سیاست، فیشن، بزنس، معیشت، جرائم، موسم، بین الاقوامی تعلقات، سپورٹس گرما گرم تازہ خبروں پر چلتے ہیں۔ سائنس فرنٹ پیج پر کبھی نہیں آتی اور جو خبریں مل بھی جائیں، ان میں سائنس ذرا کم ہی ہوتی ہے۔ سائنسی سرخیاں عام طور پر تین طرح کی ہوتی ہیں اور تینوں کے ساتھ اپنی طرح کا مسئلہ ہے۔
چٹ پٹی ہیڈلائن
“کافی پینے سے آئی کیو بڑھ جاتا ہے”، “بے راہ روی کا جینیات سے تعلق دریافت ہو گیا”، “بجلی سے بھی الرجی ہو سکتی ہے”۔ “سائنسدانوں نے آئس کریم کھانے کا بہترین طریقہ ڈھونڈ لیا”۔ (یہ سب اصل خبریں ہیں)
معنی سے خالی، جگہ بھرنے کے لئے اور لوگوں کی توجہ رکھنے کے لئے ایسی ہیڈلائنز جو سائنس میں نئی دریافتوں کو پیش کرتی ہیں جن کا سائنس سے تعلق نہیں ہوتا۔ ایک اور مثال یہ خبر جو ایک وقت میں کئی اخباروں کی زینت بنی۔
“سن 3000 تک انسانوں کا اوسط قد ساڑھے چھ فٹ ہو گا، رنگ سانولا ہو گا اور عمر 120 برس ہو گی۔ اعضائے مخصوصہ کے سائز اور جسمانی دلکشی کے بارے میں خوشخبری ہے”۔
ایک ٹیبلائڈ کے لئے ایک سیاسی تھیورسٹ کا لکھا گیا یہ مضمون سائنس کی خبر بن گیا جس کو بڑے اخباروں نے اپنے سائنس کے سیکشن میں نئی تحقیق کہہ کر جگہ دی۔
صحت
سائنس میں ہماری سب سے زیادہ دلچسپی ان معاملات میں ہوتی ہے۔ کسی دوسری کہکشاں سے ملنے والی معلومات سے زیادہ ہمارا لئے یہ زیادہ اہم ہے۔ 1935 سے 1975 کے درمیان میڈیکل سائنس میں انقلابی پیشرفت ہوئی۔ اگر اس سے قبل تپدق ہو جاتی تو یہ موت کا پروانہ تھا۔ اگر 70 کی دہائی میں ہو جاتی تو ریفامپیسین اور آئیسونائیزڈ کئی مہینوں تک لینی پڑیں جو لینا کچھ تکلیف دہ تو ہے لیکن اس بیماری کے باجود لمبی عمر تک رہا جا سکتا تھا۔ صرف ادویات ہی نہیں، جدید میڈیسن کے بڑے انقلابات انہی دہائیوں میں ہوئے۔ گردے کا ڈیالیسز، ٹرانسپلانٹ، سی ٹی سکین، ہارٹ سرجری اور تقریبا تمام ڈرگز جن سے ہم واقف ہیں، سینے پر دئے گئے برقی شاک جو موت کے منہ سے واپس لے کر آ سکتے ہیں، اور پولیو پر فتح، جو بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا باعث بنتا تھا۔ انٹنسو کئیر یونٹ، جو پولیو کے مرض کی وجہ سے شروع ہوئے تھے۔ تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کے کینسر کا تعلق۔ یہ سب ان چار دہائیوں میں ہونے والے انقلاب کی یادگاریں ہیں۔
نت نئے بریک تھرو والا یہ سنہرا دور تو ختم ہو گیا، میڈیکل ریسرچ بالکل بھی نہیں رکی۔ بڑھاپے سے پہلے انتقال ہو جانے کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن اس میں کوئی ایک ڈرامائی بریک تھرو نہیں تھا۔ میڈیکل ریسرچ بتدریج امپروومنٹ کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہے۔ ادویات کی بہتر ہونے والی سمجھ، انکے فوائد اور خطرات سے آگاہی، نسخے اور میڈیکل ریکارڈ کے طریقوں میں بہتری، سرجیکل تکنینکس کا مزید ریفائن ہونا، رِسک فیکٹرز سے واقفیت، پبلک ہیلتھ پروگرام۔ یہ اہم اور اصل خبریں نگاہ کھینچ لینے والی ہیڈلائن نہیں۔
خبر یت کہاں پر ہے؟ خطرے اور ڈرانے والی سرخیوں میں کیونکہ یہ توجہ لیتی ہیں۔ مرکری کی فلنگ سے ہونے والی سردرد، تھکاوٹ، چکر وغیرہ خبر بنے۔ “منہ میں زہر” کے عنوان سے ڈاکومنٹری بنی، کتابیں لکھی گئیں۔ اس پر ایک بڑی سٹڈی ہوئی جس میں کئی سال میں ایک ہزار لوگوں پر کنٹرولڈ تجربہ کر کے نتیجہ نکالا گیا کہ یہ غلط تھا۔ اس کا محفوظ ہونا کتنے اخباروں کا حصہ بنا؟ ان کی کل تعداد صفر تھی۔
سادہ فقرے
