انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے سازشی نظریات کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ ہر رنگ اور ذائقے کے سازشی نظریات عام ملیں گے مگر ان کی دو ایسی مثالیں ہیں جو خطرناک ہیں۔ ایک ویکسین کے بارے میں اور دوسرا کلائیمیٹ کی سائنس کے بارے میں۔ ان دونوں تحریکوں کی جڑ متعصب سیاسی اور معاشی نظریات ہیں اور ان کا پرچار کرنے والے غلط سائنس کے ذریعے عام لوگوں کا شکار کرتے ہیں اور وہ چیز جس پر تقریبا تمام سائنسدانوں کا اتفاق ہے اس کو نہ جاننے والوں کی نظر میں جھوٹ کے ذریعے متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایک نظر اس پر کہ اس قسم کے سازشی نظریات کا آسان نشانہ کون لوگ ہیں؟
آسٹریا اور برطانیہ میں دو مختلف سٹڈیز ہوئیں جس میں ایک سازشی تھیوری گھڑی گئی۔ اسے لوگوں کو بتا کر اس تھیوری کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ان کی رائے پوچھی گئی اور پھر ان لوگوں سے ان کے دنیا کے بارے میں مختلف حوالوں سے آراء لی گئیں۔ اس قسم کی ایک اور تحقیق آسٹریلیا میں ہوئی۔ ان سب تحقیقتات کی رپورٹس پوری تفصیل سے اس پوسٹ کے آخر میں دئے گئے لنکس میں۔
آسٹریا میں ریڈ بل مقبول انرجی ڈرنک ہے۔ وہاں پر گھڑی جانے والی سازشی تھیوری یہ تھی کہ یہ ڈرنک اصل میں فوجیوں کو آزادانہ سوچ سے محروم کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس کے اندر ایک کیمیکل ہے جس کے اثرات آج تک کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہیں۔ اس کا بنانے والا ہر ماہ ایک کروڑ یورو کی رشوت دیتا ہے تا کہ اسے بین نہ کیا جائے۔ 2001 میں ایک شخص کی موت اس کے زیادہ استعمال سے ہوئی تھی۔ اس کے استعمال سے طویل مدتی نقصان دہ اثرات کا ثبوت چوہوں پر کئے گئے تجربات سے ہو چکا ہے۔ لندن میں سازشی تھیوری سات جولائی کے حملوں کے بارے میں تھی جبکہ آسٹریلیا میں ایک سے زیادہ سوالات کا استعمال کیا گیا جس میں سے ایک یہ تھا کہ ایڈز کی بیماری امریکی حکومت نے سیاہ فام آبادی کے خاتمے کے لئے ایجاد کی۔
مختلف کی جانے والی تحقیقات کے پورے نتائج تو منسلک رپورٹس میں ہیں لیکن خلاصہ یہ ہے کہ کسی نئی سازشی تھیوری پر فوری یقین کرنے کے خصوصیات یہ ہیں۔
1۔ وہ پہلے سے دوسری سازشی تھیوریز پر یقین کرتا ہو گا۔ اگر کوئی چاند پر جانا، برمودا ٹرائنگل، خلائی مخلوق کی اڑن طشتریوں، نائن الیون یا اس قسم کی بہت سی اور سائنسی یا سیاسی معاملات پر سازشی نظریات کا حامل ہو گا تو امکان ہے کہ نئی گھڑی ہوئی تھیوری پر بھی یقین کر لے گا۔
2۔ توہمات پر یقین۔ علمِ نجوم، پامسٹری، پیرانارمل، روزمرہ کے توہمات، عاملوں وغیرہ پر یقین ہونا
3۔ سیاسی نظریات۔ اگر کوئی سیاسی سسٹم سے بے حد نالاں ہے۔ (اس میں ملکی اور عالمی دونوں نظام آتے ہیں) تو سازشی نظریات کا شکار ہو جانا آسان ہے۔ ایسے لوگوں کی پاور سٹرکچرز کے بارے میں سوچ سادہ ہوتی ہے۔
4۔ کرسٹلائیزڈ ذہانت۔ ذہانت کے دو حصے ہیں۔ ایک کو فلوئیڈ ذہانت کہتے ہیں اور ریزننگ اس میں آتی ہے۔ دوسرا کرسٹلائیزڈ ذہانت جو کہ پڑھ کر یا سن کر سیکھا ہوا علم۔ دونوں اہم ہیں اور کسی شخص کی کل ذہانت کے لئے ضروری۔ سازشی نظریات کا شکار ہونے والوں کی کرسٹلائیزڈ ذہانت تو اچھی ہو سکتی ہے لیکن فلوئیڈ عام طور پر کم ہوتی ہے۔
5۔ خود اعتمادی کی کمی۔ عام طور پر ایسے لوگوں کا خود پر اعتماد کم ہوتا ہے اور اپنے آس پاس ہونے والے تیزی سے بدلتی دنیا سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔
باقی عوامل اور ان سب کا اثر رپورٹس میں لیکن سب سے اہم اس میں پہلا نکتہ ہے۔
سازشی نظریات کا آغاز عام طور پر انفرادی طور پر اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی ایسی چیز پتہ لگے جو ایک شخص کے ورلڈ ویو کو چیلنج کرے۔ اس کی مثال گلوبل وارمنگ کے بارے میں رویہ ہے جو فری مارکیٹ اکانومی کو چیلنج کرتا ہے۔ سیاست کی بالکل دوسری طور طرف یعنی لبرل نظریات کے بارے میں جی ایم او سے متعلق سازشی نظریات بھی ایسی ہی ہیں۔ ایک بار اس قسم کی سوچ کا شکار ہو جانے والا پھر ایک ایک کر کے باقی نظریات کو اپنانا شروع کر دیتا ہے اور اصل دنیا میں واپسی کا راستہ مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔
تحقیق کرنے والوں نے اپنے خیالات کا ریورس ٹیسٹ بھی کیا۔ پہلے شرکت کرنے والے سے اس کے خیالات پوچھے، اس کی بنیاد پر اندازہ لگایا کہ گھڑی ہوئی سازشی تھیوری پر یقین کرنے کا اس کا کتنا امکان ہے۔ اس پر کوریلیشن اچھا نکلا۔ اس پر رویہ بدلنے کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ ابھی اس کا جواب کسی کے پاس نہیں، مگر اس رویے کا پھیلاؤ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اس قدر تیزی سے ہوا ہے کہ اس پر اب نفسیات کے شعبے میں تحقیق پر توجہ دی جا رہی ہے۔
اس بارے میں ساتھ لگی گرافک میں وہ تکینک ہے جو ہر قسم کے سائنسی اور سماجی نظریات کا رد کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور مؤثر ہے۔
برطانیہ اور آسٹریا میں ہونے والی تحقیق
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