ایس سی او کی رکنیت، ایک آمر کو داد
لکھنا میں چاہتا تھا قطر اور سعودی عرب کے مخاصمہ پر مگر وہ کام بالآخر ہو گیا جس کے ہوانے کی خواہش کا سب سے پہلے اظہار پاکستان کے ایک آمر جنرل پرویز مشرف نے 15 جون 2006 کو شنگھائی میں ہوئی "شنگھائی تنظیم تعاون" کی چھٹی کانفرنس میں کیا تھا۔ پاکستان تب اس نئی منظم شدہ علاقائی تنظیم میں بطور مبصر شریک تھا۔ مبصر ملکوں کو فیصلہ سازی میں شریک ہونے کا حق نہیں ہوتا مگر وہ اپنی بات ضرور کر سکتے ہیں۔ تب اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ پاکستان کو اس تنظیم کی مستقل رکنیت دی جائے تاکہ پاکستان "شنگھائی تنظیم تعاون" کی امن اور سلامتی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر خطے میں ہم آہنگی قائم کرنےکے عمل میں شریک ہو سکے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ اسلام آباد منشیات اور اسلحے کے غیر قانونی کاروبار کو روکنے میں بھی مددگار ہوگا۔ تب کے صدر پاکستان پرویز مشرف نے تنظیم مذکورہ کے رکن ملکوں کے درمیان تعلیمی، سیاحتی اور ثقافتی شعبوں میں باہمی تبادلے کرکے خطے کے سماجی سیکٹر کو بھی فروغ دیے جانے کی بات کی تھی۔
انہوں نے پاکستان کو "شنگھائی تنظیم تعاون" کی مستقل رکنیت دیے جانے کے تقاضے کی دلیل کے طور پر کہا تھا،" پاکستان شنگھائی تنظیم تعاون میں شامل ریاستوں کے لیے یوریشیا کے اہم خطوں اور بحیرہ عرب و جنوبی ایشیا کو جوڑنے کا ایک قدرتی ربط ہے۔" انہوں نے مزید کہا تھا،" ہم خطوں کے مابین اور خطے سے ملحق خطہ جات میں تجارت اور توانائی کے لین دین کو بڑھائے جانے کی خاطر انتہائی اہم زمینی راستے دینے کی پیشکش کرتے ہیں۔"
کسی بھی آمر کو داد دینا کوئی قابل تحسین بات خیال نہیں کی جاتی مگر اگر کسی آمر نے کوئی ایسا کام کیا ہو جس کے نتائج بہتر نکلنے کی امید کی جا سکتی ہو تو داد نہ دینا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ درست ہے کہ پرویز مشرف نے تب حکومت پاکستان کی پالیسی کو ہی آگے بڑھایا تھا تاہم تاریخی جبر سہی کہ یہ اچھا کام ایک آمر کے حصے میں آیا۔ ویسے بھی وہ ایک نرم آمر خیال کیے جاتے تھے جن کو راگ و رنگ سے دلچسپی تھی۔ خیر ان کی ذات کی طرف نہیں جاتے، صرف اتنا کہنا تھا کہ یہ کام ان کے زمانے میں شروع ہوا تھا جس کے ایک حصے کو آج "سی پیک" کے نام سے جانا جانے لگا ہے اور جسے شروع کرنے کا دعوٰی آصف زرداری نے کیا اور جسے مکمل کیے جانے کا ارادہ موجودہ منتخب حکومت کا دعوٰی ہے۔
شنگھائی تنظیم تعاون تشکیل دیے جانے کے آغاز میں مغرب کا خیال تھا کہ یہ کوئی اتنی موقر تنظیم ثابت نہیں ہو سکے گی اور یہ گمان بھی رہا کہ کہیں یہ نیٹو کے مقابلے میں تو کوئی تنظیم نہیں بنائی جا رہی اگرچہ بعد میں اس تنظیم میں شامل کچھ ملکوں نے "مشترکہ دفاع کے معاہدے کی تنظیم" یعنی او کے دے بے ( آرگنائیزاتسیا کولیکتیونے بیز اوپاسنیستی) بنا لی تھی۔ ایک وقت امریکہ نے بھی شنگھائی تنظیم تعاون میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی مگر اسے علاقائی ملک نہ ہونے کی بنا پر کوئی مقام دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ برطانیہ اور فرانس کی بھی دلچسپی رہی لیکن مستقل رکنیت کے حصول میں سب سے زیادہ دلچسپی تنظیم کے مبصر ملکوں یعنی ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران کی رہی۔
