( روحی بانو کی نذر)
اک دھان پان سی لڑکی
کبھی مجھے دائیں نظر آتی
( وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتی تھی
مجھ سے دو کلاسیں آگے تھی وہ
نفسیات پڑھتی تھی پر خود بھی پگلی تھی )
کبھی مجھے بائیں نظر آتی
( وہ نیلا گنبد کے پاس رہتی تھی
وہ مکھن توس چباتی ، ہوا میں بال لہراتی
بوتلوں کے ڈھکنوں سے ' بارہ ٹین ' کھیلتی
چھلاوے کی طرح کالج جاتی تھی )
اور تو اور وہ میرے گھر میں بھی گُھس آتی
کبھی ' فاروق ضمیر' کے ساتھ
کبھی ' عظمیٰ گیلانی ' کے ساتھ
کبھی ' نذیر حسینی ' کے ساتھ
کبھی ' عطیہ خیام ' کے ساتھ
کبھی ' مشکل اور لمبے نام ' والے کے ساتھ
کبھی ' فریحہ جبیں ' کے ساتھ
کبھی ' محمود علی ' کے ساتھ
کبھی ' ریحانہ صدیقی ' کے ساتھ
کبھی ' عابد علی ' کے ساتھ
کبھی ' بابرا شریف ' کی انگلی تھامے
کبھی ' شکلیل ' کے ساتھ
کبھی ' خالدہ ریاست ' کے ساتھ
' کرن ' بن کر ہر اداس اندھیرے کو اجالنے
وہ چلی آتی تھی میرے گھر میں
ہر کسی کے گھر میں
اور میں تو کیا ، کوئی نہ روک پاتا تھا اسے
پھر اک واورولا آیا جس نے اس کا بیٹا اُچک لیا
اور وہ سچ میں پگلی ہو گئی ، شُدائن بن گئی
فاروق ضیمیر ۔ ۔ ۔ عظمیٰ گیلانی ۔ ۔ ۔ عابد علی سب ڈھونڈتے رہے
میں بھی کبھی دائیں دیکھتا ، کبھی بائیں اور کبھی گھر میں
نیلا گنبد سیاہ ہو چکا تھا ، گورنمنٹ کالج جامعہ ہو جامد ہو چکا تھا
اور انارکلی میں میرا گھر بھی تاریک تھا ، کوئی ' کرن ' نہ تھی
وہ تو اِک ایسے ' حیرت کدے ' میں جا بسی تھی
جہاں ' شیزیوفرینا ' کی حیرتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔
اسے آئینوں میں اپنا عکس نظر نہ آتا
خون بھری لاش نظر آتی ، آنول سے کٹے اِک بچے کی
بچہ جسے اس نے خود جنما تھا پر ٹکڑے اوروں نے کئے تھے
ایسوں نے ، جنہیں وہ تو کیا ، ہم بھی اب تک پہچان نہیں پائے
اب شیزیوفرینا ، 'حیرت کدہ ' ، ' فائوٹین ہائوس ' اور ' کرن ' سب گڈ مڈ ہیں
شیزیوفرینا کی حیرتیں ہوتی ہی کچھ ایسی ہیں
کہ دل ، دماغ ، جگر سب چبا لیتی ہیں ، اس کا چبا لیا تو کیا
میں ایسا ہوتے پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی بانو : پاکستان کی ایک اعلیٰ پائے کی ٹی وی آرٹسٹ و فلمی اداکارہ تھی اور ہم سب کے دلوں میں اب بھی زندہ ہے ۔
اس کے بیٹے کو ۲۰۰۵ ء میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا جس پر اس کا دماغ الٹا اور وہ شیزیوفرینا کی مریضہ بن گئی ۔ سال ہا سال فائوٹین ہائوس ( شیزیوفرینا کے مریضوں کی لاہور میں علاج گاہ ) میں رہی ؛ اس مرض کے لئے جو دوائیں دی جاتی ہیں ان کا گردوں پر بہت منفی اثر پڑتا ہے ۔ اس کی موت بھی گردوں کے فیل ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
اس کے بیٹے کا قتل آج تک اسی طرح معمہ ہے جس طرح امتیاز علی تاج کا قتل ۔