بعض لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ سائنس کو آئے تو محض جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اس لیے اس پر کیا بھروسہ کرنا۔ آئے ہوئے تو کمپپوٹر، موبائل فون ،گاڑی، جہاز، فریج، ٹی وی اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے آلات کو بھی اتنا ہی عرصہ ہوا ہے مگر آج انکے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ ہاں اگر کوئی شوق سے جنگل یا صدیوں پرانی زندگی گزارنے کا خواہ ہو تو وہ اور بات ہے۔
تو یہ ایک بیہودہ سی بات ہے کہ کسی شے کی افادیت کو اسکی ایجاد یا عمر سے جانچا جائے۔ کئی نظریاتِ زندگی صدیوں سے موجود ہیں مگر کسے کارے مسئلے کے نہیں۔ آج تک نہ پھونکوں سے بیماریاں حل ہوئیں اور نہ ہی منتر پڑھ کر لوگوں نے ہوائی جہاز بنائے۔ نہ محض تصور کے بل پر لوگ خلاؤں میں گئے اور نہ ہی دنیا میں خوراک کے مسئلے فقط کتابوں سے حل ہوئے۔
لوگ سوچتے نہیں ورنہ ہر نوبل انعام یافتہ سائنسدان، ہر موجد، ہر تخلیق کار جس نے ہماری زندگیوں کو روشن کیا، ان میں آسانیاں پیدا کیں، اُن چھو منتر کرتے مسیحاؤں، افیم کی گولیاں چٹاتے گفتار کے غازیوں یا قصے کہانیاں سنا کر اسی دماغی حالت میں رکھنے والے کرمافرماؤں جنکی روزی روٹی صبح سے شام تک انکی جہالت سے جڑی ہے، سے بڑھ کر جانتے، انہیں اپنی نسلوں کو پڑھاتے، انہیں اپنا ہیرو بناتے۔ مگر کیا کیجیئے، جس دیس میں گنگا اُلٹی بہتی ہو وہاں شکایت کس بات کی۔
واپس آتے ہیں سائنس کی تاریخ پر۔ سائنس کی تاریخ دراصل اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیبیں۔ مصریوں اور بابل اور نینوا کے لوگ کسی حد تک بنیادی سائنسی طریقوں کے استعمال سے ہی کھیتی باڑی کرتے، عمارات اور شہر بناتے اور کئی مظاہرِ فطرت کو اس وقت کے علم کے مطابق منطق کی کسوٹی پر پرکھتے۔
بعد میں اس سلسلے کو یونانیوں نے جاری رکھا۔ یونانی فلسفے نے قدرت کے مظاہرات کو سوالات کے ذریعے، ظاہری مشاہدات کے میزان پر رکھ کر تولا اور اس سے منطقی نتائج اخذ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ کسی حد تک انہوں نے علمِ فلکیات ، ریاضی اور طب کے شعبوں میں پیش رفت کی۔ ٹالمی کے فلکیات کے تصورات یا اریسٹوسٹنی کا زمین کا سرکمفرنس معلوم کرنا اس دور کے چند بڑے کام تھے۔ جنکی بنیاد پر بعد کی سائنس نے ترقی کی۔
یونانیوں کے زوال کے بعد رومیوں کے ہاں سائنس اتنی ترقی نہ کر سکی۔ مشرقی رومی علاقوں جو بظنطین ریاست تھی وہاں اس پر کچھ نہ کچھ کام جاری رہا ۔ یونانیوں کا فلسفہ، اور سائنسی تصورات جب عرب دنیا پہنچے تو انہیں عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ ان تصورات کی بنیاد پر عرب و فارس کے سائنسدانوں نے سائنس کی بنیادی شاخیں جیسے کہ طبعیات، کیمیا، طب اور فلکیات میں مزید کام کیا۔
سولہویں اور سترویں صدی میں سائنس کے تصورات اور بہتر ہوئے۔ یہ تصورات تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر پرکھے جانے لگے ۔ ثبوت اور دلائل کو سائنس کے کسی نظریے کے کارآمد اور صحیح ہونے کی شرط میں سب سے کڑی شرط رکھا گیا۔ جو شے ثابت ہو سکتی تھی اسے ہی سائنس کا حصہ سمجھا گیا۔ قصے کہانیوں کا دور ختم ہونے لگا۔ دنیا کو سائنس نے حقیقت سے آگاہ کرنا شروع کیا۔ نتیجہ؟
حقیقت پسندی نے انسانی ترقی کے دروازے کھول دئے۔ صدیوں سے ذہنوں پر جمی برف پگھلنے لگی۔ سائنس پانی کیطرح ماضی کے بوسیدہ تصورات کی عمارات ڈھاتی گئی۔
نئے اور جدید سائنسی طریقوں سے صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ اٹھارویں صدی میں کیمیائی انقلاب، انیسویں صدی میں فزکس کا انقلاب۔ انسان اور زمین کا ماخذ، توانائی کا حصول یہ سب سائنس کی تحقیق کا مرکز رہے۔ بیسویں صدی میں ایٹم کے راز کھلنے لگے، ڈی این اے کے پردے فاش ہوئے، خلاؤں کا سفر شروع ہوا، دوسرے سیاروں پر کمندیں ڈالی جانے لگیں۔ اور اکیسویں صدی میں دنیا سمٹ کر رہ گئی، انٹرنیٹ ، مواصلاتی رابطوں، الیکٹرانکس، میڈیکل سائنس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔
سائنس کی تاریخ دلچسپ ہے۔ ماضی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص قوم کی میراث نہیں رہی۔بلکہ جس نے اس میں جتنا خون سینچا اسے اتنا پھل ملا۔ آج مغرب سائنس کے استعمال کو زندگی کے ہر شعبے میں فوقیت دیتا پے۔۔کیوں؟ کیونکہ سائنس واقعی کام کرتی ہے۔
مگر اسی آج میں ہم بھی بستے ہیں اور ہم آج بھی نہ سائنس کا فلسفہ سمجھ سکے نہ ہی اسکا مقدمہ۔ یہ بددیانتی کس نے کی ؟ اُنہوں نے جو ادراک رکھتے تھے، علم رکھتے تھے، قدرت رکھتے تھے مجمع لگانے کی مگر پھر بھی مُصر تھے کہ لوگوں کے ذہنوں کو بفر سلوشن میں رکھنا ہے جو بس کسی مردہ جاندار کے اعضا کیطرح بیالوجی کی کسی لیب میں صدیوں پڑے رہیں، نہ گلیں، نہ سڑیں بس جسیے ہیں ویسے رہیں۔
اس علمی بدیانتی کا الزام ہر اس شخص پر ہے جو علم رکھنے کے باوجود بزدلوں کیطرح چھپا رہا، خاموش رہ کر۔ جہالت کو مزید پنپنے کا موقع دیتا رہا اور عوام کو جدید سائنس سے محروم رکھ کر زندگی گزارتا رہا۔ کم سے کم میں اس بددیانتی کا متحمل ہو کر زندگی نہیں گزارنا چاہتا کہ یہ ہماری نسلوں پر ہمارا قرض ہے۔ بھلے کسی کو سائنس سے مسئلہ ہو مگر یہی وہ حقیقت ہے جو جدید دنیا میں ہمیں ترقی کی منازل طے کرا سکتی ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...