سائنس اور حیا بمقابلہ اسٹیفن ہاکنگ کے دس جواب
امریکی جریدے ٹائم نے آٹھ برس پہلے اپنے قارئین کو دعوت دی کہ وہ مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ سے سوال پوچھ سکتے ہیں۔ بے شمار سوالات موصول ہوئے جن کے جواب اسٹیفن ہاکنگ نے آن لائن دیے۔ ٹائم نے ان میں سے دس سوال منتخب کر کے شائع کیے۔ آج 2018 میں بھی یہ انتہائی پیچیدہ سوال اور ان کے سادہ ترین جواب اتنے ہی تازہ ہیں۔ آئیے یہ سوال اور جواب پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جن گورکھ دھندوں اور مسائل میں ہم الجھے ہیں وہ آفاقی سطح پر کتنے بے معنی ہیں۔
سوال: اگر خدا نہیں ہے تو اس کے وجود کا تصور اتنا مقبول کیسے ہو سکتا ہے؟
جواب: میں نے یہ دعوی کبھی نہیں کیا کہ خدا وجود نہیں رکھتا۔ ہم اس جہان میں کیوں ہیں؟ یہ سوال جب بھی ایک انسانی ذہن میں اٹھتا ہے تو اس کی توجیہہ کا نام وہ خدا ہی رکھتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ میرے خیال میں یہ توجیہہ طبعیاتی قوانین پر مشتمل ہے نہ کہ ایک ایسا وجود جس سے کوئی ذاتی تعلق استوار کرنا ممکن ہو۔ میرا خدا ایک غیر شخصی خدا ہے
سوال: کیا کائنات کہیں ختم ہوتی ہے۔ اگر ہاں تو اس اختتام کے اس پار کیا ہے؟
جواب: ہمارا مشاہدہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کائنات ایک انتہائی تیز رفتار اسراع کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پھیلاو لامتناہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی وجہ سے کائنات مزید خالی اور تاریک ہوتی چلی جائے گی۔ اگرچہ کائنات کا کوئی اختتام نہیں پر اس کا ایک آغاز ضرور ہے۔ آج اس آغاز کو ہم بگ بینگ کہتے ہیں۔ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ بگ بینگ سے پرے کیا تھا اور اس کا جواب ہو گا کہ کچھ نہیں۔ایسے ہی جیسے قطب جنوبی سے پرے کوئی جنوب نہیں ہے۔
سوال: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری تہذیب اس وقت تک قائم رہ سکے گی جب تک ہم خلائے بسیط کو کھوجنے کے قابل نہ ہو جائیں؟
جواب: مجھے یہ یقین ہے کہ ہم نظام شمسی کی حدود تک انسانی کالونیاں آباد کرنے تک تو یقینا قائم رہیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تمام نظام شمسی میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں قدرتی طور پر زندگی فروغ پا سکے اس لیے اگر زمین انسانوں کے رہنے کے قابل نہ رہی تو یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہو گا۔ ہماری بقا کا راز ستاروں تک پہنچنے میں چھپا ہے اور اس میں ابھی بہت وقت ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ تب تک ہم فنا سے محفوظ رہ سکیں۔
سوال: اگر آپ البرٹ آئن سٹائن سے بات کر سکتے تو آپ کا موضوع کیا ہوتا؟
جواب: میں ان سے پوچھتا کہ وہ بلیک ہولز میں یقین کیوں نہیں رکھتے تھے۔ ان کے نظریہ اضافیت کی رو سے بھی ایک مرتا ہوا ستارہ اپنی مائل بہ مرکز قوت کے زیر اثر ایک بلیک ہول میں بدل جاتا ہے۔ اگرچہ آئن سٹائن اس حقیقت سے آگاہ تھے لیکن کسی نہ کسی طرح انہوں نے اپنے آپ کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ ایسی کسی بھی صورت میں ایک ایسا دھماکہ ہو گا جو ستارے کی کمیت کو باہر کی طرف منتقل کر دے گا اور بلیک ہول نہیں بن پائے گا۔ میرا سوال تو سادہ ہے، اگر ایسا دھماکہ نہ ہو تو؟
سوال: ایسی کونسی سائنسی دریافت یا پیش رفت ہے جسے آپ اپنی زندگی میں دیکھنے کے متمنی ہیں؟
جواب: میں چاہتا ہوں کہ جوہری ادغام سے روزمرہ کی توانائی کی ضروریات پوری ہونے کا عملی راستہ نکلے۔ اس سے ہم توانائی کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے ذریعے سے متعارف ہوں گے جس میں نہ تو آلودگی کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی گلوبل وارمنگ یا زمینی تپش کا۔
