اُس جیل میں کوٹھی لگے ، قدیر کو یہ دسواں مہینہ اور نواں دن تھا ۔ سورج طلوع ہو چکا تھا جس کا اندازہ اس نے اپنی کال کوٹھری کے ننھے سے روشندان میں آتی ، گنتی کی ان چند کرنوں سے لگایا جو بس طلوع آفتاب کے وقت ہی اس کی کوٹھری میں گھڑی دو گھڑی کے لئے در آتی تھیں اور ننگی دیواروں اور فرش پر رینگتی پھر سے غائب ہو جاتیں تھیں اور اسے ان کو دوبارہ دیکھنے کے لئے اگلے چوبیس گھنٹے کا انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ یہ جیل کا وہ حصہ تھا ، جس میں موت کی سزا پائے قیدی کوٹھڑیوں میں بند تھے اور اپنی پھانسی کے منتظر ، اپنے شب و روز ایک ایسی تنہائی میں گزار تے تھے کہ ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ تنہا تھے ۔ اس کا وارڈن اس کے سامنے کھڑا تھا ۔ اس نے قدیر کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھمایا ۔ قدیر نے اس پر لکھی عبارت کو پڑھنا چاہا لیکن نیم تاریکی اور اپنی دن بدن کمزور ہوتی بینائی کی بنا پر وہ اسے پڑھ نہ سکا ۔ وارڈن نے اس کی مشکل کو سمجھتے ہوئے اسے بتایا کہ موت کی سزا کے خلاف کی گئی اس کی آخری اپیل بھی نامنظور کر دی گئی ہے اور جیسے ہی اس کو پھانسی دئیے جانے کے انتظامات بارے حکم موصول ہوا اس سے اگلی صبح اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا ۔
” یہ حکم کب موصول ہو گا ؟ “ ، قدیر نے وارڈن کی بات سن کر پوچھا ۔
”کسی وقت بھی ، شاید کل ہی ! “ ، وارڈن نے جواب دیا ، ” اب تم ہمارے لئے ایک ایسے مہمان ہو جس کو کسی وقت بھی رخصت جا سکتا ہے ۔ مجھے بتاﺅ ! کیا میں تمہارے لئے کچھ کر سکتا ہوں ؟ “
” کیا تم مجھ سے میری آخری خواہش پوچھ رہے ہو؟ “ ، قدیر نے اس کے دھندلے جُثے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
” نہیں وہ تو جیلر صاحب تم سے خود پوچھیں گے اور اسے قلم بند کراتے ہوئے اس کو پورا کریں گے ، وہ بھی اگر ان کے بس میں ہوا تو! “ ، وارڈن بولا ، ” یہ تو میں ایسے ہی اپنی طرف سے تم سے پوچھ رہا تھا ۔ “
وارڈن ایک نرم دل کا مالک انسان تھا اور جیل کے دوسرے ’ بندوبستیوں ‘ کے برعکس قیدیوں سے نسبتاً بہتر سلوک روا رکھتا تھا ، خاص طور پر جن کو کوٹھی لگ چکی ہو ۔
” میں کچھ دیر اس دریا کے بہتے پانی کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں جو کہیں نزدیک ہی بہتا ہے ۔ “ ، قدیر نے کہا ۔
” لیکن یہ تو ناممکن ہے کہ میں تمہیں جیل سے باہر لے کر جا سکوں ۔“ ، وارڈن نے اپنی معذوری ظاہر کی ۔
” میں یہ تو نہیں کہہ رہا کہ آپ مجھے جیل سے باہر لے کر جائیں ۔ “ ، قدیر نے سکون سے جواب دیا ، ” میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ بہتے بانیوں کو جی بھر کے دیکھ لوں جسے میں نے پچھلے نو سالوں سے نہیں دیکھا ۔ موت کی سزا ہونے کے بعد جب سے مجھے اس جیل میں لایا گیا ہے ، میں ہر رات ، جب ہر طرف ہو کا عالم ہوتا ہے ، بہتے پانیوں کی آواز سنتا ہوں تو پانی کی لہروں اور اس کی پتھروں سے ٹکراتی چھلوں کو دیکھنے کی میری خواہش میں ہر آنے والی رات کو اضافہ ہو جاتا ہے ۔ کیا دریا جیل کے بہت قریب سے گزرتا ہے اور کیا کہیں قریب ہی پانی کے بہاوٗ میں پتھر بھی حائل ہوتے ہیں ؟
