پیریاڈک ٹیبل میں عناصر کی ترتیب اُنکے مرکزے میں موجود پروٹانز کی تعداد کے حساب سے ترتیب دی گئی ہے۔ پہلا نمبر آتا ہے ہائیڈروجن کا۔۔جسکے مرکزے میں ہے ایک پروٹان سو اسکا ایٹامک نمبر ہوا 1. دوسرا نمبر یے ہیلیئم کا۔ اسکے مرکزے میں ہیں دو پروٹان سو یہ ایٹامک نمبر دو کیساتھ پیراڈیک ٹیبل میں دوسری پوزیشن پر براجمان ہے۔ ایسے ہی دیگر عناصر اپنے ایٹامک نمبر کی مناسبت سے پہراڈیک ٹیبل میں اپنی اپنی جگہ ترتیب سے ہیں۔
کائنات میں پہلا ایٹم یا عنصر ہائیڈروجن کا تھا۔ بگ بینگ کے 3 لاکھ 80 ہزار سال بعد کائنات کا درجہ حرارت قدرے کم ہوا تودر در پھرتے الیکٹرانز کو موقع ملا کہ پروٹانز کے ساتھ مل کر ایٹم بنائیں۔ یوں کائنات کا پہلا عنصر یعنی ہائڈروجن بنا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کائنات میں دیگر عناصر جیسے کہ لوہا، آکسیجن ،کاربن، یورینیم وغیرہ کہاں سے آئے؟
اسکا جواب ہے ستاروں سے۔ ستارے دراصل عناصر بنانے کی بھٹیاں ہیں۔ ستارے کائنات میں کھربوں کی تعداد میں ہیں۔ ایک ستارہ کیسے بنتا ہے؟ ستاروں کے بننے کا عمل 10 لاکھ سال سے زائد ہے۔ ستارے ہائیڈروجن گیس سے بنتے ہیں۔ ہائڈروجن گیس کائنات میں سب سے زیادہ ہے۔ لاکھوں سالوں تک ہائیڈروجن گیس گریویٹی کے زیرِ اثر ایک جگہ اکٹھی ہوتی ہے۔ اب اندازہ کیجئے کہ سورج کے ماس جتنی ہائڈروجن گیس یعنی زمین سے 3 لاکھ 33 ہزار گنا بھاری گیس ایک جگہ اکٹھی ہو جائے تو کیا ہو گا؟ آپ نے کبھی بھرا گیس کا سیلنڈر اور خالی سلینڈر اُٹھایا ہے؟ اگر ہاں تو آپ جانتے ہونگے کہ گیس اگر ایک ہی جگہ اتنی زیادہ ہو تو کتنی بھاری ہوتی ہے۔
سو اس قدر گیس ایک جگہ جب اکٹھی ہو تو یہ گریوٹی کے دباؤ کی زیرِ اثر اس قدر شدید درجہ حرارت تک پہنچ جاتی ہے کہ ہائیڈروجن کے ایٹم ایک دوسرے میں ضم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کو فیوژن کہتے ہیں۔ فیوژن ایک ایٹمی عمل ہے جس سے دو ہائڈروجن کے ایٹم ضم ہو کر ایک ہیلیم کا ایٹم بناتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ مادہ تابکاری، روشنی اور حرارت کی صورت باہر نکلتا ہے۔ یوں ایک ستارے کی پیدائش ہوتی ہے۔
سورج بھی ایک ستارہ ہے جسکی عمر قریب 4.6 ارب سال ہے اور یہ مزید کچھ ارب سال بعد ٹھنڈا ہو جائے گا۔ خیر فیوژن سے ہلکے عناصر بھاری عناصر میں تبدیل ہوتے ہیں۔ ستارے اپنی عمر کے مختلف حصوں میں ہلکے عناصر سے بھاری عناصر بناتے ہیں۔ پھر کچھ ستارے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کے پھٹنے سے بھی کچھ بھاری عناصر بنتے ہیں۔ جب ستارے پھٹتے ہیں تو اپنا سارا مواد کائنات کو واپس کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مواد بعد میں سیاروں اور سیارچوں یا مزید ستاروں کے بننے کے کام آتا ہے۔ آپ میں، مجھ میں اور اس زمین پر تمام اشیا میں موجود عناصر دراصل ماضی میں ایسے ہی ان گنت ستاروں میں بنیں ہونگے۔ آپکے دائیں ہاتھ کے ایٹم اور بائیں ہاتھ کے ایٹم ممکن ہے دو مختلف ستاروں میں بنیں ہوں۔ اور یہ ماضی ستارے آپس میں کئی نوری سالوں کے فاصلے پر ہوں۔
