(قسط نمبر بارہ)
دو ہفتے کی جنگ میں خانہ کعبہ بڑی حد تک محفوظ رہا لیکن مسجد کے بہت سے حصے تباہ ہو گئے تھے۔ کئی مہینے اس کی مرمت میں لگے۔ تہہ خانے میں قابو کا علاقہ اس کے بعد کبھی بھی لوگوں کے لئے نہیں کھلا۔ اس سے اگلے کئی دنوں تک لاشوں کی سڑاند اور کیمیائی حملے کی باقی رہ جانے والی بو یہاں سے آتی رہی۔ صرف سعودی میڈیا یہاں آ سکتا تھا اور ان کو ہدایت کی گئی تھی کہ یہاں کی تباہی کی بات نہ کی جائے۔ سعودی حکومت اس واقعے کو اندرونی معاملہ کہہ کر اس سے جان چھڑوانا چاہتی تھی۔ صرف “عرب نیوز” نے اس نقصان پر خبر لگائی تھی۔ ان کے نمائندے نے بغاوت ختم کئے جانے کے چند گھنٹوں بعد اس جگہ کا معائنہ کیا تھا۔ اس آرٹیکل میں لکھا گیا کہ صفا مروہ کی گیلری میں نقصان سب سے زیادہ تھا۔ مروہ اور صفا کی مشرقی دیوار مکمل طور پر منہدم ہو گئی تھی۔ گولیوں کے نشان اور خول جابجا نظر آ رہے تھے۔ کوئی کوئی کھڑکی ہی بچی تھی۔ فانوس، ائیر کنڈیشنر اور پنکھے ملبے میں پڑے تھے۔ مطاف میں ایک ملٹری جیپ کھڑی تھی جو گولیوں سے چھلنی تھی۔ مسجد کے کئی گیٹ اڑا دئے گئے تھے۔ کچھ سیڑھیاں گر چکی تھیں۔ رپورٹر نے نیچے جانے کی کوشش کی تو تقریبا گیس کی وجہ سے بے ہوش ہونے لگے۔ ان کو وارننگ دی گئی کہ ابھی باغیوں کی طرف سے لگائے پھندے کلئیر نہیں ہوئے۔ باغیوں کا سامان، ان کی کھجوروں کے پیالے، پانی کی بوتلیں اور پھٹے ہوئے گدے وہیں پڑے تھے۔ سنگِ مرمر سیاہ ہو چکا تھا۔ گولیوں کے نشان ستونوں پر نمایاں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی ٹی وی پر جھیمان کو دکھایا گیا۔ ساتھ تبصرہ جاری تھا، “اب ہم آپ کو تاریخ کے بدترین شخص کو دکھا رہے ہیں۔ نہ ہم اس کو کبھی معاف کریں گے اور نہ ہی تاریخ”۔ پھر دوسرے قیدیوں کو دکھایا گیا۔ “انہوں نے جو دہشت پھیلائی ہے اور معصوم لوگوں کا جو خون بہایا ہے ۔۔ اور اپنا حق سمجھ کر بہایا ہے ۔۔ اس کا بدلہ جہنم کی آگ ہے۔ یہ خدا اور اس کے رسول سے لڑنے آئے تھے۔ دین اور شریعت سے لڑنے آئے تھے۔ ان کو اپنے کئے کی سزا ضرور ملے گی”۔
پھر محمد بن عبداللہ کی لاش دکھائی گئی۔ ساتھ اناوٴنسر کی آواز، “یہ وہ جھوٹا مہدی ہے۔ یہ جھیمان کے ساتھ تھا۔ یہ قاتل ہے، اس نے بغاوت کی تھی، اب یہ مُردہ ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے دو روز بعد سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ ترکی جیل میں قیدیوں کے پاس گئے تو جھیمان کا موڈ بدل چکا تھا۔ جھیمان نے فقرے نے ان کو حیران کر دیا۔ “کیا آپ شاہ خالد سے سفارش کر سکتے ہیں کہ مجھے معاف کر دیا جائے؟”۔ ترکی کا جواب تھا، “معافی خدا سے مانگو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفائی کا عملہ خون اور گند کی چوبیس گھنٹے صفائی میں مصرف تھا۔ جمعرات 6 دسمبر 1979 کو شام سوا پانچ بجے شاہ خالد مسجد میں آئے۔ کعبہ کا طواف کیا، حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ سجدہ کیا۔ زم زم کے پانی کا گھونٹ پیا۔ مسجد میں فوجی اور مقامی عمائدین ہی تھے۔ مختصر خطاب کیا اور چلے گئے۔ یہ مناظر براہِ راست دنیا میں دکھائے گئے۔ دنیا بھر سے آنے والے پیغامات ان کا انتظار کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی حکومت میں برطرف کئے جانے والے سب سے پہلے شخص مکہ کے گورنر فواز تھے، جن کو علماء نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس سے دو روز بعد ملٹری اور سیکورٹی فورسز کے سینئیر عہدیداران کی باری تھی۔ ائر فورس کے سربراہ، چیف آف جنرل سٹاف سمیت کئی افسران ریٹائر کر دئے گئے۔ حکومت کے ترجمان کے مطابق ان تمام فیصلوں کا کوئی تعلق مکہ میں ہونے والے واقعے سے نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان باغیوں میں سے 63 کو سزائے موت دی گئی۔ 9 جنوری 1980 کو کاٹے جانا والا پہلا سر جھیمان کا تھا۔ یہ مکہ میں اتارا گیا۔ اس کے بعد محمد عبداللہ کے بھائی سید عبداللہ کی باری تھی۔ مصر سے آنے والے محمد الیاس اور ٹی وی پر رونے والے فیصل کا سر ریاض میں قلم کیا گیا۔ مدینہ، دمام، بریدہ، حائل، ابہا، تبوک میں یہ کارروائی ہوتی رہی۔ اس میں انتالیس سعودی، دس مصری، چھ یمنی، چند کویتی، عراقی اور سوڈانی تھے۔ دو لوگ کم عمری کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گئے۔ دو لوگ اس فہرست میں نہیں تھے۔ یہ امریکی سیاہ فام شہری تھے۔ امریکی سفارتخانے کے ان کے بارے میں 8 دسمبر کو رابطہ کیا تھا۔ ان کے بارے میں آخری دستاویز 19 جنوری کی ہے جس میں شہزادہ نائف نے امریکی سفیر کو آگاہ کیا تھا کہ ایک تو حراست میں ہی مر گیا تھا، دوسرا ابھی قید میں ہے۔ اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کا ریکارڈ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ خالد نے علماء سے جو وعدے کئے تھے، ان کو پورا کیا۔ وہ ایسا نہ کرنے کا نتیجہ جانتے تھے اور ایران کے انقلاب سے بھی سبق لے چکے تھے۔ شاہ فیصل کے شروع کئے گئے سوشل لبرلائزیشن کے پروگرام کو ختم کر دیا گیا۔ اصلاحات پلٹا دی گئیں۔ خواتین اناوٴنسر ٹی وی سے ہٹا دی گئیں۔ خواتین کی ملازمت پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ شہریوں کی اخلاقی حالت درست رکھنے کے لئے “الرئاسة العامة لهيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر” کا ادارہ مضبوط کیا گیا۔ اس کے پاس 2016 تک وسیع اختیارات رہے۔ سینما اور موسیقی کی دکانیں بند کر دی گئیں۔ نصابِ تعلیم تبدیل کر دیا گیا۔ سعودی نظریات کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے بھاری فنڈنگ دی گئی۔
اس تحریک سے وابستہ لوگوں کی گرفتاریاں بڑے پیمانے پر کی گئیں۔ ان کو جیلوں میں ڈالا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؎
سعودی حکومت نے جلد ہی ایک اور چیز دریافت کرنی تھی۔ صرف جیل میں ڈال دینا ذہن تبدیل نہیں کرتا۔ اصل مسئلے کو نظرانداز کرنا اور نئے شروع ہونے والے کچھ پروگرامز کا ملاپ دھماکہ خیز تھا۔ انہی نظریات نے واپس ریاست سے ٹکرانا تھا۔ 3 فروری 2009 کو سعودی عرب نے 85 افراد کی جو فہرست شائع کی، اس کا بیج بویا جا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی دوران، یہاں سے بہت دور، ان واقعات کی زنجیر سے منسلک، ایک خفیہ آپریشن جاری تھا۔ کچھ فوجی اپنے پڑوسی ملک کے سربراہ کے محل میں گھسے۔ اس محل میں رہنے والے، جس کو اپنا دوست سمجھ رہے تھے، آج ان دوستوں نے ان کے جسم میں گولیوں کا برسٹ اتار دیا۔
ظلم کا دور ختم کر دیا گیا۔ ظلم کا دور شروع ہو گیا۔