اکتیس برس قبل جب ہمیں گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول میانوالی میں داخلہ ملا تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ایک نالائق یا اوسط درجے کے طالب علم کو شہر کے اول نمبر کے ادارے میں داخلہ ملنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ہمارے کلاس انچارج افضل حسین شاہ صاحب مرحوم تھے جو ہم کو ریاضی بھی پڑھایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سکول میں ہماری پہلی کلاس یعنی ششم کو دری پہ بٹھایا گیا تھا جو ہال کے سامنے والی گیلری میں جنوبی سمت آخری کمرہ تھا۔ یادوں کے دریچے سے جھانک کر دیکھ رہا ہوں کہ ہمیں اردو موسیٰ صاحب، انگریزی رمضان دھون صاحب، اسلامیات حیدری صاحب، عربی قاری نذر صاحب، بجلی عبدالرزاق صاحب اور ڈرائنگ شاید نذر صاحب جو بعد میں جوہر آباد ٹرانسفر ہو گئے تھے پڑھا رہے ہیں۔ ڈرل کا پیریڈ جو گراؤنڈ میں ہونا ہے پی ای ٹی عبدالعزیز خان کے ذمہ ہے جو باتوں باتوں میں ہماری اچھی خاصی دھلائی کر رہے ہیں۔ میں تو اُن کی ہٹ لسٹ پر ہوں۔اب مطالعہ پاکستان کا پیریڈ ہے۔ جو بصارت سے محروف سمیع اللہ شاہ لے رہے ہیں۔ پڑھاتے ہوئے ذہانت کا استعمال،سبق سنتے ہوئے سختی اور کہانی سناتے ہوئے بچوں کو ہنسانے کا فن تو شاہ جی کا خاصا ہے۔ میں دوسری لائن میں جنوب کی سمت میں سمٹا ہوا بیٹھا ہوں۔ پرائمری سکول سے نکل کر ہائی سکول میں آنا بذاتِ خود ایک انتہائی تناؤ والی صورت حال پیدا کر رہا ہے۔ چاچا بشیر گھنٹیوں پر گھنٹیاں بجائے جا رہا ہے۔ لیکن وقت پھر بھی سہما سہما اور ٹھہرا ٹھہرا سا محسوس ہو رہا ہے۔
تفریح ہوتے ہی تمام بچے کلاس سے باہر بھاگ رہے ہیں۔ میری جیب میں خرچ کرنے کو ایک روپیہ ہے۔ صبح جب یہ روپیہ مجھے ملا تھا تو میں نے اس کو ایک اچھی خاصی انکریمنٹ سمجھا تھا کیونکہ پرائمری سکول میں مجھے خرچنے کو اٹھانی ملا کرتی تھی۔ کنٹین پر رش دیکھ کر میں لوٹ پڑا ہوں۔ اتنے رش میں کچھ خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ میں نے خالی پیٹ کے ساتھ شرقی گراؤنڈ کی طرف چلنا شروع کر دیا ہے۔ ارادہ یہ ہے کہ تھوڑی دیر بعد آؤں گا تو شاید رش کم چکا ہو۔ چھوٹے گراؤنڈ میں کیا دیکھتا ہوں کہ مالٹے کے درختوں کی لائن کے پار پانی کی ٹینکی کے پاس چھولوں کی ایک ریڑھی لگی ہوئی ہے۔ بھیڑ یہاں بھی کافی ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ خریداری ہی ممکن نہ ہو۔ میں ایک روپے کہ کھٹی چٹنی سے لبریز چھولوں کی ایک پلیٹ لیتا ہوں اور ساتھ بنی ہوئی پانی کی ایک چھوٹی سی حوضی میں پاؤں لٹکا کر بھوک مٹانا شروع کر دیتا ہوں۔ چھولے بیچنے والا یہ چاچا ملازم حسین ہے جو بہت دور یاروخیل سے ریڑھی گھسیٹ کر سکول لاتا ہے۔
بچوں کی ایک بڑی تعداد کھیلوں کے میدان میں موجود ہے۔اگرچہ کی گرمیوں کا زور ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی گرمی موجود ہے اور اس کی تلخی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ گرمی کے باوجود لڑکے فٹبال، کرکٹ اور ہاکی کھیلنے میں مصروف ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے پہلی تفریح تین پیریڈز کے بعد اور دوسری بڑی تفریح چھ پیریڈز کے بعد ہوا کرتی تھی۔ دوسری تفریح کے بعد دو پیریڈز کے بعد چھٹی ہوا جایا کرتی تھی۔ پہلے دن میں اپنی لال رنگ کی سائیکلی نکال کر جب جامع ہائی سکول کے ساتھ والی سڑک پر گھر کی طرف رواں دواں تھا تو ایک قسم کا احساسِ تفاخر میرے من میں موجیں مار رہا تھا کہ اب ہم بھی ماڈلین بن چکے ہیں۔ (جاری ہے)