کہا جاتا ہے کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم نے ضرور بہت کچھ پایا بھی ہے ؛ مگر بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ لیکن ہم سائنسی ترقی سے مرعوب رہ کر اس کی وجہ سے کھوئی ہوئی چیزوں کو زیرِ بحث لانے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ آئیے ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔ ذیل میں کچھ ان نقصانات کا ذکر پیش خدمت ہے جس کا شکار ہم سائنس و ٹیکنالوجی ہی کے ہاتھوں ہوئے ہیں :
1) کیمرہ اور مائک کی ٹیکنالوجی سے بلیک میلرز کا لوگوں کے بلیک میلنگ پر مشتمل تصاویر ؛ ویڈیوز یا آڈیوز بنانا ؛ اغواکاروں یا دہشتگردوں کا لوگوں پر تشدد پر مبنی تصاویر ؛ ویڈیوز یا آڈیوز بنانا ؛ عصمت فروشوں کی طرف سے فحش تصاویر ؛ ویڈیوز یا آڈیوز بنانا ؛ ریپ کے تصاویر ؛ ویڈیوز یا آڈیوز بناکر اسے پھیلانے ؛ بار بار دیکھنے اور دکھانے کی صورت میں گویا متاثرہ فرد کا ہر بار نئے ویورز کے سامنے بار بار ریپ کر کے اسے ذہنی کرب میں مبتلا رکھنا ؛ اس سمیت لائیو براڈ کاسٹنگ کی ٹیکنالوجی کے ساتھ ڈارک ویب پر جرائم پیشہ افراد کی طرف سے تشدد ؛ ریپ اور قتل وغیرہ کے لائیو مناظر اس کے عادیوں کی تسکین کے لئے ان سے منہ مانگے دام لے کر انہیں دکھانا۔
کیمرے کے ذریعے کھینچی گئی کوئی گناہ پر مشتمل تصویر یا بنائی گئی گناہ پر مشتمل ویڈیو یا آڈیو میں کمال یہ ہے کہ یہ محفوظ رہتے ہیں۔ اس لئے نہ صرف ان سے انسان خود بار بار گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہے بلکہ دوسروں تک بھی انسان اسے جب چاہے پہنچاسکتا ہے۔
مزید یہ کہ اسلامی عقائد کے لحاظ سے مسلمان کے لئے گناہ پر مشتمل تصویر ؛ ویڈیو یا آڈیو بنانا یا آگے پہنچانا اس کے لئے گناہِ جاریا کا باعث بنتا ہے جو اس کی وفات کے بعد بھی جب تک وہ تصویر ؛ ویڈیو یا آڈیو دیکھا ؛ سنا یا فارورڈ کیا جاتا ہے ؛ اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جائے گا۔
اس کے علاوہ تصویر ؛ ویڈیو اور آڈیو معمولی قیمت اور کوشش پر جس کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو کے ہاتھوں لگ سکتے ہیں چاہے وہ بچہ ہو ؛ بوڑھا ہو ؛ جوان ہو؛ مرد ہو؛ عورت ہو۔ وغیرہ۔ جب کیمرہ نہیں ہوتا تھا تو براہ راست فحاشی سے لطف اندوز ہونے کا خرچہ صرف امراء ہی برداشت کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ دہشتگردوں کی طرف سے تشدد کے مناظر بھی عورتوں اور بچوں کو دکھا یا سنا کر انہیں ذہنی خوف میں مبتلا کرنا ممکن نہ تھا۔
2) ٹیلی فون ؛ موبائل فون ؛ وائر لیس یا انٹر نیٹ پر دیگر روابط کے ذرائع نے مرد اور عورتوں کے مابین خفیہ ناجائز تعلقات انتہائی آسان بنادئے ہیں۔ آج کل تو ان ذرائع سے صرف تحریری یا صوتی پیغامات ہی نہیں بلکہ تصاویر اور ویڈیوز کا بھی تبادلہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ذرائع جرائم پیشہ افراد کے مابین جرم بروقت ؛ کامیابی سے اور تعاون کے ساتھ سر انجام دینے کے لئے بھی تیز ترین اور بروقت رابطہ فراہم کرتے ہیں۔
3) انٹرنیٹ پر موجود سوشل میڈیا سروسز تخریب کاروں کے لئے کسی خاص ملک ؛ معاشرے یا ریاست کے خلاف بغاوت کا تحریک چلانے میں کافی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی سے ذاتی دشمنی کی بنا پر منفی پروپیگنڈا کر کے اس کی کردار کشی کرنے یا اسے ملک یا دین دشمن وغیرہ ظاہر کر کے آسانی سے اوروں کے ہاتھوں انتقام کا ذریعہ بنانے میں بھی یہ سروسز معاونت فراہم کرتے ہیں۔
4) انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات کے سمندر تک آسانی سے رسائی اور کمپیوٹر اور کیلکولیٹر کے ذریعے آسان حساب کتاب اور معلومات محفوظ رکھنے کی وجہ سے انسان ذہنی طور پر سست اور کاہل ہوچکا ہے ؛ اور وہ ذہن سے کام لینے کی بجائے ان ذرائع سے کام لیتا ہے جس کی بنا پر آج کے انسان کے ذہن کو وہ پریکٹیس حاصل نہ ہونے کی وجہ سے جو پچھلے ادوار کے انسان کی مجبوری تھی؛ آج کے انسان کا ذہن کھنڈر بن چکا ہے۔ پس آج کے انسان کے اس طفیلی (پیراسائٹِک ) یعنی دوسرے ذرائع پر پلنے والے ذہن میں وہ صلاحیت موجود نہیں ہے جو پرانے انسان کے ذہن یا حافظے میں پائی جاتی تھی۔
5) فضاء میں ان گنت ریڈیئشنز کی موجودگی کی وجہ سے انسان جسم میں پائے جانے والے الیکٹرک اور میگنیٹک فیلڈز کے تناسب میں بگھاڑ اور میوٹیشن یعنی جینز میں تبدیلیوں کی وجہ سے مختلف قسم کے ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار بن رہا ہے۔ اس صورتحال سے برابر کے متاثر جانور اور پودے بھی ہورہے ہیں۔
6) ہائیڈرو کاربن ایندھن یعنی پٹرول ؛ مٹی کا تیل ؛ قدرتی گیس وغیرہ کے جلنے سے ہوا میں زہریلی گیسوں کا تناسب بڑھنے کے ساتھ ساتھ کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے جس سے ایک طرف گرمی کی شدت اور دورانیہ میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف گلیشئیرز پگھل کر مائع پانی بن رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ وقت دور نہیں کہ دنیا کا خشک علاقہ بھی سمندروں کا حصہ بن جائے۔
7) نت نئے مصنوعی اشیاء متعارف کئے جارہے ہیں جو کہ بہرحال قدرتی اشیاء کی نسبت نقصان دہ ہوتے ہیں ؛ بالخصوص اشیائے خورد و نوش۔
8) ہر کام میں مشینوں کا زیادہ اور جسم کا کم استعمال کرنے والا ؛ گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں گیس یا بجلی کے ہیٹرز استعمال کرنے والا ؛ چراغوں کی بجائے برقی قمقمے استعمال کرنے والا ؛ ہاتھ کے پنکھوں کی بجائے بجلی کے پنکھے استعمال کرنے والا ؛ دور دراز سے یا کنویں سے کھینچ کر پانی کا بندوبست کرنے کی بجائے الیکٹرک موٹر استعمال کرنے والا ؛ دور دراز سے برف لانے کی بجائے فرج استعمال کرنے والا ؛ طبی اصولوں کا حد سے زیادہ خیال رکھنے والا ؛ بدن کو صاف کرنے کے لئے ٹیشوز اور ملائم صابن اور شیمپوز استعمال کرنے والا آج کا انسان پچھلے دور کے مہم جو انسان کی نسبت مشقت والے کام ؛ ناسازگار ماحولیاتی اثرات اور بیماریوں کے خلاف جسمانی قوتِ مدافعت میں بہت ہی پیچھے ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگر آج کے انسان کو اچانک پچھلے دور میں لے جایا جائے تو اس کی فوراً ہی موت واقع ہو۔
9) بہت سارے پیشہ ورانہ کام مشینوں سے لینے کی وجہ سے بے روز گاری میں اضافہ ہوا ہے۔
10) میڈیا جس کے ہاتھ میں ہو وہ جس کی جیسی چاہے برین واشنگ کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ منفی فلمے ؛ ڈرامے اور ویڈیوز منفی تربیت میں کافی کردار ادا کرتے ہیں۔
11) سب سے خطرناک نقصان سائنس و ٹیکنالوجی کا ڈیویلپڈ اسلحہ ہے۔ ایک اے کے 47 اٹھا کر یا ایک بم ہاتھ میں لئے ایک شخص درجنوں کو ؛ ایک میزائل فائر کرنے والا سینکڑوں اور ہزاروں کو ؛ جبکہ ایک ایٹم بم گرانے والا لاکھوں اور کروڑوں کو اور شائد ہائیڈروجن بم گرانے والا آدھی دنیا کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے اور اتارنے والے حملہ آور کے لئے افرادی یا جسمانی طاقت یا کسی خاص ہنر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کہ بٹن دبانے ہی کی تو بات ہے جو بچہ بھی دبا سکتا ہے۔ اس طرح کی لڑائی میں بوڑھا ؛ بچہ ؛ معذور ؛ عورت حتٰی کہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں اگر دیکھا جائے لڑائی جھگڑے بہت مشکل ہوتے تھے۔ ان میں حصہ لینے کے لئے افرادی قوت اور تیغ و تیر مارنے کی کافی مہارت درکار ہوتی تھی۔ اس کے باوجود بھی لمحہ بھر میں درجنوں مارنا ممکن نہیں تھا۔ شہری آبادیوں سے دور کوئی میدان چنا جاتا تھا جہاں مخالف افواج آمنے سامنے ہوتے۔ اس طرح کی لڑایئوں میں شہری آبادیوں کو نقصان ہی نہیں یا کم سے کم نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ اسی طرح مقامی جگھڑوں میں بھی ایک شخص کے لئے دوسرے یا دوسروں پر تلوار ؛ چاقو ؛ تیر یا نیزے سے حملہ اتنا آسان نہ تھا جو بندوق ؛ پستول یا بم نے بنایا ہے کہ کم وقت میں بنا خطرے کے زیادہ افراد مارنا جن میں کوئی حملہ آور سے جسمانی ؛ نفسیاتی اور ذہنی لحاظ سے ہزار ہا طاقتور ہی کیوں نہ ہو مارا جاسکتا ہے۔
