مندرجہ ذیل واقعہ لی سمولن سناتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں)۔
“میری فلائیٹ لندن سے ٹورنٹو جا رہی تھی۔ میرے ساتھ دو خوش مزاج نوجوان بیٹھے تھے جن سے علیک سلیک ہوئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں کاسمولوجی کی کانفرنس سے واپس آ رہا ہوں تو انہوں نے فوراً مجھ سے ایولیوشن کے بارے میں میرے خیالات کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ نیچرل سلیکشن کے درست ہونے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں۔ انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ بائبل کالج کے ممبران ہیں جو افریقہ سے واپس جا رہے ہیں۔ یہ نوجوان ینگ ارتھ کری ایشنسٹ تھے (اس مکتبہ فکر کے مطابق زمین کی عمر چند ہزار سال ہے)۔ ان کا افریقہ جانا اسی مقصد کے تحت تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے بحث کرنا چاہیں گے۔
سمولن: بہتر ہے کہ رہنے دیا جائے، آپ ہار جائیں گے کیونکہ مجھے اس بارے میں ایویڈنس کا علم ہے۔
نوجوان: نہیں، آپ کو فیکٹ معلوم نہیں۔
سمولن: یقینی طور پر آپ اس کو فیکٹ تسلیم کرتے ہوں گے کہ ہمارے پاس بہت سی ایسی مخلوقات کے فوسل ہیں جو معدوم ہو چکی ہیں؟
نوجوان: نہیں، یہ فیکٹ نہیں ہے۔
سمولن: کیا مطلب؟ ڈائنوسارز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
نوجوان: ڈائنوسار ابھی معدوم نہیں ہوئے۔ زمین پر موجود ہیں۔
سمولن: کیا!! یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ کہاں ہیں؟
نوجوان: افریقہ میں۔
سمولن: افریقہ میں؟؟ افریقہ میں بہت سے انسان بستے ہیں۔ بہت بڑے ڈائنوسار کے فوسل ملے ہیں۔ یہ کہاں پر ہیں؟ انہیں کسی نے دیکھا کیوں نہیں؟
نوجوان: یہ گھنے جنگل میں رہتے ہیں۔
سمولن: لیکن کسی نے تو پھر بھی دیکھا ہو گا۔ کیا آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جس نے انہیں دیکھا ہو؟
نوجوان: پگمی ہمیں بتاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی کبھار دیکھا ہے۔ ہم نے دیکھنے کی کوشش کی اور ہمیں نہیں ملے لیکن ہم نے درختوں کے تنوں پر بہت بڑے نشان دیکھے ہیں جو اٹھارہ سے بیس فٹ تک کے ہیں۔
سمولن: اچھا چلیں، ایک اور طرح سے دیکھ لیتے ہیں۔ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بڑے سائز کے ڈائنوسار ہیں۔ فوسل کا ایویڈنس یہ بتاتا ہے کہ یہ ریوڑ کی صورت میں رہتے تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے سائز کے جانوروں کے ریوڑ ہوں اور سوائے چند پگمی کے، کسی نے بھی نہ دیکھے ہوں۔
نوجوان: یہ کونسا مشکل سوال ہے۔ وہ اپنا زیادہ وقت غاروں میں سوتے ہوئے گزارتے ہیں۔
سمولن: غاروں میں؟؟ جنگل میں غار بھی ہیں؟
نوجوان: ظاہر ہے۔ کیوں نہیں ہوں گے؟
سمولن: اتنے بڑے غار جس میں عظیم الجثہ ڈائنوسار داخل ہو سکیں؟ اگر اتنے بڑے غار ہوتے تو آسانی سے مل جاتے۔ ہم ایسے غار کے اندر جاتے اور انہیں جا کر دیکھ لیتے۔
نوجوان: ڈائنوسار مٹی سے غار کا منہ ڈھک لیتے ہیں تا کہ سوتے وقت انہیں کوئی چھیڑ نہ سکے۔ اس وجہ سے یہ ہمیں ملتے نہیں۔
سمولن: یہ غار کا منہ اتنی اچھی طرح کیسے ڈھک سکتے ہیں؟ کھدائی کس سے کرتے ہیں؟ پنجے استعمال کرتے ہیں یا ناک سے کھودتے ہیں؟
نوجوان: اس جواب کا نہیں علم نہیں لیکن ہمارے کالج کے “بائیولوجسٹ” اس پر تحقیق کر رہے ہیں اور اس وجہ سے ہی افریقہ کے جنگلوں میں ہیں۔
