کارل پوپر نے سوال اٹھایا تھا کہ سائنس کیا ہے؟ سائنس اور سوڈوسائنس کی تفریق میں لکیر کہاں کھینچی جائے؟ انہوں نے اس کا ایک پہلا جواب دینے کی کوشش کی تھی جس کے مطابق کوئی ایک ایویڈنس کسی ہاپئوتھیسس یا تھیوری کو رد کرنے کی لئے کافی ہے۔ پوپر کا اپنا خیال ناکافی ہے۔ اصل سائنس پر یہ سادہ جواب کام نہیں کرتا۔ سائنس کا فلسفہ اس سے آگے اور زیادہ نفیس طریقوں کی طرف بڑھ چکا ہے۔ (کچھ تفصیل آخر میں دئے گئے لنک سے)۔
ہمارے پاس سائنس اور غیرسائنس کو الگ کرنے کا سادہ جواب اس لئے نہیں کہ یہ مسئلہ سادہ نہیں۔ سائنس کی تاریخ، نرم اور سخت سائنس، نیم سائنس اور سوڈوسائنس کا تجزیہ، دانشوروں یا ماہرین کا تجزیہ یہ سب اپنی جگہ۔ سوال یہ کہ اس سے سائنس کی تصویر کیا ابھرتی ہے؟ اور ایک آزاد معاشرے میں یہ تصویر ہمیں زیادہ باخبر شہری رکھنے میں کیسے مدد کر سکتی ہے؟
یہ تو واضح ہو چکا ہو گا کہ سائنس ایک قسم کی ایکٹیوٹی نہیں ہے۔ اس کو کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اس کا انحصار زیرِ مطالعہ مضمون کی پیچیدگی سے ہے (پارٹیکل فزکس بمقابلہ نیوروبائیولوجی) یا اس سے ہے کہ سسٹم کا اپنا تعلق ہسٹری سے کتنا ہے (کیمسٹری بمقابلہ آسٹرونومی)۔ جتنا سادہ آبجیکٹ ہو گا، اتنے زیادہ پریسائز جوابات ہوں گے۔ جتنا پیچیدہ ہو گا، اتنی زیادہ شماریاتی اپروکسیمیشن پر انحصار کرنا ہو گا۔ اس کا تعلق اس بات سے نہیں کہ کس شعبے میں سائنسدان زیادہ قابل ہیں یا کس کے پاس طریقہ بہتر ہے بلکہ اس سے ہے کہ ہمارے تصوراتی اوزار اور پیمائشی آلات ہماری کتنی مدد کر سکتے ہیں۔
سخت اور نرم سائنس کا ایک سپیکٹرم ہے، جو یہ نہیں بتاتا کہ سائنس کتنی “اچھی” ہے بلکہ یہ کہ زیرِمطالعہ موضوع کی اپنی نیچر کیا ہے۔ لیکن ہر قسم کی سائنسی انکوائری میں مشترک چیز ایسی تھیوری اور ہائپوتھیسس کی تعمیر ہے جس کی تصدیق ایمپیریکل طریقے سے کی جا سکے۔ تین عناصر ہیں جو سائنس کو دیگر انسانی ایکٹیوٹی سے جدا کرتے ہیں۔ نیچرل ازم، تھیوری اور ایمپریسزم۔ سائنس کا تعلق نیچرل فینامینا اور پراسس سے ہے۔ اس کی اپنی تعریف کے مطابق اس کا سپرنیچرل ازم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ سپرنیچرل کی موجودگی یا عدم موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش سائنسی نہیں ہے کیونکہ سائنس کے ذریعے یہ ممکن ہی نہیں۔ اس بارے میں کسی بھی رائے کا تعلق سائنس سے نہیں، خواہ ایسا کام سائنسدان ہی کیوں نہ کریں۔ “نیچرل عوامل کی وجہ نیچرل ہے”۔ یہ فقرہ سائنس کی مرکزی بنیاد ہے۔ (اور یہ وجہ ہے کہ کری ایشن ازم کا خیال اصولی طور پر بھی سائنس نہیں ہو سکتا)۔