سوال: موت کے بعد انسانی شعور کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟
جواب: میرا خیال ہے کہ دماغ ایک کمپیوٹر کی مانند ہے اور شعور ایک کمپیوٹر پروگرام کی طرح ہے۔ جب کمپیوٹر بند کر دیا جائے تو کمپیوٹر پروگرام بھی خود بخود کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ یہ نظریہ موجود ہے کہ اس پروگرام کو عصبیاتی طور پر دوبارہ چلانا یا تخلیق کرنا ممکن ہے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ اس کے لیے تمام تر انسانی یادداشت کے ذخیرے کی ضرورت پڑے گی۔
سوال: ہر کوئی آپکو ایک عظیم سائنسدان کے طور پر جانتا ہے۔ کیا آپکے کوئی ایسے عمومی شوق بھی ہیں جن کے بارے میں جان کر لوگ حیران ہوں؟
جواب: مجھے ہر طرح کی موسیقی میں دلچسپی ہے۔ میں پاپ، کلاسیکی اور اوپیرا، ہر طرح کی موسیقی سنتا ہوں۔ اپنے بیٹے ٹم کے ساتھ ساتھ میں فارمولا ون کار ریسنگ کا بھی شائق ہوں
سوال: کیا آپ کی معذوری آپکی راہ کی رکاوٹ بنی یا یہ آپ کی مددگار ثابت ہوئی، بالخصوص آپکے مطالعے اور تحقیق کے حوالے سے؟
جواب: ایک خوفناک عصبیاتی بیماری کا شکار ہونا میری بدقسمتی ہے لیکن زندگی کے اور بہت سے پہلو ہیں جہاں میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ اسے آپ میری خوش قسمتی سمجھ سکتے ہیں کہ میرا میلان نظریاتی طبیعات کی طرف رہا جس میں معذوری میری راہ کا پتھر نہیں بن سکی پھر میری کتابیں تو گویا لاٹری کا ٹکٹ ثابت ہوئیں۔
سوال: لوگ آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ زندگی کی تمام گتھیوں کا راز سلجھا سکتے ہیں۔ کیا توقعات کا یہ بوجھ آپ کو ایک بہت بڑی ذمہ داری محسوس نہیں ہوتا؟
جواب: دیکھیے، سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس زندگی کے ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔ طبعیات اور ریاضی ہمیں یہ تو بتا سکتے ہیں کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا لیکن وہ انسانی رویوں کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ انسانی رویے بہت پیچیدہ ہیں۔ اور ان کی کوئی قابل عمل مساوات تشکیل دینا قریبا ناممکن ہے۔ تو بھائی، لوگ اور خاص کر خواتین کب کیسے اور کیونکر ایک خاص ردعمل ظاہر کریں گی، اس بارے میں میں بھی اتنا ہی حیران و پریشان اور لا علم محسوس کرتا ہوں جتنا کوئی اور شخص
سوال: کیا کبھی کوئی ایسا وقت آئے گا جب انسان طبعیات کے بارے میں سب کچھ جان جائے گا؟
جواب: میں امید کرتا ہوں کہ ایسا وقت نہیں آئے گا ورنہ میں کہاں سے اپنی روزی کماوں گا۔
یہ دس سوال تو یہاں ختم ہوگئے پر یہ ایک زندہ معاشرے کے ایک نابغے کی سوچ کی محض چھوٹی سی جھلک ہے۔ پھر میں اپنے اردگرد نظر ڈالتا ہوں جہاں ہمارے ایک عظیم سائنسدان قوم کو صدارتی نظام کے محاسن پر لیکچر دے رہے ہیں۔ ایک محسن پاکستان بتا رہے ہیں کہ پانی سے گاڑی چلانا عین ممکن ہے۔ ایک مشہور جوہری سائنسدان ایک عشرے سے کوئلے سے بجلی بنانے کے طریقے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ ایک اور ایٹمی سائنسدان جو ایک زمانے میں جنوں سے بجلی پیدا کرنے کے تحقیقی مقالے اور بعد میں طالبان کے ہمدرد کے طور پر معروف رہے وہ کچھ روز قبل ایک اعلی سائنسی جامعہ میں سائنس اور حیا کے موضوع پر خطاب کرتے پائے جا رہے ہیں۔ ایک اور دانشور روح کے وزن پر بحث کر رہے ہیں۔ ایک معروف بزعم خود سائنسدان واقعہ معراج کو نظریہ اضافیت سے ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ ان صاحبان سے کیا سوال پوچھیں گے اور کیا جواب ملیں گے۔ کوئی بتائے تو کہ ہم کس گلی جا رہے ہیں؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“