شیزوفرینیا ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً ایک فیصد افراد کسی ایک وقت میں اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح عورتوں اور مردوں میں برابر ہے۔شہروں میں رہنے والوں کو اس بیماری کے ہونے کا امکان گاؤں میں رہنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے پہلے یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے لیکن اس کے بعد کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔اس بیماری کے شروع ہونے کا امکان سب سے زیادہ پندرہ سے پینتیس سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔
شیزوفرینیا کی علامات کس طرح کی ہوتی ہیں؟
شیزوفرینیا کی علامات دو طرح کی ہوتی ہیں، مثبت علامات اور منفی علامات۔
مثبت علامات (Positive symptoms)
ان علامات کو مثبت علامات اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ صحت کی حالت میں نہیں تھیں اور بیماری کی حالت میں نظر آنے لگتی ہیں۔ان میں مندرجہ ذیل علامات شامل ہیں۔
ہیلوسینیشنز (Hallucinations)
اگر آپ کو کسی شےیا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو آوازیں سنائی دینے لگیں تواس عمل کو ہیلوسی نیشن کہتے ہیں۔شیزوفرینیا میں سب سے زیادہ مریض کو جس ہیلوسی نیشن کا تجربہ ہوتا ہے وہ اکیلے میں آوازیں سنائی دینا ہے۔ مریض کے لیے یہ آوازیں اتنی ہی حقیقی ہوتی ہیں جتنی ہمارے لیے ایک دوسرے کی آوازیں ہوتی ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ یہ آوازیں باہر سے آ رہی ہیں اور کانوں میں سنائی دے رہی ہیں، چاہے کسی اور کو یہ آوازیں نہ سنائی دے رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ آوازیں آپ سے بات کرتی ہوں یا آپس میں باتیں کرتی ہوں۔
بعض مریضوں کو چیزیں نظر آنے، خوشبوئیں محسوس ہونے یا ایسا لگنے کہ جیسے کوئی انھیں چھو رہا ہے ، کے ہیلوسی نیشن بھی ہوتے ہیں لیکن یہ نسبتاً کم ہوتے ہیں۔
ڈیلیوزن (Delusions)
ڈیلیوزن ان خیالات کو کہتے ہیں جن پہ مریض کا مکمل یقین ہو لیکن ان کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ خیالات حالات و واقعات کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے یا غلط فہمی کا شکار ہو جانے کی وجہ سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مریض کو اپنے خیال پہ سو فیصد یقین ہوتا ہے لیکن اورتمام لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کا خیال غلط ہے یا عجیب و غریب ہے۔
ڈیلیوزن کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگوں کو لگتا ہے کہ دوسرے لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں، انھیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیِں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ ٹی وی یا ریڈیو پہ ان کے لیے خاص پیغامات نشر ہو رہے ہیں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ کوئی ان کے ذہن سے خیالات نکال لیتا ہے، یا ان کے ذہن میں جو خیالات ہیں وہ ان کے اپنے نہیں ہیں بلکہ کسی اور نے ان کے ذہن میں ڈالے ہیں۔بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ کوئی اور انسان یا غیبی طاقت ان کو کنٹرول کر رہے ہیں، ان سے ان کی مرضی کے خلاف کام کرواتے ہیں۔
خیالات کا بے ربط ہونا (Muddled thinking or Thought Disorder)
مریضوں کے لیے کاموں یا باتوں پہ توجہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ مریض اخبار پڑھنے پہ یا ٹی وی دیکھنے پہ پوری توجہ نہیں دے پاتے، اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتے یا اپنا کام پوری توجہ سے نہیں کر پاتے۔مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے خیالات بھٹکتے رہتے ہیں اور ان کے خیالات کے درمیان کوئی ربط نہیں ہوتا۔ ایک دو منٹ کے بعد ان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ چند لمحے پہلے کیا سوچ رہے تھے۔ بعض مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے دماغ پہ ایک دھند سی چھائی ہوئی ہے۔
