جب کبھی بھی ’’مظاہرِ فطرت اورقران‘‘ سے متعلق کوئی پوسٹ لگائی، دیسی ملحدین سے وہی پرانا غیر منطقی جملہ بار بار سننے کو ملا جس کا نہ کوئی سر ہے نہ کوئی پیر اور نہ کوئی ثبوت۔ فقط ایک نعرہ ہے۔
’’سائنس تو بدل جاتی ہے، کیا کل تم اپنا دین بھی بدل دوگے؟‘‘
سائنس نہیں بدلتی بھائی! براہِ کرم، اپنی معلومات کی اصلاح فرماویں۔ سائنس کے بارے میں ہمارے ڈاکِنِسٹس اور سوکالڈ سیکولر دوستوں کا یہ خیال کہ سائنس متغیر ہے درست نہیں۔ سائنس نام ہے مظاہرِ فطرت کا اور مظاہرِ فطرت اپنے قوانین کے پابند رہتے ہیں، یہ بات قران نے بھی بتائی تھی صدیوں پہلے، لاتبدیلَ لِسُنّۃِ اللہ (اللہ کی عادت یعنی قوانینِ فطرت نہیں بدلتے)۔
فلہذا سائنس کے بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بدلتاہے تو فقط انسان کا فہم ِ منطقی بدلتاہے۔ انسان کا اپنا، کسی بات کو سمجھنے کا لیول بدلتاہے، استعداد بدلتی ہے۔ انسان کا بدن حیوانی ہے۔ اس کا دماغ ارتقأ کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔ انسان کا فہم ِ منطقی کسی زمانے میں زمین کا گول ہونا بھی قبول نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اکثر جب دوست بڑے بھولپن سے یہ لکھ دیتے ہیں کہ ’’سائنس متغیر ہے‘‘ تو حیرت ہوتی ہے۔ سائنس کے اصول ہمیشہ ’’دریافت‘‘ ہوتے ہیں، سو جو چیز دریافت ہوتی ہے وہ تو پہلے سے موجود تھی، ورنہ دریافت ہی کیسے ہوتی؟ پس سائنس نہیں بدلتی۔ ہمارا سمجھنے کا، لیول بدل جاتاہے۔
سرسید احمد خان کا ایک منطقی مقدمہ ہے،
یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا فعل ہے
قرانِ پاک اللہ تعالیٰ کا قول ہے
چونکہ اللہ تعالیٰ کے قول و فعل میں تضاد ممکن نہیں
اس لیے اِس کائنات اور قران میں تضاد ممکن نہیں
غالباً قران نے اِسی وجہ سے کائنات میں موجود اللہ کی نشانیوں کے لیے بھی آیات کا لفظ استعمال کیا ہے بالفاظ ِ دگر یہ کائنات قران ہی ہے کیونکہ اس میں موجود ہر ایک شئے اللہ کی آیت ہے۔ دوسری طرف قران نے دفتین میں لکھے ہوئے بیان کو بھی آیات کہا ہے۔ گویا قران کی آیات اور کائنات کی آیات ایک ہی شئے کے دونام ہیں۔ اسلیے یہ کہنا کہ قران اور سائنس میں تضاد ہے سراسر نامناسب بات ہے۔
چنانچہ بدلتا ہے تو فقط ہمارا فہم، جو ہمیشہ ناقص سے کامل کی طرف محوِ سفر رہتاہے۔ اب اس سارے منظر کو یوں سمجھیں،
