::: " سال بیلو (Saul Bellow) : امریکہ کا نوبل انعام یافتہ ناول نگار" ::؛
==========================================
آمد: 10 جون 1915، لیشن، کیوبک ، کینڈا۔
رخصت: 5 اپریل 2005، بروک لائیں، میساچیوسیس، امریکہ۔
سال بیلو بیسویں صدی کے انگریزی کے اھم نگاروں کے فہرست میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے امریکہ کے مخصوص معاشرتی احوال سے فرد کے وجود کے اضطراب اور کرب کو نئے زاوئیے سے اپنے فکشن میں خلق کیا۔ ان کے والدین سینٹ پیٹر برگ (روس) سے نقل مکانی کرکے کینڈا میں آباد ھوئے ۔ 1936 میں ان کے والد نے اپنا نام تبدیل کرکے ابراھم بیلو رکھ لیا۔ سال بیلو اپنی پیدائش جون میں بتاتے ہیں مگر خیال کیا جاتا ھے کہ وہ جولائی میں پیدا ھوئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کی یہودی تقویم (کیلنڈر) جارجیں تقویم سے مختلف ھوتی ھے۔ سال بیلو بچپن میں اکثر بیمار رہا کرتے تھے۔ ان کو سانس لینے میں تکلیف ھوتی تھی۔ آٹھ (8) سال کی عمر میں انھوں نے پربرٹ ہیچر اسنو کی ۔۔" انگل سام کیبن" ۔۔ پڑھ ڈالی۔ نو سال کی عمر میں سال بیلو اپنے والدیں کے ساتھ شکاگو کے مضافات ہمولٹ پارک مین منتقل ھو گئے۔ یہ علاقہ کئی ناول نگاروں کا مسکن رہ چکا تھا۔ اسی شہر میں ان کے والد نے بحثیت پیاز کے درآمدی آڑھتی کے کاروبار شروع کیا جب کہ سال بیلو ایک بیکری میں مزدوری کرنے لگے۔ انھوں نے "کولا" کی سپلائی کا کام بھی کیا اور غیر قانونی شراب بھی فروخت کی۔ سترہ (17) سال کی عمر میں ان کی والدہ کا انتقال ھونے کے بعد سال بیلو اپنے والد اور بھائی موریس سے علیدہ ھوکر گھر سے چلے گئے۔ ان کی والدہ بیت مذھبی یہودی خاتوں تھیں وہ چاھتی تھیں کہ سال بیلو مذھبی تعلیم حاصل کرکے "ربائی" بنے یا وائلن بجانے میں مہارت حاصل کرکے اس پیشے میں نام و دام کمائے مگر سال بیلو کے بقول "انھوں نے گھٹی ھوئی روایتی مذھبیت" سے بغاوت کی۔ انھوں نے پہلے انجیل مقدس کا مطالعہ کیا بھر اپنی مذھبی عبرانی زبان پڑھی۔ اولیں عمر مین ولیم شیکسپیئر اور اکیسوین صدی کی روسی ناولز کا مطالعہ کیا اور ان سے متاثر بھی ھوئے۔ ٹالسٹائی اور دوستوفسکی کا اثر بھی قبول کیا۔انھی دنوں انھوں نے شکاگو میں بشریاتی مطالعہ اور مباحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب وہ شکاگو میں ہائی اسکول میں پڑھا کرتے تھے تو اس کے قریبی دوست مشہور ادیب آئزک روزن فیلڈ تھے۔ سال بیلو نے 1959 میں اپنی ناول۔۔ " ہیٹرسن دی رین کنگ"۔۔ میں روزن فیلڈ کو " کنگ دوفو" کے کردار میں پیش کیا۔
سال بیلو نے جامعہ شکاگو میں داخلہ لیا۔ مگر کچھ دن بعد وہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی چلے گئے جہاں وہ ادب کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے جہاں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ وہاں شعبہ انگریزی کی انتظامیہ اور اساتذہ" یہود شکن" ہیں۔ تو انھوں نے ادب کے مطالعے سے الگ ھوکر بشریات کا مطالعہ شروع کیا اور بشریات اور عمرانیات کی سند اعزاز کے ساتھ حاصل کی انکی بشریاتی اور عمرانیات تربیت اور فکریات نے ان کی ادبی تحریروں پر گہرے اثرات ثبت کئے۔ انھوں نے اپنا گریجویشن جامعہ وزکانسن، میڈسن، امریکہ سے کیا۔ اس زمانے میں ان کے قریبی دوستوں میں ایلن بلوم اور جون پوڈورس جو ان کی ذہنی اور فکری وسعت میں ممد و معاون ثابت ھوئے۔ تیس (30) کی دہائی میں سال بیلو " ورک پروگریس پروگریس ایس ایسویشن" کی شکاگو شاخ کے رکن بنے۔ جہان ان کے تحریری منصوبے میں رچرڈ رائٹ اور نیلسن الگرین ان کے معاونین تھے۔ یہ دونوں ادبا اپنے مزاج اور تحریروں میں بینادی تبدیلی کے خواہاں (ریڈیکل) تھے مگر ان کا امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔مگر یہ سب یساریت پسندی سے اپنی ہمدردی کا اظہار ضرور کرتے تھے۔ سال بیلو روسی انقلابی رہنما اور ادیب لیوں ٹراٹسکی سے بہت متاثر تھے۔ سال بیلو نے اپنے جوانی کے زمانے میں میکسیکو مین لیون ٹراٹسکی سے ملاقات بھی کی تھی۔ جن کو بعد میں جوزف اسٹالین کے حکم پر میکسیکو میں قتل کردیا گیا تھا۔ وہ اسٹالین کی ظالمانہ حکمت عملیوں کے خلاف تھے۔ کیونکہ انھوں نے روسی ادبا و شعرا اور فنکاروں کی آواز کو دبانے کے لیے جابرانہ اقدامات کئے تھے ۔ 1941 میں سال بیلو امریکی شہری بنے اور انھوں نے اپنا ادبی ایجنٹ میکسم لیبر کو مقرر کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انھوں نے مرچنٹ نیوی میں شمولیت اختیار کی۔ اسی ملازمت کے دوران سال بیلو نے اپنی پہلی ناول۔۔" ڈولتا انسان"۔۔ (DANGLING MAN) لکھی جو شکاگو کے ایک نوجوان کی کہانی ھے جس کو دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج مین جبری خدمات انجام دینے کے لیے سرکاری حکم دیا گیا تھا۔جو اصل مین کہانی کا " ڈولتا انسان" کا کردار سال بیلو خود ہیں۔ 1961 میں سال بیلو نے یونیورسٹی میں پڑھایا اور انھوں نے فکشن نگار ولیم کینڈی کو فکشن لکھنے پر آمادہ بھی کیا۔ وہ کچھ عرصہ نیویارک میں رہنے کے بعد شکاگو واپس آگیے اور وہ وہاں یونیورسٹی میں "معاشرتی افکار" کے پروفیسر مقرر ھوئے۔ وہاں انھوں نے تیس (30) سال پڑھایا۔ وہاں مشہور فلسفی ایلن بلوم ان کے قریبی دوست رھے ۔ سال بیلو ییل یونیورسٹی۔ یونیورسٹی آف منی سوٹا، نیویارک یونیورسٹی اور بوسٹن یونیورسٹی مین درس و تدویس سے متعلق بھی رھے چکے ہیں۔
سال بیلو کو 1976 میں ادبیات کا نوبیل انعام ملا۔
ان کے افسانوی مخاطبے اور مکالمے کا اصل مقولہ " عبرانی تہذیب کی گمشدگی" ھے۔ میری کوئی تیس (30) سال پہلے سال بیلو سے ملاقات ھوئی تھی ( جس کا حوالہ احمد ہمیش مرحوم نے اپنے جریدے " تشکیل" میں رقم کیا تھا)۔ جب میں نے سال بیلو سے ان کے فکشن کے عبرانی گم شدہ تہزیبی مخاطبے کا زکر کیا تو وہ صفائی سے مکر گئے اور کہنے لگے کہ انھوں نے تو امریکہ میں کھوئے ھوئے اور لاپتہ انسانی وجود کے بحران اور اضطراب کو اپنی ناولز میں بیان کیا ھے ۔ حالانکہ اصل میں ان کی تحریریں یہودی اساطیر میں ڈوبی ھوئی ہیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کافکا سے بہت زیادہ متاثر ہیں اور آپ کی افسانوی فضا کافکاہی افسانوی فضا ھی لگتی ھے تو وہ اس بات سے بھی انکار کرتے رھے۔ حالانکہ ان کا امریکہ میں گم شدہ انسان جس کی وہ افسانوی وجودی تشریح کرتے ہیں جو مکمل طور پر امریکہ میں گمشدہ انسان کا اضطراب اور ہیجان ھے ، اور یہی فضا حاوی طور پر قاری محسوس کرلیتا ھے ۔ سال بیلو بینادی طور پر " وجودی فکشن نگار ہیں۔جس وقت بیسوین صدی کے ادبا اور دانشور اسرئیل کے مظالم پر احتجاج کررھے تھے ۔ وہ خاموشی اختیار کئے ھوئے اس کو جائیز قرار دے رھے تھے۔ سال بیلو کے سفر نامے/ یادوں پر مبنی کتاب ۔۔" یورشلم اور اس سے واپسی"۔۔ چھپی تو اس کو پڑھ کر محسوس ھوا کہ وہ عبرانی اور یہودی تہزیب و تمدن کی شان و شوکت اور اسے دینا کی دیگر تہذہبوں سے ارفع محسوس کرتے ہیں۔
سال بیلو نے جدید تہذیب کے انتشار اور نراجیت کو اپنی تحریروں میں کلیدی نکتہ بنایا ۔ وہ جدید تمدن میں بہت جھول جھال دیکھتے ہیں ۔ جس کے سبب فرد نیم پاگل، مادیت پرست اور عدم آگاہی کے سبب اپنے وجود کو بے شناخت کرچکا ھے اور معاشرے کی منفی کرداروں کی بھی انھوں نے نشاندھی کی ھے۔ ان کے زیادہ ترکردار یہودی ہیں ۔ جو ایک دوسرے سے مغائرت اختیار کئے ھوئے ہیں۔ امریکہ میں یہودی شناخت کا بحران سال بیلو کا اصل مسئلہ ھے۔ یہی ان کا امریکی تجربہ بھی ھے۔ ان پر مارسل پرواست اور ہنری جیمس کے گہرے اثرات ہیں۔ مگر وہ اس سے انکاری ہیں۔ اور وہ اسے لطیفہ قرار دیتے ہیں ۔ سال بیلو نے اپنی ناولز میں سوانحی واردات و بشریاتی عوامل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ جس میں ان کی اپنی اصل شکل عموما نظر آجاتی ھے۔ ان کے فکشن کا ڈھانچہ قدامت پسندانہ ھے ۔ ان کا کہنا ھے"حقیقت پسندی مظاہر کے تجربات میں مہارت کا اظہار ھوتا ھے ۔ اور خواہشات کا ابھار تصور کی حد تک ناول میں نفوز کرتا ھے" فلپ روتھ نے کہا تھا کہ " بیسویں صدی کے ناول نگاری کے صرف دو (2) ناول نگار ہیں۔۔۔ ایک ولیم فاکنر اور سال بیلو ۔۔۔۔جو میلول، ہارتھان اور مارک ٹوین کے ساتھ کھڑے ہیں۔"۔۔۔۔۔
1993 میں سال بیلو شکاگو سے بروک لائین چلے گئے ۔ جہان ان کا 89 سال کی عم میں انتقال ھوا۔ اور برٹال برو (ورماونٹ) کے یہودی قبرستان " شرہیسے سومن" میں دفن ھوئے۔ سال بیلو نے پانچ (5) شادیاں کین ان سب شادیوں کا طلاق پر خاتمہ ھوا۔
سال بیلو کی صرف ایک بیٹی ، جس کا نام " روزی"ھے ۔ انکی چار (4) اولادیں ہیں۔
راقم الحروف نے سال بیلو پر ایک تفصیلی مضمون بعنوان، " موت آگاہی " لکھا تھا جو اگست 1983 میں علی گڑھ سے شائع ھونے والے مرحوم ادبی جریدے " الفاظ" میں چھپا تھا ۔
سال بیلو کی چند تصانیف یہ ہیں:
Dangling Man (1944)
The Victim (1947)
The Adventures of Augie March (1953), National Book Award for Fiction[41]
Seize the Day (1956)
Henderson the Rain King (1959)
Herzog (1964), National Book Award[42]
Mr. Sammler's Planet (1970), National Book Award[43]
Humboldt's Gift (1975), winner of the 1976 Pulitzer Prize for Fiction[44]
The Dean's December (1982)
More Die of Heartbreak (1987)
A Theft (1989)
The Bellarosa Connection (1989)
The Actual (1997)
Ravelstein (2000)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