باربط تصوراتی کنسٹرکٹ سائنس کا لازمی جزو ہیں۔ ان کو ہم تھیوری یا ہائپوتھیسس کہتے ہیں۔ سائنس دنیا کے بارے میں فیکٹ اکٹھا کرنے کا ذخیرہ نہیں ہے۔ نہ ہی فیکٹ اکٹھے کرنے سے سائنسی تھیوری نمودار ہو جاتی ہے۔ (یہ فرانسس بیکن کا خیال تھا)۔ تھیوری انسانی ذہن کی تخلیقی صلاحیت کا نتیجہ ہیں۔ اس دنیا کی تُک بنانے کی ہماری بہترین کوشش ہے۔
لیکن صرف تھیوری کافی نہیں، ورنہ سائنس اور فلسفے میں فرق نہ ہوتا۔ سائنسی تحقیق کی مثلث کو مکمل کرنے میں ایمپریکل انفارمیشن کا کلیدی کردار ہے۔ شواہد جو تجربات سے بھی آ سکتے ہیں۔ طریقے سے کئے گئے مشاہدات سے بھی۔
کسی طریقے سے تصدیق یا تردید کئے جانے کی اہلیت سائنس کو غیرسائنس سے جدا کرتی ہے۔ اور اس وجہ سے سٹرنگ تھیوری، ارتقائی نفسیات جیسے شعبے سائنس کا باقاعدہ حصہ اس وقت تک نہیں کہلا سکتے جب تک کوئی معقول طریقہ نہ ہو جس سے ان کی تھیوریوں کا مقابلہ ڈیٹا سے کیا جا سکے۔
ظاہر ہے کہ بہت سی انسانی سرگرمیاں سائنس نہیں۔ نیچر میں موجود ہر چیز بھی سائنس نہیں۔ مثلاً، ذوق بھی نیچر کا حصہ ہے کیونکہ انسانی کلچر بھی کوئی مافوق الفطرت شے نہیں۔ آرٹ میں پسند یا ناپسند پر ایمپریکل سروے بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب تک ذوق پر تحقیق کے پیچھے ایک مجموعی تصوراتی سٹرکچر (تھیوری) نہ ہو جس سے ٹیسٹ کئے جانے کے قابل خاص ہائپوتھیسس پیدا نہ کئے جا سکیں، یہ سائنس نہیں ہو گی۔
اور سوڈوسائنس؟ اس کی کیا تصویر ابھرتی ہے؟ کوئی بھی ایسا فیلڈ جس میں یہ تینوں عناصر نہ ہوں، لیکن سائنس کہلانے پر اصرار کرے، سوڈوسائنس ہو گا۔ مثال کے طور پر، ہم نے سائنس کی تعریف میں دیکھ لیا کہ کری ایشنزم کے ساتھ مسئلہ نیچرل ازم کا ہے۔ علمِ نجوم میں کوئی ابتدائی سی تھیوری تو موجود ہے اور سپرنیچرل پر انحصار نہیں لیکن اس کی تھیوری انتہائی ناقص ہے (مثلاً، چاند، ستاروں اور سیاروں کے اثرات میں ان کی اپنی ہئیت کے اعتبار سے کوئی ربط نہیں) اور جب ڈیٹا کے ساتھ ایمپیریکل ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو مسلسل ناکام رہتی ہے۔
کئی بار ابتدا میں اچھی لگنے والی سائنسی انکوائری بھی سوڈوسائنس کی تاریکی میں جا سکتی ہے جب اس میں ایمپریکل ٹیسٹ کرنے سے انکار کر دیا جائے۔ اس کی مثال سرد فیوژن ہے۔
کئی شعبوں میں تفریق تو بالکل واضح ہیں لیکن سائنس، غیرسائنس اور سوڈوسائنس کے بیچ لکیریں اتنی واضح نہیں جتنا کہ کئی سائنسدان سمجھتے ہیں۔ کوئی ایسا تھرمامیٹر نہیں جس کی مدد سے اچھی اور بری سائنس میں فوراً فرق سامنے آ جائے۔ کئی فیکٹر ہیں اور ان کا وقت کے ساتھ اپنا بدلتا کردار ہے۔ کئی بار معزز شعبے سوڈوسائنس کی خاصیت اپنانے لگتے ہیں جبکہ کبھی سائنس کے کناروں پر پائے جانے والا شعبہ ابھر کر اچھی اور میچور سائنس میں آ جاتا ہے۔ مثلاً، آج سے صرف پندرہ برس پہلے کوانٹم بائیولوجی “مشکوک” سمجھا جانے والا علاقہ تھا۔ اب یہ مین سٹریم سائنس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور نتیجہ جو اب تک واضح ہو چکا ہو گا، وہ یہ کہ سائنس، خواہ وہ اچھی سائنس ہی ہو، Truth کی گارنٹی نہیں۔