” ہاں ! “ ، وارڈن نے روشندان والی دیوار کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا ، ” دریا اس دیوار کے پرلی طرف جنگلی جھاڑیوں کے ساتھ سے گزرتا ہے ۔ ( جیل کی دیوار کے ساتھ بڑے بڑے پتھر ڈال کر دیوار کودریا بردی سے بچانے کے لئے مزید محفوظ بنایا گیا ہے۔ پانی ان سے ٹکراتا ہے تو چھلیں بن کر شور بھی کرتی ہیں ۔ “
” تو پھر یہ تو آسان ہے ، آپ مجھے کچھ دیر کے لئے اس بیرک کی چھت پر لے جاﺅ ۔ میں وہیں سے دریا کو دیکھ کر اپنی آرزو پوری کر لوں گا ۔“ ، قدیر نے لجاجت سے کہا ۔
” میں ایسا کرنے سے بھی قاصر ہوں ۔ کوٹھی لگے قیدیوں کو یوں چھت پر لے جانے کی بھی مناہی ہے ۔ وہ کود کر بھاگنے یا ' آپ گھات ' کرنے کی کوشش بھی تو کر سکتے ہیں ۔ “ ، وارڈن نے ایک بار پھر معذوری کا اظہار کیا ، وہ جانے کے لئے مڑا تو قدیر بولا ؛
” میں ایسا نہیں کروں گا ۔ میں نے ایسا کرنا ہوتا تو قتل کرنے کے بعد میں خود کو پولیس کے حوالے نہ کرتا ۔ پولیس کے سامنے میرا پہلا اقبالی بیان ہی ساری عدالتوں کی آخری کاروائی تک ایک ہی رہا ہے ، نہ ایک لفظ زیادہ ، نہ ایک لفظ کم ۔ بہرحال میں آپ کی مجبوری کو بھی سمجھتا ہوں ۔ “
وارڈن نے گردن گھما کر ، بنا کچھ بولے ، قدیر کو نظر بھر کر دیکھا ؛ اسے قدیر کی بات میں سچائی کی پختگی نظر آئی ۔ اس جیل میں گزرے پچھلے دس ماہ کے دوران قدیر کا بطور قیدی اچھا رویہ بھی اس کے ذہن میں گھوم گیا البتہ اسے اس بات پر اکثر حیرت ہوتی تھی کہ اس نے قدیر کو کبھی عبادت گزاری کے عالم میں نہیں دیکھا تھا ۔ کچھ توقف کے بعد ، وہ بولا ؛
” میں وعدہ تو نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا کہ کسی طرح تمہاری یہ آرزو پوری کر سکوں ۔ ہاں اگر میں ایسا نہ کر سکا تو تم اسے اپنی آخری خواہش کے طور پر بھی تو پورا کروا سکتے ہو! “ ، یہ کہہ کر اس نے کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اورجب وہ باہر نکل کر قفل لگا رہا تھا تو اس نے سنا ۔
قدیر کہہ رہا تھا ؛ ” میری آخری خواہش اس سے الگ ہے ۔ بہتے پانیوں کو دیکھنے کی خواہش نہ بھی پوری ہو تو خیر ہے ۔ ویسے مجھے امید ہے کہ آپ میری آرزو ضرور پوری کریں گے ۔“
قدیر نے اس دیوار پر جہاں وہ چکنی مٹی کے ڈھیلے سے گنتی لکھ کر دنوں اور مہینوں کا حساب رکھتا تھا ، ایک دن کا اور اضافہ کیا اور لیکن اس بار اس نے اس پر ’ کاٹے‘ کا نشان بنا دیا ۔
رات کے سناٹے میں پہتے پانیوں کی آواز اور چند لمحوں کے لئے در آتی سورج کی کرنیں تو پہلے ہی اس کی ساتھی تھیں اب ان میں امید کی یہ کرن بھی شامل ہو گئی کہ شاید وارڈن اس کی آرزو پوری کر دے ۔
