سائنس محض علم نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے۔ یہ سوچنے کا وہ انداز ہے جو آپ کو چیزوں کی حقیقت کی طرف لیکر جاتا ہے۔ کائنات کیسی ہے؟ کائنات کے اُصول کیا ہیں ؟ زندگی کیا ہے؟ زندگی کے اُصول کیا ہیں؟ یہ سب ہمیں سائنسی طرزِ فکر سے سمجھ میں آتے ہیں۔
سائنس کی بنیاد حقائق اور منطق پر استوار ہے۔ سائنس میں محض تجربات اور مشاہدات سے سب نتائج اخذ نہیں ہوتے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ریاضی کے اُصول اور ماڈلز بھی استعمال ہوتے ہیں؟ کیا ہم ستاروں پر تھرمامیٹر لے جا کر یا فیتے لے جا کر اُنکا درجہ حرارت یا فاصلہ ماپ سکتے ہیں؟ نہیں۔
تو پھر ہم کیسے اِنکا فاصلہ یا درجہ حرارت جان پاتے ہیں؟
کیونکہ ہم جانتے ہیں زمین پر کسی گرم شے سے نکلنے والی روشنی کے رنگ اُسکے درجہ حرارت سے منسلک ہیں۔ لوہا سخت گرم ہو تو دہکتے ہوئے انگارے کا رنگ دیتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی گرم شے سے ایک خاص رنگ کی روشنی تب ہی پیدا ہوتی ہے جب وہ ایک خاص درجہ حرارت تک پہنچ جائے۔ تو کیا دور ستاروں سے آنے والی روشنی کے رنگوں کو جان کر ہم نہیں بتا سکتے کہ وہاں درجہ حرارت کیا ہو گا؟
ایسے ہی جب ہم اپنی دائیں آنکھ بند کر بائیں آنکھ سے سامنے پڑی کسی شے کو دیکھتے ہیں اور پھر یہی عمل بائیں آنکھ بند کر کے دائیں آنکھ سے دہراتے ہیں تو دونوں دفعہ سامنے رکھی شے کی پوزیشن تبدیل ہو جاتی ہے۔ اب اس پوزیشن کے فرق سے ٹریگنومیٹری کے سادہ اُصولوں سے سامنے پڑی شے کا فاصلہ اسے بنا چھوئے ہی بتا سکتے ہیں۔ اسے Parallax کہتے ہیں۔ تو کیا عقل استعمال کرتے ہوئے اسی طریقے سے ہم سے ہزاروں نوری سال دور کے ستاروں کا فاصلہ معلوم نہیں کیا جا سکتا یا ہمیں خود چل کر وہاں جانا ہو گا؟
دراصل یہ وہ سائنسی طریقے ہیں جو سائنسی سوچ سے آتے ہیں کہ کیسے کسی مسئلے کا حل نکالنا ہے جو بالکل صحیح ہو۔
ایسے ہی ماضی میں زمین پر یا نظامِ شمسی میں یا کائنات میں کیا ہوا تھا۔ یہ جب سائنس بتاتی ہے تو جنکو سائنس کی سمجھ نہیں وہ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ “کیا آپ وہاں خود کھڑے ہو کر دیکھ رہے تھے؟” کیونکہ اّنکو دراصل علم نہیں یا اُنکا محدود علم اس بات کا احاطہ نہیں کر سکتا کہ ماضی سے ملے فوسلز، پتھروں، شواہد اور طبیعیات، حیاتیات اور کیمیا کی تھیوریز پر بنے کمپیوٹر ماڈلز ہمیں ڈیٹا کی مدد سے ماضی میں لے جا سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہوا۔ کیا کسی کُھدائی کے دوران دریافت ہونے والے شہر کے آثار سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں شہر آباد تھا؟ کیا ہمیں خود ٹائم مشین لے جا کر وہاں جانا ہو گا اور تصاویر کھینچنی ہونگی کہ جی وہاں شہر تھا۔ نہیں!! یہاں بھی وہی اُصول استعمال ہونگے۔ کامن سینس اور منطق۔۔
لہذا یہ نہایت ضروری ہے کہ کسی سائنسی دریافت یا ایجاد کو رد کرنے یا اس پر سوال کرنے سے پہلے آپ یہ اچھی طرح دیکھ لیں کہ آیا آپکو سائنسی طریقہ کار کا علم ہے یا نہیں۔
اگر نہیں تو آپ سوال کر کے پوچھ سکتے ہیں مگر یہ کہہ کر رد کر دینا کہ آپکا محدود علم اسکا احاطہ نہیں کر پا رہا ، علمی بددیانتی اور آپکے علم سیکھنے کی راہ میں رکاوٹ ہو گی۔
لہذا سائنس سیکھیں اور ساتھ ساتھ سائنسی طرزِ فکر بھی کیونکہ ایک کے بغیر دوسری نا مکمل ہے۔ شکریہ
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...