12) انسانوں کا انسانوں سے زیادہ وقت مشینوں کی رفاقت میں گزرنے کی وجہ سے ہر انسان بھرے معاشرے میں تنہا ہونا شروع ہوگیا ہے اور نفسا نفسی بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسان دوسرے کے حالات و مسائل سے آگاہ نہیں ہوکر اس کی مدد نہیں کر پا رہا بلکہ ڈیپریشن میں بھی اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔
13) جو وقت انسان کا کبھی قدرتی مناظر کے باہوں میں صرف ہوا کرتا تھا ؛ فلمز ؛ ڈرامے ؛ موویز کی بہتات اور انہیں دیکھنے کی ایڈکشن کی وجہ سے آج کے انسان کی تفریح کا حس اِس طرف مڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی نشوو نما میں خرابی پیدا ہورہی ہے اور مطلوب تسکین ہاتھ نہیں آرہا۔
14) انٹرنیٹ نے چونکہ دنیا کو گلوبل ویلج بنایا ہوا ہے ؛ پس برائی کی توڑی سی خواہش بھی دل میں پیدا ہونے والا فرد جب انٹرنیٹ کے سامنے بیٹھ جاتا ہے تو اپنے ہم خیال کمپنیز تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس برائی میں مزید ڈوبتا چلا جاتا ہے۔
15) تصویر میں ایڈیٹنگ کے ساتھ ساتھ ویڈیوز اور آڈیوز میں بھی کمال ایڈیٹنگ کے طریقے متعارف ہونے کی وجہ سے جو جس کی چاہے فیک تصویر یا ویڈیو بناکر کردار کشی بھی کرسکتا ہے اور اس کے علاوہ کسی مقدس شخصیت کی تصویر یا ویڈیو میں بگھاڑ پیدا کرکے اس کی شان میں گستاخی بھی کرسکتا ہے۔
16) دشمن اقوام کی جانب سے نت نئے وائرس بنا اور پھیلا کر مخالف اقوام میں مہلک جینیاتی ؛ جسمانی اور ذہنی بیماریا پھیلائی جارہی ہیں۔
17) نقالی اور جعلسازی کمال حد تک ممکن ہوئی ہے۔
18) سواری کے لئے وہیکلز یعنی انجن والی گاڑیوں اور جہازوں وغیرہ کے استعمال سے ایک تو مسلسل فضائی اور صوتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف تیز رفتاری کی وجہ سے اور جہازوں کے لئے ساتھ میں بلندی کی وجہ سے بھی آئے روز جان لیوا حادثات رونما ہورہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں گھوڑے ؛ خچر وغیرہ کی سواریوں میں یہ مسائل نہیں پیش آتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ فائدہ بھی ہوتا تھا کہ انسان ان پر سواری کے دوران ایک کافی حد تک ایک مسلسل ورزش کا شکار رہتا تھا جس سے موٹاپا اور دیگر کئی ایک امراض سے بندہ محفوظ رہتا تھا۔ مزید یہ کہ وہیکلز جرائم پیشہ افراد کے لئے کم وقت میں جرم کر کے ملکوں ملکوں فرار ہونے کی معاونت بھی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جہاز گولہ باری کے مقاصد کے لئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں جس سے کم وقت میں بستیوں کی بستیاں مٹائی جاسکتی ہیں۔
اگر ان نقصانات پر غیر جانبداری سے اور ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو بحیثیتِ مجموعی سائنس و ٹیکنالوجی کے نقصانات اتنے بڑے اور بھیانک ہیں کہ اس کے فوائد ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں اور انسان اس کے نقصانات سے پچنے کی خاطر اس کے فوائد سے بھی ہاتھ دھونے پر کچھ لمحے کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے۔ پس میری رائے میں یہ ترقی نہ ہی ہوتی تو بہتر ہوتا۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...