کئی مرتبہ سائنس پر رپورٹ کرنے والے صحافی خود سائنس کا پسِ منظر نہیں رکھتے اور خود ہی تحقیق کو سمجھ نہیں پاتے۔ گمراہ کن خبر لگانا عام ہے۔ جبکہ کچھ صحافیوں کا یہ خیال ہے کہ پڑھنے والے چونکہ سائنس سے واقف نہیں اس لئے سائنس کو آسان جملوں سے بتایا جانا ضروری ہے۔ ایک سنہری اصول یہ ہے کہ کسی چیز کو اتنے سادہ الفاظ میں پیش کرنا چاہیے جتنا اسے سادہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ بالکل بھی نہیں۔ “تحقیق نے ثابت کیا ہے، سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے، سائنسدانوں نے آج بتایا ہے” سے ابتدا کرتے ہوئے خبر لگانا جس میں کوئی تفصیل نہ ہو، اس کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر سائنس کی اصل کہانی ہی تفصیل میں ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کی صحافت کے ساتھ بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ یہ مسئلہ سائنس خود ہے۔ سائنس جس طریقے سے کام کرتی ہے، یہ خود ہی صحافت کے روایتی طریقے کے لئے اچھا جوڑ نہیں۔ اس میں بریکنگ نیوز نہیں ملتی۔ صحافت میں بڑی خبر وہ ہوتی ہے، جو عام سے ہٹ کر ہو۔ سائنس میں کوئی ایسا مشاہدہ، دریافت یا تحقیق ہو، جو پہلے سے قائم تصورات سے بالکل ہٹ کر نکلے، تو اس بات کا خاصا امکان ہے کہ غلطی اس تحقیق ہو گی۔
تمام شواہد اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکاز میں انسان لگ بھگ پندرہ ہزار سال قبل پہنچے۔ اگر کوئی انسانی باقیات ملیں جو پانچ ہزار سال پہلے کی ہوں، یہ خبر نہیں۔ اگر کوئی ایسی باقیات ملیں جو پچاس ہزار سال پہلے کی ہوں، یہ بریکنگ نیوز ہے۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ اس کی ڈیٹنگ میں غلطی نکلے گی۔
تمام شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ روشنی سے تیزرفتار ناممکن ہے۔ اگر کوئی مشاہدہ ہو کہ نیوٹرینو کی رفتار اس سے تیز نکل آئی ہے تو یہ بریکنگ نیوز ہے۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ اس میں پیمائش کا ایرر ہو گا۔
کئی مرتبہ جلد اور کئی مرتبہ کئی برسوں بعد یہ غلطیاں پکڑی جاتی ہیں اور غلط ثابت ہونا خبر اس طرح کی خبر نہیں بنتا۔ بریکنگ نیوز پڑھنے والے کئی مرتبہ اس طرح کے غلط تصورات ٹھیک بھی نہیں کر پاتے۔ اس پر لکھی خبریں ریکارڈ میں رہ جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ڈاکٹر ایلس سلور نے انکشاف کیا ہے کہ انسان زمین کی مخلوق نہیں”۔ سائنس فکشن کی کتاب سے سائنس میں یہ ہیڈلائن برطانوی اخبار میں لگائی گئی تھی۔
“بادام، کریلے اور کھیروں سے کینسر کا علاج ہو جاتا ہے”۔ یہ خبر پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار میں چھپی۔
“پولیو کے قطرے اسلامی دنیا میں آبادی کے کنٹرول کے لئے استعمال ہو رہے ہیں”۔ یہ خبر شمالی نائیجیریا کے ایک اخبار نے بریک کی تھی۔
“خسرے کی ویکسین سے آٹزم کا تعلق ہے۔ ہیپیٹائٹس بی کی ویکسین اعصابی بیماری کا باعث ہے”۔ یہ فرنچ اور برطانوی صحافت کی الگ الگ کیمپین رہے۔
سائننس کی پیروڈی کرنے والی یہ خبریں دلچسپ ہونے کی وجہ سے میڈیا میں جگہ لیتی ہیں۔ پھلتی پھولتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس ناقابلِ بھروسہ، روز بدلنے والی، نہ سمجھ آنے والی، دنیا سے الگ بیٹھی ہوئی کوئی شے ہے۔ یہ تصور اسی قسم کی رپورٹنگ کا نتیجہ ہے۔ ارشمیدس نے کئی ہزار سال قبل بتایا کہ کچھ چیزیں پانی پر کیوں تیرتی ہیں، لیور کیسے کام کرتے ہیں۔ یہ آج بھی بالکل ویسے ہی قابلِ عمل ہے۔ نیوٹن کی فزکس سنوکر کی گیند کی حرکت کی ہمیشہ ٹھیک پیشگوئی کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ سائنس کے مرکزی دعوے صدیوں میں بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ یہ روز بدلتے فیشن کی طرح نہیں۔
اور سائنس اتنی مشکل نہیں۔ بغیر مرچ مصالحہ لگائے، عام فہم زبان میں، ٹھیک فیکٹس کے ساتھ، ٹھیک تفصیل میں لکھی ٹھیک سائنس۔۔۔ لوگ اس کو پڑھنا بھی چاہتے ہیں اور اس میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ چٹ پٹی، روزانہ کی سرخیوں میں اس کو ڈھونڈنا شاید اس کا بہترین طریقہ نہیں ہے۔