سائنسدانوں نے کائنات کا “گم شدہ” مادہ تلاش کر لیا
فلکیات دانوں کی ٹیم نے مشترکہ طور پر ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کائنات میں موجود گم شدہ لیکن قابل مشاہدہ مادے کا سراغ لگا لیا ہے۔ اس تحقیق کو بدھ کے روز سائنسی جریدے نیچر میں شائع کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ تحقیق کے تکنیکی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے، آئیے ذرا یہ جانتے ہیں کہ “گم شدہ قابل مشاہدہ” مادے سے کیا مراد ہے؟
سائنس خصوصاً فلکیات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین یقیناً تارک مادے یعنی ڈارک میٹر واقف ہوں گے۔ ہو سکتا ہے اکثریت نے اس تحقیق میں دریافت ہونے والے مادے سے مراد بھی تاریک مادہ ہی لیا ہو۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔
کائنات میں موجود تمام سیاروں، ستاروں، اور کہکشاؤں کے ایٹمز۔۔۔۔کائنات کے مادہ و توانائی کی کل کثافت کا صرف 5 فی صد ہیں۔ یہ عمومی مادہ جسے آرڈینری میٹر Ordinary Matter بھی کہا جاتا ہے، تاریک توانائی کے سامنے ہیچ ہے۔ کائنات کا 70 فی صد تاریک توانائی پر مشتمل ہے۔ یہ ایک ایسی پراسرار توانائی ہے جس کی وجہ سے کائنات مسلسل تیز رفتار اسراع کے ساتھ پھیل رہی ہے۔
یوں عمومی مادہ اور تاریک توانائی کل ملا کر کائنات کا 75 فی صد بنتے ہیں۔ باقی 25 فی صد تاریک مادہ یعنی ڈارک میٹر پر مشتمل ہے جس سے سائنس ابھی ناواقف ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا مادہ ہے جو کہ مکمل طور پر مخفی اور غیر مرئی خصوصیات کا حامل ہے۔ اسے صرف کہکشانی پیمانے پر کشش ثقل کے ذریعے اثرانداز ہونے کی وجہ سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ اسے معلوم کرنے کا اور کوئی سائنسی طریقہ تاحال دریافت نہیں ہوا۔ یہ تاریک مادہ کائنات کے لیے ایک پوشیدہ ڈھانچے کا کردار ادا کر رہا ہے جسے ابھی ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اب آتے ہیں مضمون کے اصل موضوع کی جانب۔۔۔ سائنسدان کائنات کو تشکیل دینے والی ان تینوں مقداروں یعنی عمومی مادہ، تاریک مادہ، اور تاریک توانائی کی پیمائش کے لیے بنیادی طور پر دو طریقہ کار اپناتے ہیں۔ چند سال پہلے تحقیق دانوں نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ بگ بینگ کے بعد کائنات کی تخلیق کے وقت کل کتنا مادہ وجود میں آیا ہو گا۔ اس کے ساتھ فلکیات دانوں نے “کونیاتی اشعاعی پس منظر” (کائنات میں موجود قدیم ترین روشنی جو ہر طرف نفوذ پزیر ہے) کا مطالعہ بھی کیا۔ نتیجتاً عمومی و تاریک مادے اور تاریک توانائی کے بارے میں درست اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے۔
ان تینوں مقداروں میں سے بیشیہ یعنی بیریون (ایک سب اٹامک ذرہ جو مادے کی تشکیل میں کردار ادا کرتا ہے) سب سے زیادہ قابل پیمائش مادہ ہے۔ یہ بیشیائی مادہ (Baryonic Matter) یا تو روشنی خارج کرتا ہے مثلاً سورج، یا پھر اسے منعکس کرتا ہے جیسا کہ چاند۔۔۔۔ ان خصوصیات کی وجہ سے اس مادے کو باآسانی دوربین وغیرہ سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ مضمون پڑھتے ہوئے یہاں تک آ پہنچے ہیں تو ہم آپ کی استقامت اور جستجو کی داد دیتے ہوئے مضمون کے مرکزی نکتے پر آئیں گے اور وہ یہ کہ یہ بیشیائی مادہ جسے قابل مشاہدہ مادہ بھی کہا جا سکتا ہے بجائے خود اپنے اندر پر اسراریت سموئے ہوئے ہے۔ کیونکہ اگر آپ کائنات میں موجود اس تمام قابل مشاہدہ روشنی، اس روشنی کے ماخذ اور اس کے عکاس مادے کو یکجا کریں تب بھی یہ کل عمومی مادے کا صرف 10 فی صد ہے۔
