سائنسی انقلاب دنیا کے ایک حصے میں آیا، ایسا کیوں؟
کیا سائنسی انقلاب کی وجہ غیرمعمولی دماغ والے لوگ تھے؟ نہیں، گلیلیو، نیوٹن، پاسکل وغیرہ جیسے دماغ والے لوگ ہندستان، فارس، افریقہ، چین، مشرقِ وسطیٰ، امریکہ میں بھی پیدا ہوتے رہے۔
کیا اس کی وجہ کچھ ایجادات تھیں؟ نہیں، چین میں تو بارود پہلے ایجاد ہو گیا تھا۔ فلکیات میں عرب بہت آگے تھے۔
کیا اس کی وجہ امن و آشتی تھی؟ نہیں، یہ دنیا کے جس خطے میں آیا، اس سے زیادہ پرامن خطے موجود تھے۔
یہ نہ بادشاہوں کی وجہ سے آیا، نہ ملٹری کے باعث، نہ ہی روایتی تعلیمی اداروں کا اس میں زیادہ کردار رہا۔ اس کے پیچھے کلچرل تبدیلیوں کے سلسلے کی ایک لمبی کڑٰی تھی۔ اجتماعی سوچ میں نئے انٹلکچوئل اوزاروں کا اضافہ پہلے ہوا۔ سب سے پہلا قدم اپنی لاعلمی کو جاننے کا تھا۔ (اس پر تفصیلی پوسٹ نیچے لنک سے)۔ اس سفر میں ووکیبلری میں کچھ نئے الفاظ داخل ہوئے جو اس سے پہلے زبان کا حصہ نہ تھے یا مختلف معنی رکھتے تھے۔ یہ سائنس کے بنیادی بلاک تھے۔
قانون
یہ دنیا بغیر اصول و طریقے کے نہیں بلکہ کچھ اصولوں پر قائم ہے۔ اس چیز کا ادراک ہونا شروع ہو گیا تھا۔ مثال کے طور پر جب چیزیں گرائی جائیں تو ایک ہی رفتار سے نیچے کی طرف گرتی ہیں۔ گلیلیو نے اپنی کتاب میں تو یہ تفصیل سے لکھ دیا۔ ان کو کہا کیا جائے؟ بفون نے ان کے لئے پہلی بار لاء یا قانون کا لفظ استعمال کیا۔سٹیون کا ہائیڈروسٹیٹکس کا قانون، گلیلیو کا گرنے کا قانون، ٹوریسیلی کا فلو کا قانون، نیوٹن کے حرکت اور گریویٹی کے قوانین، کیپلر کے سیاروں کے حرکت کے قوانین، ہائگنز کا پینڈولم کا قانون، سنیل کا ریفریکشن کا قانون، ہُک کا الاسٹیسی کا قانون، پاسکل کا فلوئیڈ ڈائنمکس کا قانون، بوائل کا گیسوں کا قانون۔ یہ سب سائنسی انقلاب کا حصہ ہیں۔ سوائے نیوٹن کے کسی نے بھی ان کے لئے قانون کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ قانون تو معاشروں میں ہوتے ہیں۔ فطرت میں کہاں سے آ گئے؟ یہ عام سوچ تھی۔ پرانے فلسفے کے مطابق یہ تصور ہی موجود نہیں تھا۔ چاند نیچے کیوں نہیں گرتا؟ روشنی کیسے مڑ جاتی ہے؟ اس قسم کے سوالوں کے جواب سے ہم یہ جان گئے کہ آسمان ہو یا زمین، قوانین اٹل ہیں، ان کو قوانین کا نام ملا۔ ان کو جج کرنے اور استعمال کرنے کا تصور ریاستی انصاف کے نظام سے آیا۔
تجربہ
کسی چیز کو دیکھا جائے تو کیا اس کے لئے آنکھ سے کوئی چیز نکلتی ہے؟ یا پھر روشنی ہماری آںکھ تک پہنچتی ہے؟ ارسطو کے مطابق نظر کسی چیز کو لگتی ہے تو پھر ہی ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ الہیثم نے تجرباتی طور پر نظر سے کچھ نکل کر لگنے کے تصور کو غلط ثابت کیا۔ ابن الہیثم نے اس کے لئے تجربوں کا طریقہ استعمال کیا۔ تجربوں کا طریقہ بڑے عرصے تک انفرادی رہا جس میں ایک سائنسدان ہی کچھ تجربہ کر کے بتا دیا کرتا تھا۔ اس کو اجتماعی اور کمیونل شکل سب سے پہلے بیرومیٹر سے پاسکل کے کئے گئے تجربات سے ملی جس سے فضائی پریشر کا معلوم ہوا۔ زمین پر اور پہاڑوں کی مختلف اونچائی پر ہوا کی کثافت نکالی گئی۔ تجربہ کرنے کا طریقہ کلچرلی قابلِ قبول ہو گیا۔ جب گلیلیو نے لکڑی کو پانی میں ڈال کر تجربہ کیا تو نہ صرف ارسطو کو غلط ثابت کر دیا بلکہ ارشمیدس کے قانون کی حد بھی ثابت کر دی۔ ریاضی دانوں کو بھی جھنجھوڑ دیا۔ تجربہ اگر کچھ بتا رہا ہے تو اس کی وجہ تک پہنچنا ہے، نہ کہ اپنے خیال کو اس پر فٹ کرنا ہے۔ گلیلیو نہ فلسفہ کر رہے تھے اور نہ ریاضی۔ وہ سائنس کر رہے تھے۔ یہ طریقہ ہمیں سمجھ میں آ گیا۔
