یہ کون فیصلہ کرے گا کہ سائنس کا ایک موضوع بتایا جانا چاہئے اور دوسرا نہیں؟ کیا سائنس اختیاری مضمون ہے یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کائنات آپکی مرضی سے چلے گی؟ جو آپ سوچیں گے وہ صحیح سائنس ہو گی؟ جو آپکو پسند نہیں آئے گا وہ سائنس نہیں ہو گی؟
فرض کیجئے کہ آپ بچپن سے یہ سمجھتے ہوں کہ بچے آسمان سے کوئی پری لاتی ہے اور آپ اتنے بڑے ہو گئے ہوں کہ آپکی عقل داڑھ تک نکل آئی ہو اور کسی دن کوئی آپکو یہ بتائے کہ بچے پریاں نہیں لاتیں بلکہ یہ مرد اور عورت کے جسمانی تال میل سے پیدا ہوتے ہیں تو آپ کیا اس حقیقت کو جھٹلائیں گے اور غصہ کریں گے کہ آپکو یہ سب کیوں بتایا گیا؟ تو اس میں قصور کیا اُس علم کا ہو گا جس کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ بچہ کیسے پیدا ہوا یا اس سوچ کا جو بچپن میں آپ میں ڈالی گئی؟
یہی حال سائنس کا ہے ، بچپن میں بہت سی ایسی چیزیں ہمیں بتائی جاتی رہیں جو بڑے ہو کر ہمیں معلوم ہوئیں کہ سائنسی لحاظ سے وہ مختلف ہیں۔
آج سائنس ہمارے لیے کائنات کے راز کھول رہی ہے۔ ہمیں بتا
رہی ہے کہ کائناتی اُصول کیا ہیں۔ ہم ان کائناتی اُصولوں کی مدد سے زمین پر انسانی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا رہے ہیں۔ آپ موبائل فون، انٹرنیٹ، جہاز، ٹیلی وژن، بجلی، اے سی، گاڑیاں وغیرہ وغیرہ کے استعمال سے پرانے وقتوں کے بادشاہوں سے بھی بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ بیمار ہوتے ہیں تو ہسپتال جاتے ہیں، ایسکڈینٹ ہوتا ہے تو بروقت سائنسی علاج سے بچ جاتے ہیں۔ سائنس کے ذریعے دنیا میں بھوک و افلاس ختم ہو رہی ہے۔ کل ہمارے اجداد گندم کے دانوں کو ترستے تھے۔ اتنے بڑے کنبے رکھ کر محض ایک وقت کی روٹی کھاتے۔ آج ہمارے دسترخوانوں پر طرح طرح کے گوشت، سبزیاں موجود ہیں۔ ایک عام سے گھر میں بھی کم سے کم ہفتے میں ایک روز تو چکن پکتا ہی ہو گا۔ دنیا کی آبادی جس قدر ہے اسے پرانے طریقوں سے خوراک حاصل کر کے کھانا کھلایا جائے تو آدھی سے زیادہ آبادی بھوک سے مر جائے۔
تو کیا یہ سب ہوا میں ہو رہا ہے یا جادو منتر کے ذریعے؟
یہ بھی تو اُسی سائنسی علم سے ہو رہا ہے جو انسانی عقل کے ذریعے معلوم کیا گیا۔ تو کیا وجہ ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کے مصادق ہم وہی سائنس سمجھنا چاہتے ہیں جسے ہم ہی صحیح سمجھتے ہیں۔ کیا باقی سائنس کسی اور طریقے سے کام کرتی ہے؟
اور کیا وجہ ہے کہ سائنس کے وہ موضوعات جو ہماری سوچ کے برعکس ہیں اُن پر ہمارا رویہ وہی ہوتا ہے جو اوپر کی مثال میں دیے گئے اس شخص کا ہے جسے بچہ پیدا ہونے کے عمل کے ادراک سے ہوا۔ یعنی غصہ کرنا اور گالیاں دینا۔ کیا یہ ایک بالغ رویہ ہے یا بچگانہ ؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...