آپ آج بھی افریقہ کے کسی پسماندہ ملک میں چلے جائیں تو وہاں آپکو جدید طبی سہولیات اور خوراک کی قلت کے باعث بوڑھے لوگ کم نظر آئیں گے، بچے پیدائش کے وقت یا کم عمری میں ہی مرتے نظر آئیں گے۔ ماضی میں انسان پیٹ کے درد سے مر جاتے بھلا ہو جدید سائنس کا کہ اب محض 100 روپے کی پیٹ کی درد کی گولی کھا کر لوگ مرنے سے بچ جاتے ہیں۔ ہر اُس ملک میں جہاں جدید صحت کی سہولیات میسر نہیں یا نایاب ہیں وہاں نومولود بچوں کے مرنے کی شرح زیادہ ہے۔ پاکستان میں ہر 1 ہزار میں سے 63 بچے پیدائش یا پانچ سال سے کم عمر میں مر جاتے ہیں۔ افغانستان میں یہ تعداد 110 ہے۔ ترقی یافہ ممالک میں یہ شرح 2 سے بھی کم ہے جو سائنس کے معجزے سے کم نہیں۔
یہ بات یہ ثابت کرتی ہے کہ سائنس محض دعوے نہیں کرتی، کام کرتی ہے۔زیادہ دور مت جائیں آج سے 120 سال قبل یعنی بیسویں صدی کے آغاز تک دنیا کی اوسط مرنے کی عمر 35 سال سے کم تھی اور آج یہ 73 برس کو چھو رہی ہے۔
ماضی کا انسان کم عمری میں مر جاتا۔ ماضی میں لوگ زیادہ عمر کو نہ پہنچ پاتے۔ جینیاتی تحقیق اور انسانی کے اندر خون کے خلیوں اور جسم کے اندرونی عوامل کے بڑی آبادی پر کے کئے گئے برسوں کے مطالعے کے بعد، 2021 میں سائنس کے سب سے مستند جریدے “نیچر” میں ایک تحقیق شائع ہوئی جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ انسان زیادہ سے سے زیادہ 120 سے 150 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا میں طویل عمر کا ریکارڈ رکھنے والی ایک فرانسیسی خاتون Jeanne Calment تھیں جو 1997 میں 122 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔
یوں آج سائنسدان یہ جانتے ہیں کہ انسان زیادہ سے زیادہ 120 سے 150 سال کی عمر تک جی سکتے ہیں تاہم بڑھاپا جو ایک بیماری ہے اور جس سے ہر سال کروڑوں انسان مرتے ہیں اسے کم کرنے کے لیے سائنس نئے سے نئے پہلوؤں پر تحقیق کر رہی ہے۔ مستقبل قریب میں ممکن ہے کہ انسانوں کا 120 سال سے زیادہ زندہ رہنا کوئی اچھنبے کی بات نہ ہو۔
آپ کے اندر بڑھاپے کے عمل کو سست کر دیا جائے۔ آپ ہوں تو 80 سال کے تاہم دراصل آپکا جسم ایک 30 سال کے انسان جیسا ہو۔
خوش رہیں، سائنس سیکھتے رہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...