جی ہاں۔۔۔۔ وہی عمومی مادہ جو بجائے خود کل کائنات کا صرف 5 فی صد ہے۔ گویا کائنات کے قابل مشاہدہ مادے کا بھی صرف 10 فی صد ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ باقی 90 فی صد گم شدہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمومی ہونے کے باوجود یہ گم شدہ مادہ کہاں ہے اور کس حالت میں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے کئی دہائیوں سے سائنسدانوں کو پریشان کیا ہوا تھا۔ حالیہ تحقیق اسی سوال کے ایک مؤثر جواب کے طور پر سامنے آئی ہے۔
اس تحقیق کے معاون مصنف اور یونیورسٹی آف کولوراڈو سے منسلک فلکیات دان مائیکل شل کے مطابق “یہ کونیات کا ایک ایسا حل طلب سوال تھا جس نے بگ بینگ نظریے کی پیش گوئیوں پر بھی سوال اٹھا دیے تھے”. ڈاکٹر شل کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ یہ گم شدہ مادہ ہائیڈروجن پر مشتمل ہو گا۔
ہائیڈروجن کائنات میں وافر مقدار میں پایا جانے والا اور سادہ ترین عنصر ہے۔ ہائیڈروجن کے ایٹم “آئن سازی” کے بعد بصری طول موج پر دکھائی نہیں دیتے۔ یعنی پوشیدہ حالت میں آ جاتے ہیں۔ گویا انہیں شناخت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے آئن شدہ ہائیڈروجن کے گیسی بادل اگر زمین اور بالائے بنفشی روشنی کا اخراج کرنے والے منبع کے درمیان حائل ہوں تو یہ ہائیڈروجن مخصوص طول موج کو جذب کر لیتی ہے۔ یوں زمیں پر دوربین کے ذریعے مشاہدہ کرنے والے فلکیات دان اس کے کیمیائی فنگر پرنٹ کو باآسانی شناخت کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر شل اور ان کی ٹیم ایسے ہی بادلوں کی تلاش میں تھے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ بوریت کا شکار نہیں ہو رہے ہوں گے۔۔۔ کیونکہ یہاں تک پہنچنے والے قارئین وہی ہو سکتے ہیں جو واقعی اس موضوع کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں اور خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ خیر آگے بڑھتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے اوپر والے پیرا گراف میں پڑھا کہ ہائیڈروجن کے آئن شدہ ایٹمز کے بادل مخفی ہونے کے باوجود اپنی شناخت چھوڑ سکتے ہیں۔ اور تحقیقاتی ٹیم کو ایسے ہی بادلوں کی تلاش تھی۔ لیکن اس میں بھی قباحت یہ تھی کہ جوں جوں گیس کا درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے مثلاً 10 لاکھ درجے کیلون ( 18 لاکھ درجہ فارن ہائیٹ) پر آئن شدہ ہائیڈروجن کی بالائے بنفشی شعاعوں پر شناخت یعنی اس کے فنگر پرنٹ بھی ملنا ناممکن ہو جاتے ہیں۔
ٹیم نے اس کا حل یہ نکالا کہ نسبتاً نایاب اور آئن شدہ آکسیجن کے ایٹمز کو زیادہ توانائی والی طول موج کی روشنی کی شعاعوں کے ذریعے تلاش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ٹیم نے یورپی خلائی ایجنسی کی ایکس رے دوربین کا استعمال کرتے ہوئے کہکشاں کے وسط میں موجود BL- LacerTae نامی بہت بڑے کوآسار کا مشاہدہ کیا۔
تصویر بشکریہ: نیچر میگزین