اسے زیادہ دن انتظار نہ کرنا پڑا ، تیسرے روز ہی سہ پہر کے بعد جب دن کی سفیدی میں رات کی سیاہی نے اپنا گھول شروع کیا تو قدیر نے کوٹھڑی کا قفل کھلنے کی آواز سنی تو چوکنا ہوا ، ’ شاید یہ رات میرے جیون کی آخری رات ہے ‘ ، اس نے سوچا ، ’ آنے والا غالباً یہی خبر دینے آیا ہے ‘ ۔ دروازہ کھلا تو وارڈن سامنے تھا ۔
”چلو جلدی کرو ، اٹھو ، میں تمہیں چھت پر لے جاتا ہوں ۔ لیکن وعدہ کرو کہ تم کودنے کی کوشش نہیں کرو گے ۔ بہتے دریا کو دیکھنے کے لئے تمہارے پاس کچھ ہی منٹ ہوں گے ۔ “ وارڈن نے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا ، ” مجھے مغرب کی اذان ہونے سے پہلے ، تمہیں اس کوٹھڑی میں دوبارہ مقفل کرنا ہے ۔ “ ، وارڈن نے بیڑیوں میں جکڑے قدیر کو سہارا د یا ، اسے ہتھکڑی لگائی ، اس کی زنجیر اپنی پیٹی سے منسلک کی اور اسے لئے باہر نکل گیا ۔
چھت پر پہنچ کر اسے قدیر کو اس طرف لے جانے کی ضرورت پیش نہ آئی جس طرف دریا بہتا تھا ۔ قدیر کے قدم بہتے پانیوں کی مانوس آواز کی طرف خود بخود بڑھ رہے تھے ۔ بنیرے کے پاس پہنچ کر وہ رک گیا ۔ سامنے اباسین کا پانی اسی سکون سے بہہ رہا تھا جو اس وقت فضا پر بھی طاری تھا ۔ وارڈن اس سے چند قدم پیچھے مضبوطی سے زنجیر تھامے کھڑا تھا ۔
قدیر کو بہتے دریا میں پانی کے کئی رنگ نظر آنے لگے جن میں ایک رنگ اس کی اپنی زندگی کا بھی تھا ؛
اس نے اپنے ایک ہمسائے کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب اِس ہمسائے نے اُس کی بیوی کو بدکردار کہتے ہوئے اس کی نِندا کی تھی ۔ اسے تو مر کر بھی سمجھ نہ آئی ہو گی کہ اس کی بیوی اور وہ الگ کیوں ہوئے تھے ۔ قتل کے وقوعے سے تین سال پہلے اس نے اپنی بیوی کو اس بنیاد پر خود سے الگ کر دیا تھا کہ زرینہ نے اس سے کی شادی پر ندامت محسوس کرنا شروع کر دی تھی اور اسے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اس نے اپنے والدین کی خواہش کے خلاف چالیس سال پہلے قدیر سے شادی کرکے غلط قدم اٹھایا تھا اور قدیر کی اشتراکی سوچ ، جس پراس وقت وہ بھی یقین رکھتی تھی ، غلط تھی ۔ وہ دھیرے دھیرے مذہب کی طرف رجوع ہوتی گئی تھی ۔ نوکری اور سیاسی مصروفیات کے باعث وہ اس تبدیلی کو محسوس نہ کر سکا ۔ ) قدیر کو اس بات کا پہلا واضع احساس اس وقت ہوا تھا جب زرینہ نے یہ کہہ کر اپنا کمرہ اور بسترالگ کر لیا تھا کہ وہ ایک اشتراکی کے ساتھ ایک ہی بستر پر نہیں سو سکتی ۔ بہتے پانی نے ایک گِرے درخت کے تنے سے اور پڑے پتھروں سے ٹکرا کر چھل پیدا کرکے شور کیا تو اسے یاد آیا کہ انہوں نے شادی کے بعد سے ہی برابری کی بنیاد پر گھر چلایا تھا ۔ اس نے گھر کے کاموں میں زرینہ کا ساتھ دیا تھا جبکہ وہ بھی نوکری کرکے معاشی طور پر گھر چلانے میں اس کی ہمراہی رہی تھی ۔ دونوں نے محنت کرکے اپنے تینوں بچوں کو ملک کے اچھے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی اور بعد ازاں یہ سب کے سب اعلیٰ روزگار پر لگ گئے تھے ۔