ایک طرف ایک کتاب ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ کائنات کے بنانے والے کا کلام ہے اور یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ کائنات کے بنانے والے کے کلام میں کائنات کے بارے میں جو علم بیان کیا گیا ہے وہی روزِ اوّل تا روزِ آخر سچا ثابت ہوگا کیونکہ وہ اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جو اس ساری کائنات بلکہ عالمین کی چونکہ خود خالق ہے اس لیے اس کے ہر چھوٹے بڑے راز سے واقف ہے۔ پس اگر ایسی ہستی کائنات کے بارے میں کچھ بتائے گی تو وہ اصل اور بنیادی بات ہوگی۔ عین ممکن ہے سائنس وہاں تک پہنچنے میں کچھ وقت لگادے۔ کچھ تاخیر سے پہنچے۔ جیسا کہ سائنس نے ہمیشہ کیا۔
قران بیچارہ صدیوں سے یہ کہتا آرہا تھا کہ کُل کائنات وقت کے ایک نہایت ہی مختصر لمحے میں وجود میں آئی ہے، ساری کی ساری۔ لیکن سائنس تھی کہ قران کی اِس بات کا مذاق اُڑایا کرتی تھی۔ یہ ابھی کل کی بات ہے۔ تب بھی پاکستان میں ایسے لوگ موجود تھے، جن کو ’’کُن‘‘ سے کائنات کے بننے کا مذاق اُڑاتے ہوئے میں نے دیکھا اور پڑھا۔ بلکہ لڑکپن میں پرویز صاحب کے تتبع میں مَیں نے خود کئی بار ’’کُن‘‘ کا مذاق اُڑایا ۔ پرویز صاحب فرمایا کرتے تھے، کُن کا مطلب ہے ’’ہوجا!‘‘ اور فیکون کا مطلب، ’’ہونا شروع ہوگئی‘‘۔ اس کے برعکس قران کا عام فہم کہنا یہ تھا کہ اللہ نے کہا ’’کُن‘‘ یعنی ہوجا!۔۔۔۔۔۔۔۔ تو فیکون، یعنی وہ اُسی وقت ہوگئی۔
آج سائنس ’ ’انفلیشن تھیوری‘‘ نہ صرف پیش کرچکی ہے بلکہ اس کے ثبوت تک حاصل کرچکی ہے، گویا ’’کُن‘‘ کہنے سے بھی بہت کم، بہت ہی کم وقت، یعنی ایک سیکنڈ کے دس کی طاقت مائنس بتیس سے بھی مختصر وقفہ میں یہ ساری کی ساری کائنات انفلیٹ ہوکر وجود میں آگئی اور سارے کا سارا موجودہ مادہ وجود میں آگیا۔
قران بیچارہ کہتا رہا ستاروں کا محل ِ وقوع مخصوص ہے۔ سائنس نے صدیوں تک مان کر نہ دیا۔ قران کہتا رہا سمندر میں دریا بہتے ہیں۔ سائنس نے مان کر نہ دیا۔ قران کہتا رہا فاسلز بھی بن جاؤ تب بھی دوبارہ اُٹھا دیے جاؤگے یعنی کُونُوا حجاراً او حدیدا (پتھر بن جاؤ یا لوہا)، سائنس نے مان کر نہ دیا۔ قران نے اب بھی ایسے کئی دعوے قبل از وقت پیش کررکھے ہیں۔ قران آج بھی کہہ رہا ہے کہ وانا حملنا ذریتہم فی الفلک المشحون وخلقنا لھم من مثلہ مایرکبون۔ مفہوم: اللہ نے انسانوں کی نسل کو ایک تیرتی ہوئی کشتی یعنی سیارہ زمین پر سوار کرایا اور اس جیسی اور بھی کشتیاں بنائیں جن پر اِن کی نسل کے لوگوں کو سوار کروایا۔ تو دوستو! کون ہمیشہ آگے رہا؟ قران یا سائنس؟