منفی علامات (Negative symptoms)
منفی علامات ان باتوں کو کہتے ہیں جو صحت کی حالت میں موجود تھیں لیکن اب بیماری کی حالت میں موجود نہیں ہیں۔ حالانکہ منفی علامات اتنی نمایاں نہیں ہوتیں جتنی کہ مثبت علامات ہوتی ہیں لیکن مریض کی زندگی پہ یہ بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ؛
ان کی زندگی میں دلچسپی، توانائی، احساسات سب ختم ہو گئے ہوں۔ مریضوں کو نہ کسی بات سے بہت خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔
ان کے لیے کسی بات یا کام پہ توجہ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان میں بستر سے اٹھنے یا گھر سے باہر جانے کی خواہش بھی ختم ہو جاتی ہے۔
مریضوں کے لیے نہانا دھونا، صفائی ستھرائی رکھنا یا کپڑے بدلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
مریض لوگوں سے ملنے جلنے سے کترانے لگتے ہیں، ان کے لیے کسی سے بات کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
کیا شیزوفرینیا کے ہر مریض میں یہ تمام علامات موجود ہوتی ہیں؟
ضروری نہیں کہ شیزوفرینیا کے ہر مریض میں تمام علامات موجود ہوں۔ بعض لوگوں کو صرف آوازیں آتی ہیں لیکن ان میں منفی علامات نہیں ہوتیں۔ بعض مریضوں کو صرف ڈیلیوزن ہوتے ہیں لیکن ان کے خیالات بے ربط اور الجھے ہوئے نہیں ہوتے۔ اگر کسی مریض کو صرف منفی علامات ہوں اور بےربط خیالات ہوں تو بعض دفعہ اس کے آس پاس کے لوگوں کو سالوں تک احساس نہیں ہوتا کہ اسے شیزوفرینیا کی بیماری ہے ۔
بیماری ہونے کا احساس نہ ہونا (Insight)
شیزوفرینیا کے بہت سے مریضوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ انھیں کوئی بیماری ہے۔ وہ سمجھتے رہتے ہیں کہ باقی تمام لوگ غلط ہیں اور ان کی بات ہی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔
ڈپریشن
• جن لوگوں کو شیزو فرینیا پہلی دفعہ شروع ہوا ہو علاج شروع ہونے سے پہلے ان میں سے تقریباً آدھے لوگوں کو ڈپریشن ہوتا ہے۔
جن لوگوں میں شیزوفرینیا کی علامات چلتی رہتی ہیں اور پوری طرح ختم نہیں ہوتیں ان میں سے تقریباً پندرہ فیصد لوگوں کو ڈپریشن ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ڈاکٹر غلطی سے ان کو منفی علامات سمجھ لیتے ہیں اور ڈپریشن کی تشخیص نہیں کر پاتے۔
شیزوفرینیا کیوں ہو جاتا ہے؟
ابھی تک ہمیں یقین سے نہیں معلوم کہ شیزو فرینیا کیوں ہوتا ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مختلف لوگوں میں وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔
جینز (Genes)
کسی شخص کو شیزوفرینیا ہونے کا تقریباً پچاس فیصد خطرہ اس کی جینز کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کون سی جینز اس کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے خاندان میں کسی کو شیزوفرینیا نہ ہو ان میں اس بیماری کے ہونے کا امکان تقریباً ایک فیصد ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے والدین میں سے ایک کو شیزو فرینیا ہو ان کو اس بیماری ہونے کا خطرہ تقریباً دس فیصد ہوتا ہےاور ہمشکل جڑواں بچوں میں سے ایک کو اگر یہ بیماری ہوتو دوسرے کو شیزوفرینیا ہونے کا امکان تقریباً پچاس فیصد ہوتا ہے۔
دماغی کمزوری
دماغ کے سکین سے پتہ چلتا ہے کہ کہ شیزوفرینیا کے بعض مریضوں کے دماغ کی ساخت عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ مریضوں کے دماغ کی نشو ونما مختلف وجوہات کی بنا پہ صحیح نہیں ہوئی ہوتی مثلاً اگر پیدائش کے عمل کے دوران بچے کے دماغ کو آکسیجن صحیح طرح سے نہ مل پائےیا حمل کے شروع کے مہینوں میں ماں کو وائرل اینفیکشن ہو جائے۔
منشیات اور الکحل