ان ملکوں میں سے ایران کے خلاف مغرب اور امریکہ کی اقتصادی پابندیاں عائد تھیں چنانچہ اس کو تنظیم میں لیے جانا ویسے ہی مغرب کی مزید مخالفت مول لینا تھا۔ افغانستان کے حالات تب بھی سیاسی اور دفاعی طور پر دگرگوں تھے اور اب تک کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان دو ایسے ملک تھے جن کو رکن لیے جانے کے بارے میں غور کیا جا سکتا تھا مگر تنظیم مذکورہ نے کسی بھی نئے ملک کو بطور رکن لیے جانے پر تقریبا" ایک عشرے تک "موریٹوریم" یعنی عارضی پابندی لگائے رکھی تھی۔ ایک طرح سے یہ لائحہ عمل تھا تاکہ پاکستان اور ہندوستان جن کا مناقشہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں خود کو اس قابل بنائیں کہ انہیں مستقل رکن لیا جا سکے۔ ہندوستان کے حق میں روس تھا جس کے ساتھ اس کے قدیمی سیاسی و تجارتی مستحکم روابط ہیں اور لامحالہ پاکستان کو رکن لیے جانے کے حق میں چین کی معاونت حاصل تھی۔
ایسا بھی نہیں ہوا کہ مستقل رکن لیے جانے پر عارضی پابندیوں کے دوران تنظیم مذکورہ کے مبصر ملکوں کے درمیان اور مابین کوئی عملی ہم آہنگی نہیں رہی بلکہ دہشت گردی سے متعلق بالعموم اور منشیات کی سمگلنگ کے ضمن میں بالخصوص نہ صرف معلومات کا تبادلہ جاری رہا بلکہ ان کی روک تھام کے سلسلے میں حکومتی ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیے گئے جنکی باقاعدہ معینہ اوقات پر ایک دوسرے کے ملکوں میں اجلاس بھی ہوتے ہیں ان میں روس اور پاکستان کے اس سلسلے میں تشکیل پا کر کام کرنے والے حکومتی ورکنگ گروپ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
چونکہ افغانستان کے بحرانی سیاسی حالات پر چین کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں جو اس تنظیم میں شامل ہیں اور ان کے توسط سے روس کو بھی تشویش رہی اور اب تک ہے، ساتھ ہی افغانستان کے معاملات میں پاکستان کے ایک اہم کردار کی حقیقت ہندوستان اور روس دونوں ہی پر عیاں تھی۔
اسی اثناء میں ہندوستان کا جھکاؤ امریکہ کی طرف ہو گیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان جوہری توانائی کے معاہدوں پر دستخط ہو گئے۔ روس کو اگرچہ مایوسی ہوئی مگر وہ اپنے جنگی سازو سامان کے ایک بڑے خریدار کو جس کے ساتھ تازہ ترین نسل کے جنگی طیارے اور میزائل براہموس بنانے کے معاہدے بھی ہیں، کھو نہیں کو سکتا تھا اس لیے ہندوستان کے ساتھ تعلقات بنائے رکھے۔ ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ بھی تجارتی اور دفاعی معاملات کو کسی حد تک آگے بڑھانا شروع کیا۔ کیونکہ دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف روس اور پاکستان، چین اور روس، چین اور پاکستان کی مشترکہ جنگی مشقیں ہونا شروع ہو چکی تھیں چنانچہ روس نے پاکستان کو چھ ایم آئی 26 ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر بیچے تاکہ وہ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقل و حمل کے لیے استعمال کر سکے۔ اگرچہ غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے پریس میں یہی ڈھنڈورا پیٹا گیا اور پیٹا جا رہا ہے کہ روس نے پاکستان کو گن شپ کمبیٹ ہیلی کاپٹر بیچے ہیں۔ یہ بھی غلط نہیں کہ ان ہیلی کاپٹروں میں آپ اضافی مشین گن فٹ کر سکتے ہیں لیکن یہ ان بلٹ گن شپ ہیلی کاپٹر نہیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ روس پاکستان کو جارحانہ دفاعی سامان بیچ کر اپنے شریک کار اور اسلحے کے بڑے خریدار ملک بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ر روس کی وزارت دفاع نے اس حوالے سے باقاعدہ بیان جاری کیا تھا کہ ہندوستان کی رضامندی کے بغیر پاکستان کو روس کی جانب سے دفاعی سامان نہیں بیچا جائے گا۔ ساتھ ہی کہا تھا اگرچہ روس اپنے اسلحے کی فروخت کو متنوع کرنا چاہتا ہے۔