اسے تب یہ بھی یاد آیا : وہ ان کی بڑی بیٹی کے نکاح کا دن تھا ؛ قدیر نے لڑکے والوں کے ساتھ معاملات طے ہونے کے بعد نکاح کے سرکاری فارم ٹائپ کروائے تھے جن میں ملک کے عائلی قوانین کے مطابق اس شق کو بھی اس طرح پُر کروایا تھا جس سے بیٹی کو طلاق لینے کا حق اسی طرح حاصل ہو سکے جس طرح مرد کو حاصل ہوتا ہے ۔ اس شق کو اس طرح سے تحریر کروانے پر زرینہ ہی تھی جس نے اسے غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دے کر اس کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی حالانکہ لڑکے اور اس کے گھر والوں کو یہ حق تفویض کرنے میں کوئی اعتراض نہ تھا ۔ ایسا اس وقت بھی ہوا تھا جب ان کی دوسری بیٹی بیاہی گئی تھی ۔ بیٹا تو اپنی شادی والے دن اس کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا کہ وہ اس شق پر ' کاٹا ' لگوائے گا ۔ وہ تو لڑکی والوں نے اس کا بھرم رکھ لیا تھا کہ وہ انکار پر اتر آئے تھے کہ اگر ان کی بیٹی کو یہ حق نہیں ملے گا تو وہ رشتہ نہیں کریں گے ۔
بہتے پانیوں کے ساتھ اور بھی بہت سے ایسے ہی واقعات اس کی نظروں کے سامنے سے پھسلتے چلے گئے جو بالآخر اس وقت ختم ہوئے جب قدیر کے لئے زرینہ کو ایک ہی چھت تلے برداشت کرنا ممکن نہ رہا تھا ۔ اس کا بیٹا بیوی اور اپنی ماں کو لے کر علیحٰدہ ہو گیا تھا اور قدیر تنہا رہ گیا تھا ۔
قدیر اباسین کے پانیوں میں اور بہت کچھ بھی تلاشنا چاہتا تھا لیکن اس کے ذہنی تسلسل کو وارڈن کی آواز نے توڑ دیا ؛
” چلو ، اب واپس جانے کا وقت ہو گیا ہے ۔ مغرب کی اذان کسی بھی لمحے ہوا چاہتی ہے اور اس سے پہلے تمہارا کوٹھڑی میں موجود ہونا ضروری ہے ۔ “
ساتھ ہی اسے اپنے اور وارڈن کے درمیان بندھی زنجیر میں تناﺅ بھی محسوس ہوا جو اسے پیچھے کھینچ رہی تھی ۔
کوٹھڑی میں پہنچ کر قدیر نے بہتے پانیوں کا نظارہ سامنے پھیلائے رکھا اور اپنی زندگی کے دھارے کے دیگر واقعات کو یاد کرتا رہا جن میں اس کے بچوں کا ماں کی طرح مذہبی ہونا ، بنا کسی معاشی و منطقی جواز کے بدیس جا بسنا اور اپنی دھرتی ماں کی خدمت کرنے کی بجائے اس سے کٹ جانا بھی شامل تھا ۔
اس نے انہیں بھی اسی طرح خود سے الگ کر دیا تھا جس طرح زرینہ کو خیرباد کہا تھا ۔ اس کی بڑی بیٹی جو ایک نامی وکیل بن چکی تھی اور اس کے مقدمے کی پیروی کرنا چاہتی تھی وطن آئی بھی لیکن قدیر نے نہ صرف اُس کی اس پیروی کو رد کیا بلکہ اس سے ملاقات بھی نہ کی ۔ اس کے مقدمے کی تمام کاروائی سرکار کی طرف سے مقرر کردہ وکیل نے ہی بھگتائی تھی ۔