ایویڈنس (evidence)
کسی چیز کے لئے ایویڈنس درکار ہے۔ (اس کا قریب قریب ترجمہ ثبوت ہے لیکن یہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں)۔ کسی خیال کے حق میں ایویڈنس کیسے اور کس اصول کے تحت قابلِ قبول ہوتا ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ اگر ایک دوا سے مریض ٹھیک ہو گیا تو کیا یہ کافی ہے؟ اس کو کتنی بار اور کس طرح دہرایا جا سکتا ہے؟ رومی قانون کے ہاف ایوڈنس کا تصور ریاضیاتی طور پر غلط تھا۔ مذہبی لٹریچر اور تھیولوجوسٹس نے اس پر خاصا کام کیا تھا جس کی وجہ “اخلاقی یقینیت” تھی۔ اس کے تصور وہاں سے آئے۔
ہائیوتھیسس
اس کا ترجمہ مفروضہ کیا جاتا ہے لیکن یہ ٹھیک معنی نہیں بتاتا۔ کئی بار کسی چیز کو کمتر گرداننا ہو تو اس کو ہائیپوتھیسس کہہ دیا جاتا ہے لیکن یہ تصور درست نہیں۔ ہائیپوتھیسس بس ایسے ہی نہیں ہوتا۔ کسی بنیاد پر کئے جاتے ہیں اور انہوں نے کسی شے کی وضاحت کرنا ہوتی ہے۔ قوانین ناکافی تھے۔ وہ یہ کسی عمل کا تو بتا دیتے تھے لیکن یہ کیوں ہوتا ہے، اس کا نہیں۔ یہ ان کی وضاحت کرتے تھے۔ نیوٹن کی آپٹکس کا تجزیہ کرتے ہوئے کوہن نے کہا تھا کہ کیا ہی زبردست ہائیپوتھیسس ہیں۔ یہ تبصرہ بحث کا باعث بنا لیکن ایک ہائیپوتھیسس وقت کا ٹیسٹ گزار لے معتبر ہوتا جاتا ہے۔ کسی عمل کی وضاحت کرنے کے لئے اس لفظ کا پہلی مرتبہ استعمال ڈیکارٹ نے 1644 میں کیا۔ یہ تصور فلکیات سے آیا۔
تھیوری
فلسفے میں نیچرل دنیا کو جاننے کے لئے لفظ “سائنٹیا” تھا۔ اس کا مطلب چیز کی قطعی حقیقت جاننا ہوا کرتا تھا۔ “نئے فلسفیوں” نے یہ تصور کر حتمیت ختم کر دی تھی۔ اس کے لئے پہلی مرتبہ لفظ تھیوری کا استعمال ہوا۔ تھیوری ایک حد تک وضاحت کرتی ہے اور پھر ختم۔ اور سائنس میں یہ دنیا کو بیان کرنے کا طریقہ ہے۔ پرانے فلسفے میں بھی اگرچہ ایسا ہی تھا لیکن کم علمی کا اعتراف نہیں تھا۔ مثلا، “افیم اس لئے سلا دیتی ہے کیونکہ اس کی خاصیت یہ ہے کہ حسیات کو ڈھیلا کر دیتی ہے۔” اس قسم کی “مکمل” وضاحیتں پرانے فلسفے میں کافی تھیں۔ “نئے فلسفے” میں اپنی لاعلمی کا بھی اعتراف تھا۔ اس “نئے فلسفے” میں قدرتی عوامل کی وضاحتوں کے لئے تھیوری کا لفظ استعمال ہوا۔
فیکٹ
والٹر چارلٹن نے پہلی مرتبہ وہ کتاب لکھی جس میں یہ تمام لفظ اپنی موجودہ تعریفوں کے ساتھ ایک ہی کتاب میں موجود تھے۔ سترہویں صدی کے آخر پر ہم نے وہ طریقہ دریافت کر لیا جو اس ابھرتے انقلاب کا پیش خیمہ تھی۔ علم کے مختلف شعبوں سے مستعار لئے گئے۔ پرانا بے لچک اور حتمی سچائیوں والا فلسفے کا دور ختم ہو گیا تھا۔ نئے فلسفے اور طریقے نے اس کی جگہ لے لی تھی۔
ٹائیکو براہے کے 1572 میں سپرنووا کے مشاہدے سے لے کر نیوٹن کی 1704 میں لکھی کتاب آپٹک کے بیچ میں سائنس ایجاد ہو گئی تھی۔
یہ اچھا ہوا تھا یا برا، اس پر کوئی اپنی رائے رکھ سکتا ہے۔ یہ بڑے ہتھیاروں سے دنیا کی تباہی یا ماحولیاتی تباہی پر بھی متنج ہو سکتی ہے۔ یا پھر دنیا میں ہر لوک داستانوں کی طرح ہنسی خوشی کی زندگی گزارنے پر بھی۔ مگر اس سب بحث سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔ زرعی انقلاب کی طرح سائنسی انقلاب نے ہمیشہ کے لئے دنیا بدل دی تھی۔ واپسی کا راستہ بند ہو گیا تھا۔ صنعتی انقلاب سے لے کر سیاسی اور پھر معاشی انقلاب کا بیج بویا جا چکا تھا۔
یہ اس کتاب سے لیا گیا ہے اور ساتھ لگی تصویر اس کے کور کی ہے
Invention of Science: David Wootton