چند دن پہلے ایک فورم پر اُردو کے الفاظ کو انگریزی کے الفاظ پر فوقیت دینے پر اتفاق اور ہندی کے الفاظ ترک کر دینے کی معقولیت پر ہلکا پھلکا سا اختلاف ہوا تو میری ایک بھولی بسری یادداشت کا محرک بن گیا۔
پرانے زمانے کا ذکر ہے ۔میَں لاہور میں میٹرک کرنے کے بعد ملتان ہائیر سیکنڈری اسکول میں ایف ایس سی کے پہلے سال میں تھا۔ شاید بیماری کی وجہ سے دو سال پیچھے رہ جانے پر میرا بڑا بھائی مسعود بھی اسی کلاس میں میرے ساتھ تھا۔ میری عمر سترہ سال کی تھی۔ ابھی تک تو ہماری تعلیم اُردو میڈیم اسکول میں ہوئی تھی لیکن اب ایف ایس سی میں انگلش میڈیم پڑھائی تھی اور وہ بھی اُردو لازمی مضمون کے ساتھ۔ سب لیکچرار حضرات انگریزی بولتے تھے۔ ہماری سمجھ میں کَکْھ بھی نہیں آتا تھا۔ ٹریگنومیٹری (مثلثاث) کے اُستاد بلیک بورڈ پر تکونیں کھینچ کر زاویئے کی قوس کی طرف انگوٹھے اور اُنگلیوں کا اشارہ کر کے تِھیٹا بیِٹا سائن کوسائن جیسے ناآشنا نرالے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی ہم دونوں پڑھائی میں پھسڈی ہونے کے ساتھ ساتھ ہر مضمون کی کلاس میں پیچھے کی طرف کھسکتے گئے یہاں تک کہ آخری سیٹوں کی نوبت آ گئی۔ وہاں پڑھائی میں پھسڈی دو اور دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم چار لڑکے اُستاد کے زریں اقوال سننے کی بجائے شرارتیں کیا کرتے تھے۔ کبھی کاغذ کے ہوائی جہاز اُڑاتے تھے اور کبھی سائنس کی لیبارٹری سے کھسکائی ہوئی گلاس ٹیوب میں سالم مونگ کے دانے ڈال کر زور سے پھونک مار کر دوسرے طالب علموں کو تنگ کیا کرتے تھے۔
ہمارے اُردو مضمون کے اُستاد جی یوروپ سے واپس آئے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اہلِ زبان مہاجر اور چھ فٹ اونچے لمبے موٹے دیو کی طرح بھاری بھرکم تھے۔ بڑے بڑے کان، چہرے کے خدوخال موٹے موٹے لیکن ابنِ صفی جیسے جاذبِ نظر، سخت سیاہ چمکتی جلد کی رنگت کے اوپر ہر روز برف جیساسفید رنگ کا نفیس انگریزی سُوٹ اور خوبصورت ٹائی پہنتے تھے۔ ہمیں اُن کے لیکچر کی سمجھ نہیں آتی تھی کیونکہ وہ انگریزی میں لیکچر دیتے تھے۔ جی ہاں! میَں نے صحیح لکھا، مضمون اُردو کا اور لیکچر انگریزی میں۔ قصور اُنکا نہیں ہماری سمجھ کا تھا۔ ہم پینڈو بچے بور ہونے کے علاوہ کیا کر سکتے تھے؟ اُن کی نگاہوں سے ہمیں معلوم ہو جاتا تھا کہ اُنہیں ہماری شرارتوں کا سب علم تھا لیکن آدمی انتہائی شریف تھے۔ ایکدفعہ ہماری حرکتوں سے بہت زیادہ زِچ ہو گئے تو ہاتھ لہرا کر، ہماری طرف اشارہ کئے بغیر ساری کلاس کو کہا، ’’میَں جانتا ہوں اس کلاس میں کالی بھیڑوں کی ایک چنڈال چوکڑی ہے!‘‘
ایک دن وہ بلیک بورڈ کی طرف رُخ کئے کچھ لکھ رہے تھے۔ میری شامت اعمال، اُنہوں نے اپنے بڑے بڑے کانوں سے، میری سرگوشی کی بازگشت سے،مجھے کہتے سُن لیا،’’ایسا لگتا ہے کہ کپاس کے کھیت میں بھینسا گُھس آیا ہے‘‘۔