پرویز مشرف کے حکومت سے علیحدہ ہونے کے کئی سال بعد تک روس کے سیاسی مبصر ان کے گن گاتے رہے تھے۔ تاہم جب چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کی بات ہونے لگی تو روسی مبصرین نے مشرف کی جان چھوڑ کر یہ نقطہ بیان کرنا شروع کر دیا تھا کہ مجوزہ کاریڈور " مقبوضہ کشمیر" سے گذرے گی۔ یاد رہے روس پاکستان کی جانب والے کشمیر کو ہندوستان کی طرح مقبوضہ کشمیر سمجھتا ہے اور جموں کشمیر کو ہندوستان کی قانونی ریاست۔
ایک بات جس سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان، پاکستان اور کسی حد تک ایران پر چین کا اثر روس سے زیادہ ہے۔ چین کو چونکہ توانائی کے وسائل محفوظ طریقے سے درکار ہیں، اس لیے اس نے پہلے گوادر پورٹ کو تعمیر کرنے ، بعد میں اس کا انصرام سنبھالنے اور اس کے بعد "سی پیک" نام کے معاہدے پر دستخط کرنے کی راہ اپنائی تھی۔ دوسری بات یہ کہ عالمی میدان میں اگر روس کو چین کی حمایت حاصل نہ ہو تو اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ روس کے لیے شام اسی طرح انتہائی اہم ہے جس طرح چین کے لیے سی پیک پر عمل درآمد۔ سی پیک کے ضمن میں امریکہ نے بھی کسی بظاہر مخاصمت کا اظہار نہیں کیا، یوں ہندوستان نے بھی اس معاملے کو جیسا کہ روسی مبصر خیال کر رہے تھے، عالمی فورموں پر نہیں اٹھایا۔
روس سمجھ چکا تھا کہ اگر چین کا ہاتھ بٹایا جائے تو چینی ضرورت پڑنے پر اس کے کام آتے رہیں گے چنانچہ مودی پر پوتن کا اثر آزمایا گیا پاکستان کو تو چین کی اشیر باد پہلے ہی حاصل تھی یوں ڈھائی سال کی عملی تگ و دو کے بعد جس دوران قانونی اور اصولی معاملات نمٹائے گئے بالآخر پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی کو اس اہم علاقائی تنظیم میں مکمل رکن کے طور پر لے لیا گیا ہے۔
اس تنظیم کے بنیادی مقاصد تجارتی اور باہمی تعاون سے متعلق ہیں۔ ساتھ ہی کوشش ہے کہ عالمی منڈی میں ڈالر کی حیثیت چیلنج کی جا سکے۔ روس اور چین پہلے ہی سونے کے ذخائر خرید کر اور ملکوں کے درمیان مقامی کرنسیوں میں لین دین کرکے جیسے کہ روس اور چین کے درمیان روبل اور یوآن اور روس اور بھارت کے درمیان روبل اور روپے میں زیادہ تجارت ہو رہی ہے، ڈالر کی حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر تجارتی اور انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کی خاطر خطے میں امن اور سلامتی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے سربراہ شی جن پنگ نے کہا ہے کہ تنظیم میں شامل ملکوں کو پانچ سال کے لیے جنگ نہ کرنے کا سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے ان کا اشارہ ہندوستان اور پاکستان کے گرم اطوار کو شانت کیے جانے کی جانب تھا۔
امید واثق ہے کہ روس، چین اور تنظیم میں شامل دیگر وسطی ایشیائی ملک پاکستان اور ہندوستان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوئے رہنے سے روکنے میں کامیاب ہونگے تاکہ افغانستان کے اونٹ کو کسی کروٹ بٹھایا جا سکے، سی پیک پر عمل درآمد ہو سکے اور ہندوستان سمیت تمام ملکوں کے لیے یوریشیائی منڈیاں کھل سکیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“