منسلک ڈایاگرام کو غور سے دیکھ لیں۔ یہ سائنس کے مختلف نظریات کے آپس میں تعلق کا تصویری خاکہ ہے۔
اس درخت کی ہر سٹیج سائنس کا الگ شعبہ ہے جس کے اپنے قوانین، اپنے حقائق اور اپنے کانسپٹ ہیں جس کا تعلق اس سٹیج سے ہے۔ اگر ایک سٹیج کے ضابطوں کی گہرائی میں جانا ہو تو اس سے پچھلی سٹیج میں جانا ہو گا۔ جیسا کہ جب کیمسٹری پڑھتے ہیں تو عناصر اور ایٹم اس کے لئے حقیقت ہیں اور ان کی خصوصیات اور ان کے عوامل کا علم کیمسٹری میں پڑھیں گے۔ اب خود ایٹم کیا اور کیوں ہے، اس کا جواب اس سے پچھلی سٹیج یعنی ایٹامک فزکس سے ملے گا۔
انٹرنیٹ عام ہونے سے بچوں کے رویے پر کیا فرق پڑ رہا ہے؟ یہ سوشیالوجی کا سوال ہے اور اسی کے اصولوں سے اس کا جواب تلاش کریں گے۔ اگر ان اصولوں کی وجہ تلاش کرنی ہو تو نفسیات سے مدد لیں گے۔
اس ڈایاگرام کی اوپر والی سٹیجز میں کچھ اپروکسیمیشن موجود ہے۔ یعنی اگر گریویٹی کو صفر کر دیں تو جنرل ریلیٹیویٹی سے سپیشل ریلیٹیویٹی تک آ جائیں گے۔ اگر کوانٹم فیلڈ تھیوری میں روشنی کی رفتار لامحدود فرض کر لیں تو کوانٹم میکینکس میں اور پھر پلانک کانسٹنٹ کو صفر کر دیں تو کلاسک میکینس کی سٹیج میں پہنچ جائیں گے۔
پیچیدہ حقیقتوں کو پڑھنے، سمجھنے اور جاننے کا یہی درست طریقہ ہے مگر اس کو اگر ٹھیک سے سمجھا یا اپلائی نہ کیا جائے تو غلط سائنس دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس کی کچھ مثالیں۔
اگر نفسیات پڑھ رہے ہیں اور خوشی کے جذبے کو محض کیمیکل ری ایکشن کہیں اور ایسے ہی اس کا مطالعہ کرنا چاہیں تو نفسیات سمجھنا ممکن نہیں ہو گا۔ پچھلی سٹیج سے اگلی سٹیج کے پیچیدہ پراسس کی سٹڈی اصولی طور پر تو ممکن ہو مگر عملی طور پر نہیں کی جا سکتی۔
کوانٹم میکینس کو کلاسیکل میکینس کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ سائنس کے درخت کی غلط سمت ہے۔
جب ہم فزکس کی جدید تھیوریز کو پڑھتے ہیں تو ان اپروکسیمیشنز کو جاننا ضروری ہے جو اس سٹیج کی بنیاد ہیں۔ جیسا کہ جہاں گریویٹی اہم کردار ادا کرتی ہو، وہاں سپیشل ریلیٹیوٹی درست نتیجہ نہیں دے گی۔
خلاصہ یہ کہ ہر علم کو اس کے متعلقہ اصولوں کے مطابق سمجھیں اور علم کی بڑی تصویر کو بھی ذہن میں رکھیں۔
نوٹ: اس درخت کی جڑ پر ایک سوالیہ نشان لگایا ہے، اس پر تفصیل کبھی بعد میں۔