بعض دفعہ شیزوفرینیا منشیات کے استعمال کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ ان منشیات میں ایکسٹیسی ، ایل ایس ڈی، ایمفیٹامین اور کریک کوکین شامل ہیں۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہے کہ ایمفیٹامین سے نفسیاتی بیماری پیدا ہوتی ہے جو اس کا استعمال بند کرنے سے ختم ہو جاتی ہے۔ہمیں اب تک وثوق سے یہ تو نہیں معلوم کہ ایمفیٹامین سے لمبے عرصےتک چلنے والی نفسیاتی بیماری ہوتی ہے کہ نہیں لیکن جن لوگوں میں ایسی بیماری کا پہلے سے خطرہ ہو ان میں اس کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ جن لوگوں کو پہلے سے شیزوفرینیا کی بیماری ہو اگر وہ الکحل یا منشیات استعمال کریں تو ان کے مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔
اس بات کا قوی ثبوت ریسرچ سے موجود ہے کہ چرس کے استعمال سے شیزوفرینیا میں مبتلا ہونے کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔اگر کسی نے کم عمری میں چرس استعمال کرنا شروع کی ہو تو یہ خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
ذہنی دباؤ
اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ ذہنی دباؤ سے شیزوفرینیا ہو سکتا ہے، لیکن یہ ضرور دیکھنے میں آیا ہے کہ شیزوفرینیا کی علامات کی شدت بڑھنے سے فوراً پہلے اکثر ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہوتا ہے۔یہ کسی ناگہانی واقعے مثلاً گاڑی کے ایکسیڈنٹ یا کسی کے انتقال کے صدمے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور یا کسی طویل المیعاد وجہ مثلاً گھریلو تنازعات اور جھگڑوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ۔
خاندانی مسائل
خاندانی مسائل کی وجہ سے کسی کو شیزوفرینیا نہیں ہو تا، لیکن جس کو شیزوفرینیا ہو ان مسائل کی وجہ سے اس کی بیماری مزید خراب ضرور ہو سکتی ہے۔
بچپن کی محرومیاں
جن لوگوں کا بچپن بہت اذیت ناک اور محرومیوں سے بھرپور گزرا ہو اور دوسری نفسیاتی بیماریوں کی طرح ان لوگوں میں شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
کیا یہ بیماری کبھی ٹھیک ہو سکتی ہے؟
شیزوفرینیا کے بہت سے مریضوں کو کبھی اسپتال میں داخلے کی ضرورت پیش نہیں آتی، وہ کام کر سکتے ہیں اور اچھی گھریلو زندگی گزار سکتے ہیں۔
• تقریباً بیس فیصد لوگ بیماری کے پہلے دورے کے پانچ سال کے اندر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
• تقریباً ساٹھ فیصد لوگ بہتر ہو جاتے ہیں لیکن ان میں کچھ نہ کچھ علامات موجود رہتی ہیں۔کسی وقت ان کی یہ علامات اور بھی بگڑ جاتی ہیں۔
• بیس فیصد لوگوں میں شدید نوعیت کی علامات موجود رہتی ہیں۔
اگر علاج نہ کرایا جائے تو کیا ہوگا؟
شیزوفرینیا کے مریضوں میں خود کشی کا امکان عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ جن مریضوں میں شیزوفرینیا کی شدید علامات موجود ہوں، جن کو ڈپریشن ہو گیا ہو، یا جو علاج چھوڑ چکے ہوں ان میں خودکشی کا خطرہ اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ شیزوفرینیا شروع ہونے کے بعد علاج میں جتنی تاخیر کی جائے اتنا ہی زندگی پہ اس کابرا اثر زیادہ ہوتا ہے۔
اگر تشخیص جلدی ہو جائے اور بیماری شروع ہونے کے بعد جلد از جلد علاج شروع ہو جائےتو:
• اسپتال میں داخلے کی ضرورت کم پیش آتی ہے
• گھر میں انتہائی نگہداشت کی ضرورت کم پڑتی ہے
• اگر اسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑے تو کم دن داخل رہنا پڑتا ہے
• اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ مریض کام کر سکے اور خود مختار زندگی گزار سکے۔
کیا دوا لینا ضروری ہے؟
دوا لینے سے:
• ہیلوسی نیشن اور ڈیلیوزن آہستہ آہستہ کم ہوتے جاتے ہیں۔ عام طور سے اس میں کئی ہفتے لگتے ہیں۔
• سوچنے کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے۔
