سکرین پلے ، ادب اور فلم میڈیم
( وشال بھرواج کی فلم ' رنگون ' پر ایک نوٹ )
یہ بات عرصے سے متنازع ہے کہ ' سکرین پلے ' فِکشنل ادب کا حصہ ہے یا نہیں لیکن میں اس تنازع کے پہلے روز سے اس بات پر پُریقین رہا ہوں کہ جب سے فلم کا میڈیم فنون لطیفہ میں شامل ہوا ہے یہ لازمی طور پر فِکشنل ادب کا حصہ ہے چاہے یہ کسی قصے ، کہانی ، ناول یا ڈرامے سے ماخوذ ہو ، اس پر مبنی ہو یا خالصاً ( اوریجنل ) سکرین کے لئے لکھا گیا ہو ۔ میں اس بات پر بھی پہلے دن سے کنوِنسڈ (convinced ) تھا کہ ' لکھت ' بالآخر انفرادی نہیں ' کولیکٹو (collective) ایفرٹ (effort) بن جائے گی ( ویسے تو ' فرد ' بھی جب لکھتا ہے تب بھی اجتماعی تجربے کو ' پراسس ' کر رہا ہوتا ہے ) ۔ میں جواز کے طور پر بہت سے حوالے دے سکتا ہوں لیکن یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ وشال بھرواج کی ' رنگون ' دیکھ کر میرا یہ احساس پھر سے تازہ ہوا ہے ۔
انڈیا اور پاکستان جب 19655ء میں ایک بار پھر آپس میں بھِڑے تھے ، وشال نے بجنور کے گاوٗں چاندپور میں ایک گھر کے پالنے میں انگوٹھا چوستے ہوئے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا کہ اس نے برصغیر کے فلم میڈیم میں ایسا کیا پیش کرنا ہے جو نیا ہو ۔ دہلی میں دوستوں کے لئے ہارمونیم بجاتے ، ٹینس کھیلتے ، اپنی کالج فیلو میوزک کی طالبہ ' ریکھا ' سے عشق لڑاتا ، اوشا کھنہ سے موسیقی کی باریکیاں اور ایک میوزک کمپنی کے لئے کام کرتا اس نے ممبئی کا وہ راستہ اپنایا جس پر اس کا بڑا بھائی چلا تھا ، ناکام رہا اور زندگی کی بازی ہار گیا تھا ۔ وہ کامیاب ہو کر اس کی ہاری بازی کو جیتنا چاہتا تھا ۔ اس نے 1994ء میں بچوں کی فلم ' ابھے ' میں موسیقی دینے سے فلمی سفر شروع کیا ۔ ' ماچس ' ، ' ستیا ' اور ' ہو تو تو ' جیسی فلموں میں موزک دیتا جب وہ ' مکڑی ' 2002 ء تک پہنچا تو اس قابل ہو چکا تھا کہ سکرین پلے لکھ سکے ، ہدایت کاری کر سکے اور فلمیں پروڈیوس بھی کر سکے ۔ مکڑی اس کی ' آل اِن ون ' فلم ہے ۔ مکڑی بھی بچوں کی فلم ہے جس میں شبانہ اعظمی نے جادوگرنی کا کردار ادا کیا ہوا ہے ۔ وہ جہاں ' کیونٹن تارنٹینو ' جیسے اپنے ہم عصر امریکی فلم میکرز سے متاثر تھا وہیں پولش اور جاپانی سینما نے بھی اسے متاثر کیا تھا ۔ پولش یدایت کار ' Krzysztof Piesiewicz ' کی 1989ء کی سیریل ' Dekalog ' ( جسے ہدایت کار نے ' دس احکامات ' کو اپنی نظر سے دیکھا تھا ۔ ) اور ' جاپانی اکیرا کوروساوا ' کی 1957ء کی ' خون کا کانٹا ' (Throne of Blood) نے اسے ولیم شیکسپئر کے ڈرامے ' میکبتھ ' کو اپنے انداز سے بنانے کا آئیڈیا دیا ( اکیرا نے شیکسپئر کے اس ڈرامے کے قرون وسطیٰ کے سکاٹش ماحول کو جاپانی جاگیردار سماج میں اپنے حساب سے بدل دیا تھا ۔ ویسے ہی جیسے اس کی ' سیون سمورائی ' 1954ء کو امریکی ہدایتکار ' John Sturges ' نے 1960 ء میں ' The Magnificent Seven ' میں بدلا تھا ) ۔ وشال نے ' میکبتھ ' کو عباس تریوالا کے ساتھ مل کر انڈر ولڈ کے ' ابا جی ' کی کہانی میں ڈھالا ، ڈرامے کی جادوگرنیوں کو دو بدعنوان نجومی پُلسیوں میں بدلا ، لیڈی میکبتھ کو ابا جی کی راکھیل میں بدلا اور میکبتھ کو اباجی کا دست راست ' میاں مقبول ' بنایا اور فلم بنا ڈالی ۔ یہ فلم نقادوں میں عالمی سطح پر بہت پسند کی گئی ۔ وشال نے اسی تجربے کو جاری رکھا اور ولیم شیکسپئر کے دو اور ڈراموں ' اوتھیلو ' اور ' ہملٹ ' کو ' اومکارا ' 2006 ء اور ' حیدر ' 2014ء میں بدلا ۔ اومکارا انڈیا کی مقامی بدعنوان سیاست کا پس منظر لئے ہوئے ہے جبکہ حیدر ہم عصر کشمیری سیاست کے تانے بانے سے بُنی گئی ہے ۔ وشال نے ' کمینے ' 2009ء ، ' سات خون معاف 2011 ء ' اور ' مٹرو کی بجلی کا من ڈولا ' 2013 جیسی ' nonlinear ' سٹوری لائن والی فلمیں بھی بنائیں ۔ ان سب فلموں میں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہندی / اردو یا اورئینٹل زبانوں میں بھی اب سکرین پلے لکھنا انفرادی کاوش نہیں بلکہ اجتماعی عمل بن چکا ہے ۔
' رنگون ' وشال کی تازہ ترین فلم ہے جو فروری 20177 ء میں ریلیز ہوئی ہے ۔ اس کا سکرپٹ امریکی ' میتھیو رابنز ' ، ' سبرینا دھوان ' اور وشال نے مل کر لکھا ہے ۔ وہ اس فلم کا ' ساجد نادیہ والا ' اور ' وایا کوم 18 موشن پکچرز ' کے ہمراہ پروڈیوسر ہونے کے ساتھ ساتھ ہدایت کار اور موسیقار بھی ہے ۔ ساجد نادیہ والا ویسے تو وشال کا ہم عمر ہے اور ' نادیہ والا گرینڈسن انٹرٹینمنٹ ' کا مالک ہے لیکن فلم انڈسٹری میں اس کا خاندان تین پشتوں سے انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں فلم کے میڈیم سے جڑا ہے جس کی بنیاد اس کے دادا ' عبدالکریم نادیہ والا ' نے رکھی تھی اور اس خاندان کی پہلی فلم ' انسپکٹر ' 1956 ء تھی جس میں گیتا بالی ، اشوک کمار اور پران نے مرکزی کردار ادا کئے تھے ۔
میتھیو رابنز امریکہ کا وہ نامور سکرپٹ رائٹر ہے جو سٹیون سپیلزبرگ اور جارج لوکس کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ وشال کے ساتھ پہلے بھی ' بلڈ برادرز' اور' سات خون معاف ' جیسی فلموں میں بطور سکرپٹ رائٹر کام کر چکا ہے ۔
' رنگون ' بظاہر ایک ایسی فلم ہے جس کا سکرپٹ ' مرد ، عورت ، مرد ' کی تکون کے گرد گھومتا ہے لیکن انگریزوں سے آزادی کی برصغیری جدوجہد کا ایک اہم پنا ؛ سبھاش چندر بوس کی ' آزاد ہند فوج ' ، دوسری جنگ عظیم میں برما کا محاذ ، برطانوی رائل فوج میں دیسی سپاہیوں کی وفادایاں ، تیس / چالیس کی دہائیوں کا برصغیری سینما ، مقامی دہلی و لکھنئو تہذیب کا لبادہ اوڑھے انگریز اور سب سے بڑھ کر آسٹریلوی نژاد انڈین ' میری این ایوان ( میری این واڈیا ؛ فلمی نام ؛ نڈر نادیہ ) کی سوانح کے رنگ اس میں دھنک کی طرح سجے نظر آتے ہیں ۔ جو اس زمانے کی سینما کی یاد رکھتے ہیں انہیں ' نادیہ ' کی فلم ' ہنٹر والی 1935ء ضرور یاد ہو گی ۔ ' رنگون ' کی ' nonlinear ' کہانی دھیرے دھیرے اپنی سحر انگیزی سنجیدہ فلم بین پر طاری کرتی ہے اور اس کے مکالمے دھان کے بان کی طرح مہین اور چست ہیں ۔
