اسلام جزیرہ نمائے عرب سے شروع ہوا۔ تب سے لے کر آج تک یہ علاقہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے کنٹرول میں رہا لیکن بہت جلد ہی اس کی سیاسی حیثیت ثانوی رہ گئی تھی۔ سیاسی مراکز شام، عراق، مصر اور ترکی کی طرف منتقل ہو گئے تھے۔ مقاماتِ مقدسہ تک جانے والے زائرین کے سوا آبادی بہت کم تھی۔ اس کا صحرا رہنے کے لئے آسان جگہ نہیں تھی۔ جگہ جگہ پھرتے خانہ بدوش قسم قسم کے توہمات کا شکار تھے۔ ان حالات میں اٹھارہویں صدی میں یہاں پر محمد بن عبدالوہاب آئے، جن کا پیغام ان توہمات کے خلاف تھا۔ ان کا نظریہ اپنانے والے خطیبوں نے یہاں کی فکر کو تبدیل کر دیا۔
ان کا پیغام بڑا سادہ اور آسان تھا۔ “اصل کی طرف واپسی”۔ اس آسان پیغام کے کئی طرح کے معنی تھے۔ توحید کی طرف واپسی، مغرب سے آنے والی روایات اور کلچر کا رد۔ بدعت کو ختم کرنا۔ اس نئے پیغام میں بدووٗں کے لئے بہت کشش تھی۔ وہ اپنی سادہ زندگی کو مکہ یا بصرہ میں بسنے والوں کی شہری زندگیوں سے برتر سمجھتے تھے۔ اس پیغام کو ماننے والے وہابی کہلائے۔ ان کا اس خطے کے مستقبل پر گہرا اثر ہونا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسطی عرب میں نجد سے تعلق رکھنے والے قبائلی شیخ محمد بن سعود کی صورت میں ان کو ایک رفیق مل گیا۔ السعود کی عسکری مہارت اور وہابی مذہبی جذبے نے مل کر اس علاقے کا سیاسی نقشہ بدل دیا۔ یہ علاقہ بڑی طاقتور عثمانی سلطنت کے زیرِ نگیں تھا۔ استنول میں سلطان کے پاس خلیفہ المسلمین کا لقب تھا۔ السعود نے اس بڑی طاقت سے ٹکر لے لی۔ اسے براہِ راست چیلنج کر دیا۔ محمد بن سعود کے بیٹے کے محمد بن عبدالوہاب کی بیٹی سے نکاح نے ان خاندانوں کے درمیان ایک مضبوط رشتے کی اور پہلی سعودی ریاست کی بنیاد 1744 میں رکھ دی۔ یہ امارات الدرعیہ کہلائی۔ الدرعیہ کا شہر آج کے سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض کے قریب تھا)۔
وسیع ہوتی اس ریاست کیلئے ایک بڑی کامیابی 1802 میں ہوئی جب اونٹوں پر سوار بارہ ہزار وہابی جنگجووٗں کی فورس عثمانی سلطنت کے اہم شہر کربلا پہنچی۔ یہاں پر امام حسین علیہ السلام کا سنہری گنبد والا مقبرہ زائرین کا مرکز تھا۔ کربلا بڑے خزانوں کا شہر تھا جو صدیوں سے یہاں پر فارس، انڈیا اور دوسری جگہوں سے آیا کرتے تھے۔ اس شہر میں اس کے لئے کوئی خاص حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے تھے۔ دس محرم 1216 کو اس لشکر نے کربلا پر حملہ کیا۔ آٹھ گھنٹے میں ختم ہو جانے والی جنگ یکطرفہ تھی۔ کربلا کے چار ہزار شہری اس میں ہلاک ہوئے۔ یہاں سے لوٹے گئے مال کو چار ہزار اونٹوں پر نجد لے جایا گیا۔
اگلے سال مکہ کی باری تھی۔ کربلا میں ہونے والے انجام سے اہلِ مکہ باخبر تھے۔ انہوں نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دئے اور شہر حملہ آوروں کے حوالے کر دیا گیا۔ تمباکو نوشی پر پابندی لگا دی گئی۔ تمام تمباکو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ بڑے مقبروں کو ناپسند کرنے والے نئے حکمران نے تمام قبروں کے نام و نشان مٹا دئے۔ اس سے اگلی باری مدینہ کی آئی۔ یہاں پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔
اگلے دس برس حکومت یہ نئی ریاست اسی طرح قائم رہی۔ عثمانیہ سلطنت نے اس سے نپٹنے کا کام مصر کے طاقتور وائسرائے محمد علی پاشا کے سپرد کیا۔ ان کے بیٹے ابراہیم پاشا کی قیادت میں 1813 میں عثمانی فوج نے حجاز کا رخ کیا۔ مکہ کا قبضہ واپس حاصل کر لیا۔ اگلے پانچ سال کی جنگ کے بعد بالآخر عثمانی فوج نے اس نئی ریاست کو مکمل طور پر کچل دیا۔ الدرعیہ شہر کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ شکست کھا جانے والے سعودی بادشاہ کو پنجرے میں بند کر کے استنبول لے جایا گیا۔ جہاں پر جشن مناتے لوگوں کے سامنے ان کا سر قلم کر دیا گیا۔ ان کا کٹا ہوا سر باسفورس کے پانیوں میں لڑھکا دیا گیا۔ پہلی سعودی ریاست ختم ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری سعودی ریاست کچھ عرصہ بعد قائم ہوئی لیکن رہ نہ سکی۔ جب بیسویں صدی شروع ہوئی تو عرب سے باہر کم ہی کوئی سعود خاندان کے نام سے واقف تھا۔ ان کے خاندان کے لوگ بھاگ کر کویت کی طرف چلے گئے تھے۔ نجد میں ان کے مخالفین کا قبضہ تھا۔ حجاز میں ہاشمی خاندان کا کنٹرول تھا۔ ماضی کی طاقتور عثمانی سلطنت بیمار پڑ چکی تھی۔