• زندگی میں امنگ اور دلچسپی بڑھتی ہے اور اپنا خیال خود رکھنے کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے۔
دوا کس طرح لی جاتی ہے؟
• عام طور سے دوا گولیوں، سیرپ یا کیپسول کی شکل میں لی جاتی ہے۔
• جن لوگوں کے لیے دوا روزانہ لینا مشکل ہوتا ہے ، وہ دوا ایک ایسے انجیکشن کی صورت میں بھی لے سکتے ہیں جسے دو سے چار ہفتے میں صرف ایک دفعہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ اس کو ڈیپو اینجکشن کہا جاتا ہے۔
ٹپیکل اینٹی سائیکوٹک ادویات
یہ ادویات بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں دریافت ہوئی تھیں اور تب سے استعمال ہو رہی ہیں۔ اس گروپ میں ہیلوپیریڈال، ٹرائی فلو پیرازین، اور فلوپینٹکزال وغیرہ شامل ہیں۔ان کے مضر اثرات میں پارکنسنز کی بیماری جیسے مضر اثرات مثلاً ہاتھوں پیروں میں سختی یا کپکپی ہوسکتے ہیں۔ بیچینی ہوسکتی ہے۔ جنسی کمزوری ہوسکتی ہے۔ ہونٹوں ، منہ یا زبان کی مستقل حرکت، جسےٹارڈائیو ڈسکائنیزیا کہتے ہیں، ہو سکتی ہے ۔
اے ٹپیکل اینٹی سائیکوٹک ادویات
پچھلے دس سالوں میں شیزوفرینیا کی کئی نئی ادویات دریافت ہوئی ہیں۔ انھیں اے ٹپیکل اینٹی سائیکوٹکس کہا جاتا ہے۔ ان میں رسپیریڈون، اولینزاپین، اور ایریپپرازول وغیرہ شامل ہیں۔ ان دواؤں سے پارکنسنز کی بیماری جیسے مضر اثرات ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ ان سے منفی علامات بھی بہتر ہو سکتی ہیں جو عام طور سے ٹپیکل دواؤں سے بہتر نہیں ہوتیں۔بہت سے لوگ جو نئی دوائیں استعمال کرتے ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ ان سے مضر اثرات پرانی دواؤں کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔اے ٹپیکل اینٹی سائیکوٹک ادویات کے مضر اثرات میں غنودگی اور سستی محسوس ہونا، وزن کا بڑھنا، جنسی عمل میں مشکلات ہونا اور ذیابطیس کا خطرہ بڑھ جانا شامل ہیں۔ زیادہ ڈوز میں لینے سے ان سے بھی پارکنسنز کی بیماری جیسے مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ کو دوا سے مضر اثرات ہو رہے ہوں تو اپنے ڈاکٹر کو اس کے بارے میں ضرور بتائیں۔ بہت دفعہ دوا کا ڈوز کم کرنے سے، دوا بدلنے سے یا مضر اثرات کو توڑ کرنے والی دوا ساتھ میں لینے سے اینٹی سائیکوٹک دوا کے مضر اثرات کم یا ختم ہو جاتے ہیں۔
کلوزاپین
• یہ ایک اے ٹپیکل اینٹی سائیکوٹک دوا ہے اور واحد اینٹی سائیکوٹک ہے جس کے لینے سے شیزوفرینیا کے ان مریضوں کو بھی افاقہ ہو سکتا ہے جنھیں کسی اور دوا سے فائدہ نہیں ہوتا۔ اس دوا سے شیزوفرینیا کے مریضوں میں خود کشی کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔
• کلوزاپین کے مضر اثرات بھی اے ٹپیکل اینٹی سائیکوٹک ادویات کی طرح کے ہی ہیں لیکن اس سے منہ میں تھوک زیادہ بنتا ہے۔
• کلوزاپین سے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اس سے ہڈیوں کے گودے، جہاں خون کے خلیات بنتے ہیں،پہ برا اثر پڑتا ہے۔اس سے خون میں سفید خلیات کی کمی ہو جاتی ہے جس سے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جو مریض کلوزاپین لے رہے ہوں انھیں شروع کے اٹھارہ ہفتوں میں ہر ہفتے اور اس کے بعد ہر چار ہفتوں پہ خون کا ٹیسٹ کرانا پڑتا ہےجب تک وہ کلوزاپین لے رہے ہوں۔
اینٹی سائیکوٹک دوا کتنے عرصے کے لیے لینی پڑتی ہے؟
• ان ادویات کو لینے والے تقریباً اسّی فیصد مریضوں کو ان سے فائدہ پہنچتا ہے
• ان کے لینے سے بیماری بہتر تو ہو جاتی ہے لیکن جڑ سے ختم نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ دوا سے فائدہ ہوجانے کے بعددوبارہ بیماری کی علامات واپس آ جاتی ہیں۔اگر مریض بہتر ہونے کے باوجود دوا لیتے رہیں تو اس کا خطرہ کافی کم ہو جاتا ہے۔
• اگر مریض اپنی دوا بند کرنا چاہے تو اسے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے اور دوا ڈاکٹر کے مشورے سے آہستہ آہستہ کم کرنی چاہیے تا کہ اگر تھوڑی بہت علامات دوبارہ آنا شروع ہوں تو فوراً پتہ چل جائے قبل اس کے کہ طبیعت پوری طرح سے خراب ہو جائے۔