خیر مگر بہت سے عناصر ایسے ہیں جو انسانوں نے لیبارٹروں میں بنائے کیونکہ یہ ستاروں میں نہیں بن سکتے تھے اور نہ ہی یہ قدرت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ پیراڈیک ٹیبل میں 95 ایٹامک نمبر سے 118 تک ہیں۔ یعنی یہ وہ عناصر ہیں جن کے مرکزے میں 95 سے زیادہ پروٹانز پائے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا امیریکم ہے جسکا ایٹامک نمبر 95 ہے۔ اسے 1944 میں شکاگو یونیورسٹی کی ایک لیب میں بنایا گیا۔ جبکہ اناانوں ک ابنایا آخری عنصر اوگانیسن ہے جسے 2006 میںروسی اور امریکی سائنسدانوں نے ملکر بنایا۔ یہ ایک گیس ہے۔
بھاری عناصر بہت جلد ڈیکے ہو جاتے ہیں یعنی یہ دو یا دو سے زائد ہلکے عناصر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کسی پتھر یا لکڑی یا کسی بھی شے میں موجود بھاری عناصر کی تعداد ڈیکے کے ذریعے کم ہوتی جاتی ہے۔ یورینیم کے ایٹم ڈیکے کے ذریعے دوسرے عناصر کے ایٹموں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ کسی چٹان یا پتھر میں یورینیم کے ایٹم کی تعداد چٹان کے بنتے وقت کے یورینیم کے ایٹموں کی تعداد سے کم ہو گی۔ جتنے وقت میں یورینیم کے ایٹم ڈیکے ہو کر تعداد میں آدھے رہ جاتے ہیں اسے یورینیم کی ہاف لائف کہا جاتا ہے۔ 4.6 ارب سالوں میں کسی شے میں موجود یورینیئم کے ایٹم آدھے رہ جاتے ہیں۔ گویا یورینیم کی ہاف لائف ہے 4.6 ارب سال۔
زمین کی عمر کا اندازہ بھی یورینیئم کے ایٹموں کی زمین پر گرنے والے شہابیوں، اور چاند سے لائے گئے ٹکڑوں میں یورینیم کے ایٹموں کی تعداد سے ماپی گئی ہے۔ سو وہ جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ کیا سائنسدان ماضی میں دیکھ کر آئے ہیں کہ زمین کتنی پرانی ہے اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سائنس میں اسی طرح کے ریڈیومیٹرک ڈیٹینگ کے طریقے کئی دہائیوں سےوضع ہیں جن سے ماضی کے متعلق معلوم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی تاریخ سے متعلق معلومات میں بھی کھدائی کے دوران ملنے والی انسانی ہڈیوں یا دیگر اشیا کی عمر کا تعین اسی طرح کے سائنسی طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے عمریں گزاری ہیں اس علم میں۔ سائنس میں ہر شے کے پیچھے ایک منطق ایک طریقہ ہوتا ہے۔ وہ جنہیں سائنسی طریقوں پر اعتراض ہے وہ پہلے سائنس کو سنجیدگی سے پڑھیں، پھر آئیں اور تنقید کریں، اچھے بھی لگیں گے۔ ورنہ اّنکی تنقید کو کوئی بھی سائنس سمجھنے والا بالکل سنجیدہ نہیں سمجھے گا۔ چہ جا کہ جواب دے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...