ہم اپنے بڑے اور گہرے ترین سوالات کے جوابات کے لئے سائنس سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں (یہ ایک آدھ سوال نہیں، بہت سے ہیں)، تاہم غیرسائنسدانوں کی طرح ہی زیادہ تر سائنسدان بھی عام طور پر seeker نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ ہماری طرح ہی، ان سوالات کو ٹھیک طرح سے سمجھتے بھی نہیں۔ بلکہ کئی اپنے موضوع پر تنگ فوکس کی وجہ سے اپنے خاص شعبے کی حدود اور مسائل کو بھی ٹھیک طرح سے نہیں جانتے۔ فزسسٹ لی سمولن کا اس متعلق کہنا ہے (موقع ملا، تو اس کی تفصیل پھر کبھی)۔
Those scientists who work on the foundations of any given field are fully aware that the building blocks are never as solid as their colleagues tend to believe.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس پیچیدہ معاشرتی سرگرمی ہے۔ اس کو کرنے والے محدود انسان ہیں۔ یہ ایک زمانے، ایک معاشرے اور ایک تناظر کا حصہ ہیں۔ ان پر اپنے دور، اپنی جگہ اور کلچر کے اثرات ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جو دماغ ہے، اس کا اصل کام روزمرہ زندگی کے مسائل حل کرنا ہے، نہ کہ منطقی انداز میں اور غیرجانبداری سے اشیا کی نیچر کے بارے میں آفاقی سوالات کا پیچھا کرنا۔
کچھ سائنسدان ایسے ہیں جو غیرسائنسدانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اپنے شعبے کا ہر قیمت پر دفاع کرتے ہوئے، دوسرے شعبوں کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس رویے میں بھی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ دکھاتا ہے کہ سائنسدان انسان ہی ہیں اور لغزشوں کا مجموعہ ہیں۔ اپنے علم پر اور اپنے گروہ پر غرور بھی تو ایک انسانی صفت ہی ہے۔
اور یہاں پر سائنس کی نیچر کے بارے میں سٹڈی کرنے کی ہماری اپنی حد بھی آ جاتی ہے۔
ہمارے پاس اچھے اوزار ہیں (بے عیب نہیں) جن سے ہم بری سائنس یا سوڈوسائنس کو پہچان سکتے ہیں۔ مضبوط سائنس کی بڑی حد تک اچھی شناخت کر سکتے ہیں۔ جہاں پر انفرادی سائنسی بیانات کا تعلق ہے یا پھر ایسے تنازعات کا تعلق ہے جو جذبات کے میدان میں داخل ہو جاتے ہیں (مثلاً، ماحولیات سے متعلق) تو پھر یہ حل آسان نہیں رہتے۔ صرف یہ کہ ہمارے اچھے اوزار مدد ضرور کر دیتے ہیں۔
