تاکہ نسل آدم اس جیسے موذی مرض سے بچ سکے۔وحی الہی پر مبنی اس تعلیم سے روگردانی کرتے ہوئے کسی بھی اور طرق تدارک سے اس مرض پر قابوپانا خام خیالی محض ہوگی اور اس سے نتیجہ معکوس ہی برآمدہوگا۔
یورپ کے ”دانشوروں“نے ایڈز سے بچاؤکے متعددطریقے تجویز کیے ہیں مثلاََ جنسی تعامل کے دوران غبارے استعمال کیے جائیں تاکہ ایڈزکے جراثیم جہاں سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتے ہیں وہاں کے راستے بندہوں،بعض ”سیکولرعقلمندوں“نے تجویز کیاکہ خواتین یامرداپنی شرمگاہوں میں وہ خاص کریم استعمال کریں جسے مخصوص اصطلاح میں ”جیلی“کہاجاتاہے جس سے جنسی اعضاء کی جلد یں ایک دوسرے کو مس نہیں کرتیں اوریوں بدکارایک دوسرے سے محفوظ رہتے ہیں لیکن اس جیلی کے استعمال کے لیے مناسب ہے کہ وہ دوسرے کے علم میں نہ ہوکیونکہ اس سے شائد لذتوں کی تکمیل نہیں ہوپاتی یہ اور اس طرح کے کئی اخلاق باختہ طریقے جو متعددذرائع ومتراجعات ومصادرپر اس مضمون کی تیاری کے دوران پڑھے گئے اس قابل نہیں ہیں اس تحریر کا حصہ بناکرسنجیدہ طبقے کے سامنے لائے جا سکیں۔اس بیماری کی تحقیق و علاج پر خرچ ہونے والے اخراجات کا تو تخمینہ ہی آسمان سے باتیں کررہاہے بلینزاورٹریلینزکی رقومات ہیں جو دنیاکی بہترین کرنسیوں میں اداکی جاتی ہیں تاکہ اس بیماری سے بچاؤ کی کوئی موثرتدابیروادویات تیار کی جا سکیں لیکن تادم تحریر کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔
مغربی سیکولردنیاکی مصنوعی چکاچوندکے کچھ ذہنی غلام مشرقی دنیاؤں میں بھی پائے جاتے ہیں،ایسے لوگوں نے بھی اپنے اپنے ممالک میں کچھ غیرسرکاری ونجی تنظیمیں بنارکھی ہیں اوراس بیماری سے آگاہی کی بابت وقتاََ فوقتاََ ان کی سرگرمیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔یہ ایک خاص طبقہ ہے جو عریانی و فحاشی پھیلانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔اس بیماری جومحدودومحیود تفصیلات ان صفحات میں درج کی گئی ہیں وہ صرف بڑی عمرکے افراد کے لیے ہی عبرت کاسامان بن سکتی ہیں،بچوں میں یا اوائل عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی تفصیلات ان کی اخلاق باختگی کا بالواسطہ سبب بن جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ایسے میں عوام کے اندرمخلوط مجالس میں براہ راست اس طرح کے حساس موضوعات پر گفتگوکرنااور پھراسے نصاب کاحصہ بنانے کامطالبہ کرنااور اس سے متعلق شرمناک مواددیکھنے اور پڑھنے کے لیے مفت تقسیم کرنا یہ ایسے عوامل ہیں جنہیں کوئی باحیامعاشرہ برداشت نہیں کرسکتا۔ایسے لوگوں پر قرآن مجید نے بلالحاظ یوں تبصرہ کیاہے کہ ”اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃَ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۲:۹۱)“ترجمہ:”جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیاورآخرت میں دردناک سزاکے مستحق ہیں،اللہ تعالی جانتاہے تم نہیں جانتے“۔اگریہ لوگ معاشرے کے اتنے ہی خیرخواہ ہیں تو اس مرض سے کہیں زیادہ کرب ناک واندوہناک معاملات ہیں جوہماری امت کو تباہی کے دہانے کی طرف ہانک رہے ہیں توکیاان کی طرف سے چشم پوشی کرنا مجرمانہ غفلت نہیں ہے۔
تف ہے ان یوررپ کے ”اہل دانش“پرکہ درخت کو اکھاڑنے کے لیے اسکی جڑ پر وار نہیں کرتے اور صرف پتے اور شاخیں ہی کاٹ کر سمجھتے ہیں کہ یہ بیماری ختم ہوجائے گی جبکہ وہ درخت پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلنے لگتاہے۔قرآن مجید نے واضع طورپر انسانیت کو ”حکم“دیاہے کہ”وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہ‘ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۷۱:۲۳)“ ترجمہ:”اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکووہ بہت برافعل ہے اوربڑاہی براراستہ“اور پھر یہ بھی کہ دیا کہ زمانے کی قسم کل انسان نقصان میں ہیں اور اس نقصان سے صرف وہی بچ سکتے ہیں جوایمان لائے ہوں نیک عمل کرتے ہوں اور حق و صبر کی تاکید و تلقین کرتے ہوں۔جب تک آزادی نسواں کے نام پر آزادی زناکا خاتمہ نہیں کیا جاتا،جب تک کمرشل ازم کے نام پر اشتہارات میں خواتین کی نمائش پر پابندی نہیں لگائی جاتی،جب تک سیکولرازم کے نام پر ذہنی و فکری آوارگی کو پابندوحی الہی نہیں کیاجاتااور جب تک انبیاء علیھم السلام کے عطاکردہ خطوط پر خاندانی نظام دوبارہ استوار نہیں کیا جاتا اس وقت تک کسی طرح کا بھی اخلاق و قانون انسانوں کو اس جنجال اور اس بھنور سے باہر نہیں نکال سکتا۔عقل و خرد کے اس تجربے میں یورپ بہت تیزی سے مانی ازم کی طرف بڑھ رہاہے لیکن انسانیت کی فوزوفلاح و کامیابی و کامرانی اسی میں ہے کہ وہ خطبہ حجۃ الواداع کی ٹھنڈی چھاؤں میں آجائے کہ اس کے علاوہ سب راستے دنیاوآخرت کی آگ کی طرف دھکیلنے والے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...