' رنگون ' میں بارہ گانے / گیت ہیں جن میں سے دس ' گلزار ' نے لکھے ہیں جبکہ دو ' لیکھا واشنگٹن ' کی تحریر ہیں ۔ گیت نگاروں نے گانوں میں استعمال ہونے والے الفاظ کا چناوٗ خاصا سوچ سمجھ کے کیا ہے یہ وہ ہی ہیں جو اس دور میں زبان زدِ عام تھے ۔ ' بلڈی ہیل ۔ ۔ ۔ ۔ ' اس فلم کا ایک غیر روایتی لیکن اچھا اور پالولر گانا ہے ۔ گو موسیقی بھی اس دور کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے لیکن اس کے گانے ' یہ عشق ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ' کی طرز و موسیقی پر فلم ' دل سے ۔ ۔ ' کے مشہور گیت ' ست رنگی رے ۔ ۔ ۔ ' کی چھاپ واضع طور پر جھلک مارتی ہے ۔
فلم میں سیف علی خان ( رستم ' روسی ' بلیموریا ) ، شاہد کپور ( جمعدار نواب ملک ) ، کنگنا رناوت ( جولیا ) ، رچرڈ میکبی ( میجر جنرل ہارڈنگ ) کی اداکاری عمدہ ہے جبکہ سھرش شُکلا ( زلفی) اور لِن لیشرام ( میما ) نے بھی اچھا پرفارم کیا ہے گو لِن کا رول خاصا مختصر ہے کچھ ویسا ہی جیسا ' مٹرو کی بجلی کا من ڈولا ' میں تھا ۔ جاپانی اداکار ستورو کاواگوچی نے بھی اچھی اداکاری کی ہے ۔ گو ڈرون کیمرہ نے عکاسی میں نئی سہولت مہیا کر دی ہے لیکن فلم کے عکاس ' پنکھج کمار ' ہاتھ خاصا پختہ ہے اور تدوین کار ' الاپ مجگووکر ' کا کام بھی عمدہ ہے ۔ کاسٹیومز اور میک اپ کے حوالے سے ڈولی آلووالیا ، پریتیشیل سنگھ اور کلوور ووٹن کی محنت کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی ۔
بڑے بجٹ کی ' رنگون ' تاحال باکس آفس پر ناکام ہے لیکن یہ ویسا ہی ایک نگینہ ہے جیسے ' مقبول ' ، ' اوکارا ' اور ' حیدر ' کی شکل میں وشال بھرواج نے تراش کر اپنی پگڑی میں سجائے تھے ۔
ضمیمہ : اس نوٹ کو لکھتے وقت وشال بھرواج 51 برس کا ہے ۔ وہ چالیس سے زائد فلموں کی موسیقی کمپوز کر چکا ہے ، پندرہ سے زائد کا دیگر لکھاریوں کے ساتھ مل کر سکرین پلے لکھ چکا ہے ۔ اس نے دس فلموں کا ہدایتکاری بھی کی ہے اور تیرہ فلموں میں سرمایہ بھی لگایا ہے ۔ ' زندگی ' اور ' کامیابی ' کی دیوی/ دیوتاوٗں سے بھائی کی ناکامی کا بدلہ لے چکا ہے ، کامیاب ہے اور فرانسس فورڈ کپولا ( Francis Ford Coppola ) جیسے ہدایتکار / فلم میکرز اس کے مداح ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وشال زندہ رہو ، نئے سے نیا پیش کرتے رہو اور کامیابی کے جھنڈے گاڑتے رہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مایا تو ہاتھ کی میل ہے ۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