سائنس کہاں ہے؟
میں ایک ایسے دور میں جی رہا ہوں، جہاں سائنس ہر روز ایک نئی ایجاد، ایک نئی دریافت کے سفر پر نکلی ہوئی ہے۔ مگر ہمارے ٹی وی چینلز دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا بہ حیثیت قوم مسئلہ کیا ہے؟ یا ہم بہ حیثیت قوم کن امور کو اصل معاملہ سمجھتے ہیں؟
ہمارے ہاں آپ کو ٹی وی چینلوں پر یا تو مولوی دکھائی دیں گے، جو برسوں گزر جانے کے باوجود بنا تھکے اپنا بیان جاری رکھے ہوئے ہیں یا وہ سیاسی مہرے جو ہر روز نئے خواب بیچنے پہنچ جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ریاضی، طبیعات، فلسفہ، تاریخِ انسانی، حیاتیات، کیمیاء، نفسیات، علم خردحیات، ماحولیات غرض کہ کسی بھی اہم علمی معاملے پر نہ کوئی بحث دکھائی دیتی ہے اور نہ گفت گو اور ہو بھی تو وہ کسی مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ دوسری بات ہمارے ہاں سائنس سے متعلق عوامی رجحان اور بچوں میں سائنس سے متعلق شوق و شغف کی حالت یہ ہے کہ اسے ایک بے کار اور غیرضروری یا غیراسلامی شے تصور کر کے ہم آگے بڑھ جاتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ تحقیق اور ایجادات کے ثمرات سے استفادے کے وقت تمام تر مذہبی میلانات ایک طرف رہ جاتے ہیں اور ہم نہایت ناشکرے ہو کر جہاز میں سوار ہونے سے لے کر انٹرنیٹ کے استعمال تک اور موبائل فون سے لے کر پنکھے تک زندگی کے ہر ایک شعبے میں سائنس کے صارف ہونے میں کوئی قباحت بھی محسوس نہیں کرتے۔
چند روز قبل کسی دوست نے فیس بک پر ایک ویڈیو بانٹی جس میں ایک نوجوان پاکستانی سائنس دان ٹی وی اینکر کو بتا رہا تھاکہ اس نے کس طرح نیوٹن کے قانونِ تجاذب کو رد کر دیا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ نیوٹن نے اپنے قانون میں کششِ ثقل کی پیمائش میں کمیت کو نظرانداز کیا تھا اس لیے اس نے (نوجوان پاکستانی سائنس دان نے) اس آفاقی سقم کو ختم کر دیا ہے۔
ان صاحب کے مطابق نیوٹن کا قانون دو مختلف کمیتوں کی چیزوں کے ایک ساتھ زمین پر گرنے کی وجہ نہیں بتا سکتا۔
نہ اینکر کو یہ خبر تھی کہ نیوٹن کا قانون تجاذب کمیت ہی کے اصول پر قائم ہے اور نہ ہی یہ بات کہ نیوٹن کا دوسرا قانون حرکت واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ کیوں ہلکی اور بھاری چیزیں (دو مختلف اوزان کی اشیاء) ایک سی بلندی سے چھوڑی جانے پر ایک ہی وقت میں زمین چھوتی ہیں۔
اس سے قبل آغا وقار کی پانی والی کار کے چرچے بھی قومی میڈیا پر رہے اور وہاں سائنس کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔
یہ نہایت دکھ اور بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم دنیا میں اپنے پیچھے ہو جانے اور مسلسل ہوتے جانے کی وجوہات سمجھنے ہی سے قاصر ہیں۔ بنیادی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے، جو ہم سے سوالات چھین رہا ہے۔
یاد رکھیے علم کی دو ہی قسمیں ہیں، یا تو وہ علم جو آپ خود سے سمجھ لیتے ہیں یا وہ علم جو اپنے آس پاس چیزوں بلکہ پوری کائنات سے لیا جاتا ہے۔ خود سے طے کر لینے یا سمجھ لینے والے علم کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس کی درستی کے لیے ہمارے پاس شواہد اور ثبوت نہ ہوتے ہیں نہ ہم ڈھونڈتے ہیں مگر کائنات سے لیا گیا علم اپنے ساتھ ثبوت اور شواہد رکھتا ہے، کیوں کہ وہ علم پیدا ہی سوالات کی وجہ سے ہوتا ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کو کائنات سے علم لینے کے لیے سوالات سونپنے ہوں گے۔ یاد رکھیے ہماری سرزمین انتہائی سرسبز ہے اور اس پر بسنے والے انسان نہایت ذہین اور ہوشیار، مگر ان عمدہ دماغوں کا استعمال جس علم کے ذریعے نئی جہتیں پیدا کر سکتا ہے، وہ علم موجود ہی نہیں اور یہ دماغ آ جا کے وہی چند کہاوتوں، قصوں اور کہانیوں کو ساری زندگی سوچتے اور درست سمجھتے گزر جاتے ہیں۔
اپنے بچوں کو سائنس کی جانب مائل کیجیے اور سائنس کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ کم عمری ہی میں ان بچوں کو تنقیدی سوچ سونپیے اور ان میں کائنات کی ماہیت اور نوعیت کو سمجھنے کے لیے تجسس پیدا کجییے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