یہ جملہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا ۔ یادداشت اچھی ہوتی تھی۔ ضرب الامثال اور محاورے اچھے لگتے تھے اور فوراً یاد ہو جاتے تھے اور حسبِ ضرورت صورتِ حال دیکھ کر ٹھوک دیا کرتا تھا۔ اُستاد جی نے اُس وقت تو کچھ نہیں کہا۔ کلاس ختم ہوئی اور ہم سب نکلنے لگے توصرف مجھے روک لیا، باقی کلاس کے چلے جانے کا صبر سے انتظار کیا۔ جب مطلع صاف ہوا تو ذرا سا مسکرا کر فرمایا، ’’میَں نے تمہاری بات سُن لی تھی، بھینسے اور کپاس والی! میَں نے بُرا نہیں مانا کیونکہ تمہاری حِسّ مزاح مجھے پسند آئی ہے۔ لیکن ڈسپلن کا معاملہ ہے اسلئے میں تمہیں کلاس ڈسٹرب کرنے کی سزا ضرور دوں گا‘‘۔
میَں بہت گھبرایا کہ معلوم نہیں یہ شریف آدمی کس قسم کی سزا دے گا۔ کہیں کالج سے ہی نہ نکال دیں۔
اُستاد جی بولے، ’’ پہلے تُم میرے سامنے اسکاؤٹ کا سلیوٹ کر کے میرے سامنے وعدہ کرو کہ آئندہ دِل لگا کر پڑھو گے، کلاس میں سب سے آگے والی سیٹ پر بیٹھو گے، لیکچر غور سے سُنو گے، کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو ہاتھ اُٹھا کر پوچھو گے‘‘۔
ہائی اسکول کے زمانے میں اسکاؤٹ ہونے کے ناطے میَں نے لاہور نیشنل اسکاؤٹ جمبوری میں تلوار اور ڈھال سے لڑنے کے ایک مظاہرے میں بھی شرکت کی تھی ۔ اُس جمبوری میں ایران کے اسکاؤٹس اور شاہ ایران اور ملکہ فرح دیبا کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔میَں نے فوراً سیدھا ہو کر، چھاتی تان کر تین اُنگلیوں کا سلیوٹ مار کر اثبات میں اپنا سر ہلا دیا۔
اُستاد جی بولے، ’’تمہارے پاس چوبیس گھنٹے ہیں۔ ابھی کالج کی لائبریری میں جاؤ، میرا حوالہ دے کر اُردو کی فیروز اللغات اور جو چاہو کتابیں، ناول، دیوان وغیرہ گھر لے جاؤ۔ الفاظ کاپی کرو یا جملے یا پیراگراف، مجھے پروا نہیں۔کل اسی وقت تم نے اُردو میں ایک صفحے کی کہانی یا مضمون خوشخط لکھ کر مجھے لا کر دینا ہے۔اس میں تین سو سے لے کر تین سو پچاس تک الفاظ ہوں اور شرط یہ ہے کہ اُن میں زیادہ تر ایسے الفاظ ہوں جو عام بول چال میں لوگ استعمال نہیں کرتے لیکن اُردو ادب میں لکھے جاتے ہیں! اگر تم نے یہ کام نہیں کیا تو پھر میں مجبور ہو کر پرنسپل کو بتا دونگا۔ پھر وہ جانے اور تم جانو۔‘‘
کچھ اپنی جان بچانے کی خاطر اور کچھ ’’ایک اور ایڈونچر سہی‘‘ کے تجسس سے میَں نے فوراً ہامی بھر لی۔ لائبریری جا کر اپنی سمجھ کے مطابق کتابیں اکٹھی کیں، گھر واپس آیا اور میرا مطالعہ شروع ہو گیا۔ وہ رات میرے لئے واقعی بہت بھاری تھی۔ لیکن ایڈونچر کبھی آسان نہیں ہوتا۔ صبح ہونے تک میں ایک صفحہ لکھ چکا تھا۔ کالج لے گیا اور جا کر اُستاد جی کو پیش کر دیا۔