• اگر آپ اپنی دوا طبیعت بہتر ہونے کے فوراً بعد بند کردیں تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ شیزوفرینیا کی علامات فوراً تو نہیں لیکن اگلے تقریباً چھ مہینے میں واپس آ جائیں گی۔
فیملی کو مریض کے علاج میں شریک کرنا
اس کا مقصد خاندان میں کسی کو مریض کی بیماری کا ذمہ دار ٹھہرانا نہیں۔ مریض کے رشتہ داروں سے ملنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرٰیض اور اس کے گھر والوں کو بیماری کا مقابلہ کرنے میں مدد دی جا سکے۔ ان میں مریض کے گھر والوں کو شیزو فرینیا کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور ، یہ بتایا جاتا ہے کہ گھر میں اگر کسی کو یہ بیماری ہو تو اس کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے اور بیماری کی علامات کی وجہ سے گھر میں جو مسائل کھڑے ہوتے ہیں ان کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔
اپنی مدد آپ
• یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کو بیماری کے شروع میں کس طرح کی علامات ہوتی ہیں مثلاً نیند یا بھوک خراب ہو جانا، گھبراہٹ رہنا، نہانا یا کپڑے بدلنا چھوڑ دینا ، تھوڑا بہت شک شبہ یا خوف پیدا ہو جانا اور کبھی کبھی اکیلے میں آوازیں سنائی دینے لگنا۔اگر شروع میں ہی ان علامات کو پہچان کر علاج شروع کر دیا جائے تو عموماً طبیعت جلدی بہتر ہو جاتی ہے اور دوا کا ڈوز بھی کم دینا پڑتا ہے۔
• ان وجوہات سے بچنا چاہیے جن سے طبیعت خراب ہونے کا اندیشہ ہو مثلاً ایسی صورتحال جس میں ذہنی دباؤ بڑھ جائے جیسے لوگوں سے بہت زیادہ ملنا، منشیات یا الکحل کا استعمال ، گھر والوں، دوستوں یا پڑوسیوں سے جھگڑا کرنا۔
• یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کی آوازیں کن طریقوں سے کم ہوتی ہیں مثلاً لوگوں سے ملنا جلنا، مصروف رہنا، اپنے آپ کو یاد دلانا کہ یہ آوازیں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتیں۔
• کوئی ایسا بااعتماد شخص ذہن میں رکھیں جس کو بیماری شروع ہونے پر آپ یہ بتا سکیں کہ آپ کی طبیعت اب خراب ہو رہی ہے۔
• اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھیں۔ اچھی غذا کھائیں جس میں پھل اور سبزیاں شامل ہوں۔ سگریٹ نہ پیئیں، اس سے آپ کے پھیپھڑے، آپکا دل،دوران خون کا نظام اور معدہ خراب ہوتے ہیں۔
• روزانہ کچھ نہ کچھ ورزش کریں چاہے یہ صرف بیس منٹ روزانہ پیدل چلنا ہی کیوں نہ ہو۔ باقاعدگی سے بھرپور ورزش کرنے سے انسان کا موڈ بھی بہتر ہوتا ہے۔
گھر والوں کے لیے ہدایات
اگر گھر میں کسی فرد کو شیزو فرینیا شروع ہو جائے تو باقی گھر والوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ ان کے بچے، ان کے شوہر یا بیوی، یا ان کے بہن بھائی کو کیا ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی باتیں کہنا شروع کردیں جو باقی گھر والوں کو عجیب و غریب لگیں یا ان کی سمجھ میں نہ آئیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا رویہ عجیب و غریب ہو جائے اور وہ ہر ایک سے بات کرنا بند کردیں۔ ہو سکتا ہے گھر والے ان علامات یا اس بیماری کے لیے اپنے آپ کو الزام دینے لگیں اور یہ سمجھیں کہ یہ میری غلطی سے ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ فکر ہو کہ کہیں خاندان میں کسی اور کو یہ بیماری نہ ہو جائے یا آپ کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو کہ مریض کا علاج کیسے کروائیں۔
مریض کے ساتھ جھگڑا نہ کریں اور اس سے بحث میں نہ الجھیں، اس سے اس کی بیماری خراب ہو گی۔ پر سکون رہیں۔ اگر آپ شیزوفرینیاکے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو اپنے مریض کے سائیکائٹرسٹ سے ضرور ملیں۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...