کوآسار بلیک ہولز رکھنے والے اور مادے کو بڑی تیزی کے ساتھ ہڑپ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اسی بناء پر یہ ایکس شعاعوں سے لے کر ریڈیائی شعاعوں تک مخلتف طول موج کی حامل روشنی کی بہت بڑی مقدار کو خارج کرتے ہیں۔ یوں یہ ایک ایسے فلکی لائٹ ہاؤس کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جو بیم کے راستے میں آنے والے مادے کو نمایاں کرتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ درجہ بالا پیرا کو درست طور پر نہیں سمجھ پائے ہوں گے۔ آسانی کے لیے اس کی مثال یوں لیجیے کہ جیسے بند کمرے میں کھڑکی سے جھانکتی روشنی ہو تو اس سے گزرنے والی ہوا میں موجود گرد کے ذرات نظر آنے لگتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کوآسار سے آنے والی ریڈیائی شعائیں کرتی ہیں امید ہے اس مثال سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔ کیونکہ اس کا مشاہدہ اکثر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں کرتے رہتے ہیں۔
ایکس رے دوربین کے ذریعے کوآسار کی روشنی سے آکسیجن کے کیمیائی فنگر پرنٹ تلاش کرتے دوران ٹیم نے بین الکہکشانی Intergalactic گیس کی بہت بڑی مقدار دریافت کر لی۔ یہ اتنی بڑی مقدار تھی کہ کائناتی پیمانے پر بیشیائی مادے کے 40 فی صد پر مشتمل تھی۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ تحقیقاتی ٹیم نے عمومی مادے کی گم شدہ مقدار بھی دریافت کر لی ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ آئنی ایٹمز سپرنووا کے نتیجے میں وجود میں آتے ہوں گے۔ اور پھر ستارے کی موت کے وقت ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں اپنی کہکشاؤں سے نکل پوری کائنات میں پھیل جاتے ہوں گے۔
شائع ہونے کے بعد اس تحقیق نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ تاہم کچھ ماہرین نے اس پر سنجیدہ سوال بھی اٹھائے ہیں۔ مثلاً چین کے ایک تحقیقاتی ادارے سے منسلک سائنسدان تاؤتاؤ فینگ (جو کہ اس تحقیق میں شامل نہیں تھے) نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ “ضروری نہیں کہ یہ آئنی گیس بین الکہکشانی طور پر موجود ہو۔ ہو سکتا ہے یہ صرف اسی کہکشاں کا ہی حصہ ہو جس کا مشاہدہ کیا جا رہا تھا”. البتہ تاؤ نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ “یہ تحقیق پوشیدہ مادے کی دریافت کی دعویدار ہو سکتی ہے”۔
اس تحقیق پر کام کرنے والے ڈاکٹر شل اوران کی ٹیم تنقید سے مایوس نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ سائنسی عمل کا حصہ ہے۔ اور سائنس میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ جب تک کہ یہ مختلف شواہد سے گزر کر بار بار ثابت شدہ نا ہو جائے تب تک اس میں ترمیم کا عمل جاری رہتا ہے۔ اسی بناء پر مائیکل شل نے یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ مزید کوآسارز کا مشاہدہ بھی کریں گے تا کہ یہ یقین کیا جا سکے کہ یہ پوشیدہ مادہ صرف ایک کہکشاں کا حصہ نہیں بلکہ آسمانوں میں ہر جانب موجود ہے۔
آخر میں صرف اتنا لکھوں گا کہ آپ مکمل تحریر پڑھ کر آخری سطور تک پہنچنے والے چند قارئین میں سے ایک ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ میں واقعی سائنس کو جاننے کی لگن موجود ہے۔ اس لیے میری طرف سے مبارکباد قبول کیجیے۔ امید اس لگن میں مزید اضافہ ہو گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“