آخر میں، ہمارے پاس کوئی شارٹ کٹ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس دنیا سے آگاہی کا بہت اہم علم ہے۔ لیکن کسی اچھی بھرپور زندگی میں تو اور بھی بہت کچھ ہے۔ ہم چاہیں تو “کھایا پیا اور مر گئے” والی زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن ہماری سب سے منفرد اور شاید سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ ہم اس پر اکتفا نہیں کرتے۔ اس سے بڑھ کر بھی کچھ چاہتے ہیں۔ دوسری طرف، تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ اخلاقیات اور علم کی عدم موجودگی میں ہماری یہی خوبی ہماری سب سے بڑی خامی بن سکتی ہے۔
مسائل کا ادراک اور ان کو حل کرنے کی کوشش، فیصلے اور ذمہ داری۔ یہ سب بھی انسانی ایکٹیویٹی ہیں۔ ہمیں ان معاشرتی مسائل کے حل کے بارے میں سنجیدگی سے شرکت کرنی چاہیے جن کی ہمیں پرواہ ہے۔ اس کا تعلق معاشرتی ذمہ داری سے ہے۔ اس کے لئے تعصب نہیں بلکہ متعلقہ علم کا حصول ہماری بہترین راہنمائی کر سکتا ہے۔ مثلاً، اگر آپ ماحول کی پرواہ کرتے ہیں تو آپ کی جو بھی سیاسی یا نظریاتی ہمدردی ہے، اس کے بارے میں کچھ گہرائی سے اہم معاملات کا مطالعہ کریں۔ اپنا ذہن ممکنہ حد تک تعصب سے بالاتر ہو کر بنائیں۔ اگر آپ کو معاشرے کی اور اپنی صحت کی پرواہ ہے تو بیماری، وبا، ویکسین، ادویات، طریقہ علاج کے بارے میں کچھ مطالعہ کر لیں۔ اور اگر کسی اہم مسئلے کے بارے میں دستیاب شواہد کی بنیاد پر آپ کوئی نظریاتی یا سیاسی پوزیشن لینا چاہیں۔ اس کے مطابق ووٹ دینا چاہیں یا تحریک میں شرکت کرنا چاہیں تو ضرور ایسا کریں۔ بغیر نظریات والے انسان میں تو خودغرضی ہی بچتی ہے۔
اور یہ حقیقت سائنس کی اپنی اہمیت کو بڑھا دیتی ہے۔ ہم سب چاہیں گے کہ ہماری اقدار، زندگی کے مقاصد، اہم ترین خیالات، ذات سے بڑھ کر کی جانے والی جدوجہد ممکنہ حد تک حقائق سے ہم آہنگ ہو اور اس کیلئے ہم سائنس سے مدد لیتے ہیں۔ لیکن اپنے سیاسی یا نظریاتی نکتہ نظر کو سائنس کی رائے مت سمجھیں اور اس کی وجہ ہے۔ مستقبل ہونا کیسا چاہیے؟ مفید زندگی، اچھے معاشرے اور اچھی دنیا کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کرنا کیا چاہیے؟ نظریات اور اقدار کے یہ سوالات بھی اصولی طور پر سائنس کے دائرے میں نہیں آ سکتے۔
سائنس اپنی اصل میں غیرسیاسی اور غیرنظریاتی ہے کیونکہ اس کا واسطہ جس فریق سے ہے، وہ اپنی اصل میں غیرجانبدار ہے۔ یہ فریق خود نیچر ہے۔
نیچرل دنیا کے بارے میں ہمارا بہترین نکتہ نظر ۔۔۔ اس دنیا کو، اس معاشرے کو، خود کو جاننے کا دستیاب بہتر طریقہ ۔۔۔۔۔ اس دنیا کی، اس معاشرے کی، خود کی حالت بہتر کرنے کا موثر اوزار ۔۔۔۔
بس یہی سائنس کی سائنس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شُد
سائنس کو الگ کرنے پر