سنٹرل ماڈل سکول میں گزارے گئے لمحات کی یادیں ہلکی سی دستک سے کھلتی چلی جا رہی ہیں۔ بھولے بسرے مناظر جو لاشعور کی اتھاہ گہرائیوں میں سو رہے تھے اچانک جاگ اُٹھے ہیں اور شعور کے روشن دان میں آ موجود ہوئے ہیں۔ خوبصورت یادیں قطار اندر قطار نیلے پیلے لبادوں میں ملبوس مجھے ملنے کو بیتاب کھڑی ہیں۔
یہ جنوری کا مہینہ ہے ۔ سردی زوروں پر ہے۔ زمیں آسمان دھند کی دبیز چادر میں چھپے ہوئے ہیں۔ کلاس میں ساٹھ واٹ کا ایک دھندلا سا بلب ٹمٹما رہا ہے اور اس کی مٹیالی روشنی میں عملِ تدریس جاری ہے۔ دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا گماں ہے۔ ہم ساتویں جماعت میں اردو پڑھ رہے ہیں۔ اب کے اردو پڑھانے کی ذمہ داری روایات کے پابند ، بلند قامت ، خاموش طبع سہراب خان صاحب کے سر ہے۔ انہوں نے ایک موٹی سی گرم لوکار اوڑھ رکھی ہے اور پھر بھی سردی سے سکڑے ہوئے کلاس میں ادھر اُدھر چل پھر کر کتاب سے سبق پڑھا رہے ہیں۔ گیلری کے دوسری طرف بی سیکشن میں شاید وحیدالزمان یا پھر یعقوب خان صاحب بھی بلند آواز لیکچر دے رہے ہیں۔ باہر کی شدید سردی کے باوجود کمرے میں چالیس ننھے منے جسموں کی وجہ سے فضا مرطوب ہے۔ہم ایک دوسرے میں گھسے جا رہے ہیں۔ جسموں کی قربت سردی کے احساس کو رفع کرنے کا باعث ہے۔ تفریح کے پیریڈ میں مَیں ، مقصود اور افتخار نہر کی طرف جا رہے ہیں۔ سکول اور نہر کے درمیان نہ کوئی دیوار حائل ہے اور نہ ہی کوئی پٹڑی۔ نہر بندی کی وجہ سے نہر کا پانی بہت نیچے جا چکا ہے۔ محکمہ مواصلات کا کھمبا دھند میں ڈوبا ہوا ہے۔ نہر کے دوسری طرف ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے درخت بھی آج نظر نہیں آ رہے۔ ہم تینوں پتھر اُٹھا کر نہر کے دوسرے کنارے پر پھینک رہے ہیں۔ جس کا پتھر دور سڑک پر جاتا ہے اس کو ایک اضافی پوائنٹ مل جاتا ہے۔
ایک اور منظر میں ہماری کلاس یا پھر شاید اور کلاسیں بھی میلہ دیکھنے چار دیواری کی طرف جا رہی ہیں۔ ہمارے سکول کے بچوں نے وہاں پی ٹی شو دکھانا ہے۔ بچے پی ٹی ٹیچرز عبدالعزیز خان اور غلام رسول صاحب کی زیرِ سرپرستی خاموشی سے نہر کے ساتھ جانبِ شمال گامزن ہیں۔ نہر کے پل پر پہنچ کہ پی ای ٹی عبدالعزیز خان نے پکوڑے پیچنے والی ایک بوڑھی خاتون کی بارے میں ایک دلچسپ فقرہ کسا ہے جس سے تمام بچے کھلکھلا کر ہنس رہے ہیں۔
ایک اور منظر میں سردیوں کی دھوپ چار سو بچھی ہوئی ہے۔ ہم چھوٹے گراؤنڈ میں سٹیج کے شمال کی طرف اسلامیات کا پیریڈ لے رہے ہیں۔عثمان حیدری صاحب نے ہمیں کتاب پڑھنے پر لگا دیا ہے اور خود کرسی پر بیٹھے گہری سوچوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ہمارا چہروں کا رُخ جنوب کی طرف ہے اور استاد جی کا شمال کی طرف۔ شمال کی طرف سے تیز زمستانی ہوا چل رہی ہے جو حیدری صاحب کے سفید رِیش
چہرے پر چھروں کی طرح برس رہی ہے۔ دور مغرب میں کانوں اور کُوندر کو آگ لگائی گئی ہے جس کی جلی ہوئی راکھ سکول کے میدان میں آہستہ آہستہ گر رہی ہے۔
یادوں کی کتاب کا ایک اور ورق اُلٹتا ہے۔ اپریل مئی کے مہینے چل رہے ہیں۔ گرمی زور پکڑ رہی ہے۔ رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ کنٹین بند ہے۔ سکول کے شمالی گیٹ کے باہر دائیں طرف ایک سموسوں والا ٹھنڈے سموسے ٹکٹوں کی طرح بیچ رہا ہے۔ جانے اُس زمانے میں ہمیں بھوک اتنی کیوں زیادہ لگا کرتی تھی کہ ہماری پوری کلاس اس کے سارے سموے پل بھر میں ختم کر دیتی ہے۔
موسم بدل رہے ہیں، منظر پر منظر ابھرتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ چہرے جن کے ساتھ برسوں ایک چھت تلے گزارے تھے کہاں کہاں بکھر گئے ۔ کیا اب بھی جب سرد راتوں میں تیز ہوائیں چلتی ہوں گی یا ساون کے رومانوی موسم میں کالے بادل چھاجوں بھری برساتیں برساتے ہوں گے تو کیا کبھی ۔ ۔ ۔ ۔کبھی چند ساعتوں کے لیئے وہ موتیوں کی طرح وقت کی راکھ تلے دبے لمحات ان کے پختہ ذہنوں کے ہمہ وقت مصروف رہنے والے گوشوں میں گدگدی کرتے ہوں گے؟؟؟؟؟؟؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...