سمولن: جب انہیں کوئی زندہ مل جائے، تو مجھے ضرور بتائیے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بتانے کا مقصد تفننِ طبع نہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ معقولیت سادہ مشق نہیں۔ عام طور پر اس بات کو معقول سمجھا جاتا ہے کہ ایسی تھیوری کو مسترد کر دیا جائے جو ایسی پیشگوئی کرے جس کو کسی نے نہ دیکھا ہو۔ ورنہ اگر ہم ڈائنوساروں کو غاروں میں چھپے کی مدد لینی پڑتی ہے۔
یہ استدلال احمقانہ لگے لیکن فزکس میں ایسا کیا جاتا ہے۔ اور ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ذرات جو کبھی نہ دیکھے گئے ہوں، ایجاد کئے جاتے ہیں۔ تا کہ کسی خاص ریاضیاتی نتائج یا تھیوری کی تک بنائی جا سکے۔ “نیوٹرینو کیوں نہیں ڈیٹکٹ ہو رہے؟”، “یقیناً، یہ بہت ویک انٹرایکشن کرتے ہوں گے”۔ اس معاملے میں یہ درست حکمتِ عملی نکلی۔ کئی سال بعد ایسا تجربہ ڈیزائن ہوا جو نیوٹرینو ڈھونڈ سکے۔ اور پھر معلوم ہوا کہ ہمارا اندازہ درست تھا۔ یہ واقعی بہت ویک انٹرایکشن کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار معقول طرزِ عمل یہ ہے کہ اچھی تھیوری کو مسترد صرف اس لئے نہ کر دیا جائے کہ یہ ایسی چیز کی پیشگوئی کرتی ہے جو کبھی ڈیٹکٹ نہیں ہوئی۔ کئی بار اس کی وضاحت کیلئے ایجاد کردہ مفروضہ درست نکل سکتا ہے۔ اس سے ہم اپنا خیال بھی قائم رکھ سکتے ہیں اور یہی مفروضہ ایک نئی پریڈکشن بھی بن جاتی ہے۔ لیکن ایسا کب تک کیا جانا معقول کہلائے گا؟ وہ کونسا مقام آ چکا ہے کہ اب بہت ہو گیا۔ اب ہم زبردستی کھینچ رہے ہیں۔ کیا یہ پہچان کی جا سکتی ہے؟
وہ جو کسی وقت میں زبردست خیال تھا اب اس قابل نہیں رہا کہ مزید توجہ کا حقدار رہے؟ یہ جج کر لینا آسان نہیں۔ کئی بار بہترین تربیت یافتہ اور سمارٹ لوگ بھی بہت دیر تک خیالات کی توجیہہ بناتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ کیا حدِ فاصل ہے جو بتاتی ہے کہ وہ وقت آ چکا ہے جس کے بعد کسی معقول شخص کے لئے تاویلات قابلِ قبول نہیں رہتیں؟ بدقسمتی سے ایسی کوئی واضح حد موجود نہیں۔
نوجوانوں کو اپنے آئیڈیا اس لئے ایجاد کرنا پڑے کہ ان کے خیالات کی فاوٗنڈیشن میں مسئلہ تھا۔ افریقہ میں غاروں کی تلاش بے فائدہ اس لئے رہی اور رہے گی کہ ان کی زمین کی عمر کے بارے میں بنیادی ازمپشن درست نہیں۔ انہوں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا کہ یہی غلط ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سائنس میں ترقی کی نوعیت ہے۔ موجودہ فریم ورک میں رہ کر تیزرفتار لیکن بتدریج ہوتی ہے۔ لیکن سائنسی انقلاب اس وقت آتے ہیں جب کوئی ان بنیادی ازمپشن کو چیلنج کرے جن پر فریم ورک بنا ہے۔ اور دوسری طرف ۔۔۔ بنیادی فریم ورک کو چیلنج کرنے والے اکثر خیالات غلط نکلتے ہیں۔
جس طرح ہائی رسک بزنس میں دس میں سے ایک آدھ ہی کامیاب ہوتا ہے لیکن یہی بڑے رسک گوگل یا ایپل جیسے بزنس بھی کھڑے کر سکتے ہیں۔ سائنس میں بڑے انقلاب سائنس کے نارمل طریقے سے نہیں آئے۔ گلیلیو، آئن سٹائن، ڈارون، بوہر (یا پھر لن مارگولس) جیسے لوگ بڑے سائنسی آئیڈیا دینے میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ یہ نہ صرف اپنے شعبے میں مہارت رکھتے تھے لیکن ان کی خاص صلاحیت اپنے شعبے کو ازسرِ نو دیکھنے کی جرات رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نارمل سائنس روایتی کنزورویٹو سائنسی اسٹیبلشمنٹ سے آتی ہے (جو بڑی حد تک درست ہوتی ہے) لیکن کچھ حصہ نئے اور اچھوتے خیالات کا (جو عام طور پر غلط ہوتے ہیں)، جو سائنس میں انقلاب لا سکتا ہے۔ یہ مشکل توازن سائنس کے اداروں کا بڑا چیلنج ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...