بور پینڈوؤں کو پڑھانے کے تصور سے ہی لرزاں تھکے ماندے اُستاد جی کرسی پر مشکل سے اٹک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دانت نکلی شکل دیکھ کر ایک دم سے اُنکی شکل پر بھی تازگی آ گئی۔ پڑھتے پڑھتے اُنکے چہرے کے اُتار چڑھاؤ سے کچھ معلوم ہو رہا تھا لیکن میری توقع یہ نہیں تھی کہ حیرانی سے ایک دم اُٹھتے اُٹھتے اُن کی کرسی اُلٹ جائے گی۔ جھینپی ہنسی ہنستے اپنا سفید سوٹ جھاڑتے اُٹھے، مجھے شاباش دی، ہاتھ ملایا اور میری اجازت سے وہ صفحہ ہاتھ میں تھامے پرنسپل کو میرا ادبی نمونہ دکھانے چلے گئے۔ اس کے بعد کلاس میں سب سے آگے بیٹھتے بیٹھتے میَں اُن کا چہیتا شاگرد ہو گیا۔ اُنکی بے لوث محنت اور توجہ سے میری پڑھائی کچھ بہتر ہوگئی اور میں فائنل امتحان میں مساں مساں سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہو گیا۔ وہ صفحہ میں نے اپنی ڈائری میں کاپی کر لیا تھا اور کچھ دن پہلے پرانے کاغذات میں ڈائری ملی تو یادداشت نے دولتی جھاڑ دی۔ اگر املا کی غلطیاں نظر آئیں تو یاد رکھئے میں اس وقت سترہ سال کا تھا۔
اب خالص اُردو کی تعریف کی بات چلی تو سوچا احباب سے پوچھ لوں اس پرانی تحریر کا آجکل کی خالص اُردو میں کیسے اظہار کیا جائے کہ چاشنی برقرار رہے۔
۔ ۔ ۔ ۔
’’کبھی میرا ذہن بھی کومل آشاؤں کی آماجگاہ تھا۔ اس ذہن میں نغمے گُونجا کرتے تھے۔ میَں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی بے معنی ہے، اس ذہن میں آس کی دیوداسیاں آرزؤں کے دیپ جلائے اپنے من کے مندر میں حسین خیالات کے دیوتا کی پُوجا کیا کرتی تھیں۔ اس ذہن میں خزاں کا گزر تک نہیں ہوا تھا۔
زندگی کے ساز پر ایک صنم محبت نے الوہیت کا راگ چھیڑ دیا۔ نغمے کی ملکوتی لَے نے مجھے کیف سرمدی سے روشناس کرا دیا۔ اس صنم محبت کی والہانہ نغمہ سرائی نے مجھے میری بہشتِ رنگ و بوُ سے باہر نشۂ معنوی میں مدہوش لا پھینکا۔ جب خوش گلو طائرانِ بہشت کی آوازوں سے آشنا میرے کانوں نے جھینگروں کی آواز کے سوا اور کچھ نہ سُنا تو تب میری آنکھیں کھلیں۔ میرے چاروں طرف بھیانک سنّاٹا محیط تھا۔ میں اپنے بہارستانِ دماغ سے محروم کر دیا گیا تھا۔ میری معراجِ زندگی تحت الثریٰ سے بھی گہری اور تاریک کھائی تھی۔میَں نے کسی سہارے کی جستجو میں ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی مگر اندھیرے کے سوا کچھ نہ ملا۔
تب ایک سیلابِ درد میرے دل میں اُمنڈ آیا۔ میں ایک وقتی گلے کی مٹھاس سے مدہوش ہو کر سب کچھ کھو بیٹھا تھا۔ میَں حرماں نصیب تھا نہیں ۔ ۔ ۔ مگر کر دیا گیا۔ ۔ ۔میں نے اس روحانی کرب اور قلبی اذیت کا مداوا فطرت کی دہلیز پر گر کر چاہا لیکن میرے ہاتھوں کو قدرت کے دامن سے جھٹک دیا گیا۔ میَں نے بے رحم قدرت کے سامنے اپنے دلِ دردمند کو کھول کر رکھ دیا۔ اپنے پارۂ ہائے خونیں کی نمائش کی۔ آنکھوں نے اپنا فریضۂ خون باری ادا کر دیا مگر میرے جذباتِ حزین اور شیون سفاک قدرت سے رحم نہ پا سکے۔ میرے دل پر سوگواری اور ماتم گساری سے نقوشِ حسرت ثبت ہو گئے۔ میری دردمندانہ محشرستانیوں کا صلہ غمناک حزنیہ کی صُورت میں ملا۔ میَں اپنی پُوری تلخ نوائیوں، درد مندیوں اور نالہ سرائیوں کے ساتھ بے درد فطرت کا گِلہ مند ہوں۔‘‘
“