آئین شٹائن کو نظریۂ اضافیت کا خیال کہاں سے آیا؟ میکسویل کی مساوات سے۔
میکسویل کو اپنی مساوات سے روشنی کو برقناطیسی فطرت اور اور موج کی توجہیہ دینے کا خیال کہاں سے آیا؟
میکسویل سے قبل کے سائنسدانوں جیسے کہ فیراڈے، ایمپئیر، لینز اور گاز کے برق اور مقناطیسیت کے کام سے۔
ان تمام سائنسدانوں کو برق اور مقناطیسیت کا خیال کہاں سے آیا؟
اس سے پہلے کے سائنسدان جیسے کہ کولمب اور وولٹا کے تجربات اور مشاہدات سے۔
ان سائنسدانوں کو یہ خیال کیسے آیا؟ اس سے قبل کے سائنسدانوں سے جنہوں نے برق اور مقناطیسی قوت کا مختلف اشیا جیسے کہ فطرت میں پائی جانے والے عنبر میں چارجڈ یا سپارک کی صورت یا آسمانی بجلی کو دیکھ کر خیال آیا۔۔ نیوٹن کی ثقلی کشش کی قوت کے قانون کے بعد ان برقی اور مقناطیسی قوتوں کی فطرت معلوم کرنے کے تجسس کے جذبے سے وغیرہ وغیرہ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سائنس میں کوئی بھی نظریہ راتوں رات وجود میں نہیں آتا۔ یہ دراصل خیالات کا تسلسل ہوتا ہے جو وقت، مشاہدے تجربات اور بہتر طریقہ کار کی مدد سے بہتر سے بہتر ہوتا جاتا یے۔ کسی سائنسدان کو الہام نہیں ہوتا کہ وہ کوئی نظریہ پیش کر دے۔ اسکے لیے محنت، لگن، علم اور عقل چاہئے۔ انسانی ذہن جب ایک شے کو مختلف پہلوؤں سے سوچنا شروع کرتا یے تو نئے خیالات پرانے خیالات کے پروں پر منڈلاتے پردہ دماغ ہر اُترتے ہیں۔ لہذا سائنس سیکھنے اور سائنس کے میدان میں اُترنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس علم کو حاصل کیا جائے اور سمجھا جائے جو ماضی کے سائنسدان دے گئے۔ اس خیال کی بنیاد کو سمجھا جائے جہاں سے قصہ شروع ہوتا ہے۔ ورنہ آپ یہی پوچھتے پھریں گے کہ سائنس نے یہ کیسے کہہ دیا وہ کیسے کہہ دیا؟
سائنس کی کہانی انسان کی کہانی یے، انسان کی جستجو کی کہانی یے۔ اس خواہش کی کہانی ہے کہ ہم کائنات کو کیسے سمجھیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...