آج سائنس کو تسلیم ہے کہ ساری کائنات ، کُن سے بھی کم وقفے میں پیدا ہوئی، یعنی قران نے جو کہا تھا سائنس نے اُسے تسلیم کرنے میں لگ بھگ پندرہ صدیاں لگا دیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس طرح کی مثالیں سائنس کی ہر تھیوری کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔ اور اگر کسی تھیوری کے ساتھ مذہب کو اختلاف ہے تو محض اس لیے کہ سائنس ابھی اُس مقام تک نہیں پہنچی اور ابھی سائنس نے مطلوبہ صدیاں نہیں گزاریں۔ مذہب کبھی سائنس کے آگے نہیں جھکا۔ ہمیشہ سائنس ہی مذہب کے آگے جھکی ہے۔ جب تک سائنس یہ کہتی رہی کہ یہ کائنات قدیم ہے، مذہب مخالفت کرتارہا۔ ہمارے ملحدین دوست اس سوال کا جواب کیوں نہیں دے پاتے کہ انیس سو پانچ سے پہلے تو کبھی کسی مذہبی نے یہ نہ کہا تھا کہ سائنس کی، ’’کائنات کے قدیم ہونے والی تھیوری‘‘ مذہب نے اتنی صدیاں پہلے پیش کردی تھی۔ مذہبی لوگوں نے انیس سو پانچ کے بعد ہی کیوں کہا، کہ سائنس نے جو نظریہ اب پیش کیا ہے یہ مذہب نے چودہ صدیاں پہلے پیش کیا تھا؟ کیونکہ اب آکر سائنس نے بھی تسلیم کرلیا کہ مذہب کی بات درست تھی۔
یہی حال ٹائم ٹریول کے معاملے میں پیش آنے والا ہے۔ یہی حال جنت ِ ارضی کے قیام کے سلسلے میں پیش آنے والا ہے۔ یہ کائنات دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں کے لیے ایسی ہوجائے گی کہ ہرطرف سرسبزوشاداب باغات ہونگے، موت فنا کردی جائے گی، کوئی بیماری نہ ہوگی، کوئی کچہری نہ ہوگی، کوئی تھانہ نہ ہوگا، کوئی بازار نہ ہوگا، کوئی کاروبار نہ ہوگا،، کوئی انسان ذاتی ملکیت کا لالچی نہ ہوگا، کوئی لغو بات نہ ہوگی، کوئی جھوٹ نہ ہوگا۔ کوئی خوف نہ ہوگا، کوئی حزن نہ ہوگا، کوئی انسان دوسرے انسان کا دشمن نہ ہوگا، پھلوں کی بے شمار نسلیں پیدا ہوجائینگی، پرندوں کی بے شمار نسلیں پیدا کردی جائینگی، دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی، سینکڑوں سیّارے گرفتار کرکے آباد کردیے جائینگے، وسائل، آبادی سے ہزار ہا گنا بڑھ جائینگے، کھانے کو سب کچھ نہایت وافر ہوگا لیکن کھانے والے کم پڑجائینگے کیونکہ سیاروں کے سیّارے انواع و اقسام کے باغات میں بدل چکے ہیں۔ کوئی کبھی نہ مرے گا، انسان کی بصارت تیز ہوجائے گی، سماعت تیز ہوجائےگی، تمام قویٰ اب سے زیادہ تیز ہوجائیں گے، مُردوں کو قبروں سے اُٹھا دیا جائے گا اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی دے دی جائے گی۔ ان کی یاداشتیں تک ان کو لوٹا دی جائینگی اور انہیں لگے گا کہ وہ تو ایک دن یا زیادہ سے زیادہ دو دن تک سوئے رہے۔
سائنس اپنے ہاتھوں سے سارے اہتمام کرتی چلی جائیگی اور روتی، پیٹتی، مانتی چلی جائے گی کہ نہ کرتے نہ کرتے، ہو تو سب کچھ وہی گیا جو مذہب کہتا تھا۔ ہمارے ڈاکنسٹس اِس غلط فہمی کا جلد سے جلد ازالہ کریں کہ سائنس نہیں بدلتی، آپ کا فہمِ منطقی بدل جاتاہے۔ سائنس متغیر نہیں۔ آپ کا فہم متغیر ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“