پھانسی سے ایک روز قبل وارڈن کے ہمراہ جیل پولیس کے دو اہلکار اس کی کوٹھڑی میں آئے اور اسے ساتھ لئے جیلر کے کمرے میں گئے ۔ جیلر نے اسے بتایا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے ۔ اگلے روز پو پھٹنے پر اسے پھانسی دے دی جائے گی اور یہ کہ وہ اپنی آخری خواہش بیان کرے تاکہ اسے پورا کیا جا سکے ۔ قدیر نے جیلر سے استدعا کی کہ اس کی ہتھکڑی کھول دی جائے اور اسے کاغذ اور قلم مہیا کیا جائے تاکہ وہ اپنی آخری خواہش تحریر کر سکے ۔ جیلر نے اس کی استدعا قبول نہ کی اور بولا؛
” تم بولو ، میرا محرر اسے لکھ لے گا اور تم سے انگوٹھا لگوا کر دستخط بھی کروا لے گا ۔
اس نے جو لکھوایا وہ یہ تھا ؛
” میں ایک اشتراکی ہوں ، کسی مذہب کا پیرو کار نہیں ہوں ۔ میری آخری خواہش ہے کہ ؛
میرے پاس کسی مولوی ، پادری یا مذہبی نمائندے کو نہ بھیجا جائے اور نہ ہی ایسا کوئی مذہبی نمائندہ اس وقت میرا ہمراہی ہو جب مجھے پھانسی کے لئے لے جایا جائے ۔
میرے ’کلبوت‘ کو نہ تو کسی کے حوالے کیا جائے اور نہ ہی کسی مذہبی رسم کے ساتھ جوڑا جائے اور اسے اس وقت تک نذر آتش کیا جائے جب تک یہ مکمل طور پر سرمئی راکھ میں تبدیل نہ ہو جائے ۔
میرے کلبوت کی اس راکھ کو لاہور کے نواح میں واقع سائفن کے اس مقام پر بہایا جائے جہاں سے پانی ’ بی آر بی ‘ نہرمیں داخل ہوتا ہے تاکہ یہ کھیتوں میں جا کر میرے ’جنم بھوم ‘ کا حصہ بن سکے ۔ “
محرر نے یہ سب لکھتے ہوئے کئی بار اس کی طرف اچنبھے سے دیکھا اور بجائے اس سے دستخط کروانے اور انگوٹھا لگوانے کے ' لکھا بیان ' جیلر کے سامنے رکھ دیا ۔ جیلر ، وارڈن اور کمرے میں موجود دیگر اہل کار اُس کے اِس بیان پر حیران تھے ۔ باریش جیلر کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا ۔ اس نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے اور دانت پیستے ہوئے غصیلی نظروں سے وارڈن کو اشارہ کیا کہ وہ قدیر کو واپس لے جائے ۔ قدیر کو واپس لے جاتے ہوئے وارڈن سوچ رہا تھا کہ اشتراکی کون ہوتا ہے ؟ کیا یہ خدا کا منکر ہوتا ہے جو خود کو دفن کروانے کی بجائے جلوانے کی خواہش کرے ۔
قدیر کو کوٹھڑی میں پہنچے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ جیل کا ڈاکٹر وارڈن کے ہمراہ اندر داخل ہوا اور اس کا سرسری طبی معائنہ کرکے واپس چلا گیا ۔ ابھی رات بھیگی نہ تھی کہ اس کی کوٹھڑی کا قفل پھر کھلا اور وارڈن اندر داخل ہوا ۔
” تمہیں صبح پھانسی نہیں دی جا رہی ، جیلر صاحب نے اس کی معطلی کا حکم نامہ حاصل کر لیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق تمہارا ذہنی توازن درست نہیں ہے ، پہلے اسے درست کرنا ہو گا ۔ “ ، وارڈن نے کہا ۔
اگلی صبح ہتھکڑی اور بیڑیوں میں جکڑے قدیر کو جیل کی گاڑی میں بٹھایا گیا اور کڑے پہرے میں ذہنی امراض کے ہسپتال کی طرف روانہ کر دیا گیا جہاں سازِ زندگی کی ایک نئی ’ دھن ‘ اس کی منتظر تھی ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153985233856895