جنوری 1902 میں السعود خاندان کے نوجوان سردار عبدالعزیز نے صرف چھ لوگوں کے دستے کے ساتھ ریاض کے گورنر کے قلعے پر ایک دلیرانہ حملہ کیا۔ رات کو گارے کی فصیل کا کمزور حصہ پھاند کر اندر چلے گئے اور فجر کی نماز پر نکلنے والے گورنر کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ مختصر لڑائی کے بعد اس قلعے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یہ نئے سعودی دور کا آغاز تھا۔ یہ تیسری سعودی ریاست کہلائی۔ عبدالعزیز ایک کے بعد اگلی جھڑپ کے ساتھ قبائل کو شکست دیتے گئے اور نجد پر کنٹرول حاصل کرتے گئے۔
اس جنگجو فورس کے بہترین فوجی صحرا میں رہنے والے خانہ بدوش تھے۔ نجد میں قدم جمانے کے بعد ان کو سیٹل ہونے کا موقع مل گیا تھا۔ ان نئی بستیوں کو ہجرہ کہا گیا۔ یہ نوآباد اخوان کہلائے۔ اخوان کو زراعت کا بالکل تجربہ نہیں تھا لیکن زبردست جنگجو تھے۔ ان کی جنگی مہارت نے السعود کی فتوحات میں بڑی مدد کی۔ 1913 تک خلیج کا ساحل السعود کے پاس آ گیا تھا۔ 1924 میں اردن کا شہر امان اور پھر پہاڑی علاقہ طائف، جہاں پر لڑائی کے بعد چار سو شہری قتل کر دئے گئے۔ شہر میں تعیشاتی سامان جیسا کہ آئینوں اور کھڑکیوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اگلی باری مکہ کی تھی۔ مکہ بغیر لڑائی کے قابو آ گیا۔ اس میں کوئی توڑ پھوڑ نہ کی گئی۔ 1920 کی دہائی کے آخر تک عبدالعزیز کے پاس جزیرہ نمائے عرب کا تقریبا مکمل کنٹرول تھا۔ اس کی سرحد کے گرد کویت، عراق اور چھوٹی خلیجی ریاستیں تھیں جو برطانیہ کے زیرِ نگران تھی۔ عبدالعزیز نے اس طاقتور سلطنت سے لڑائی چھیڑنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔
مکہ اور مدینہ کے مقاماتِ مقدسہ کے رکھوالے کی حیثیت سے السعود اخوان کو غیروہابی زائرین کو تنگ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سے السعود اور اخوان کے بیچ اختلافات ہو گئے۔ جہاد کو روک دینا، بدعت میں ملوث لوگوں سے صرفِ نظر کرنا، شیعہ زائرین کو مقاماتِ مقدسہ تک آنے کی اجازت دینا۔ ان پر ہی ابھی ناراضگی چل رہی تھی کہ شاہ عبدالعزیز نے ایک اور دھماکہ کر دیا۔ یہ مغرب کے شیطانی آلات کو یہاں پر آنے کی اجازت دے دینا تھا۔ ٹیلی گراف، ریڈیو، ٹیلی فون اور کار جیسے آلات!! اخوان غصے سے ابل رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اخوان نے پہلے برطانوی عراق پر حملہ کیا اور پھر کویت کی بندرگاہ پر قبضے کی کوشش کی جو برطانیہ کی پروٹیکشن میں تھی۔ اخوان کو اس کے نتیجے میں ایک اور شیطانی ایجاد کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ہوائی جہاز تھے۔ شاہ عبدالعزیز کی رضامندی سے برطانوی رائل ائر فورس نے اخوان آبادی پر بمباری کی۔ سینکڑوں مرد، خواتین اور بچے اس بمباری کا نشانہ بنے۔ اخوان اور السعود کا تعلق ٹوٹ چکا تھا۔
مارچ 1929 میں پرانے بہترین رفیق آمنے سامنے تھے۔ نجد میں سیبالہ کے نخلستان میں شاہ عبدالعزیز کے بیٹے کی قیادت میں شاہی فوج ایک طرف سے، جبکہ اخوان کی فوج فیصل الدویش اور سلطان بن بجاد کی قیادت میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتے اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔
لڑائی کے پہلے ہلے میں ہی فیصل الدویش بری طرح زخمی ہو گئے۔ ان کے ساتھیوں نے پسپائی اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن السعود کی فوج کی مشین گنوں نے اخوان فوج کو بھون کر رکھ دیا۔ سال کے آخر تک نجد سے اخوان کا صفایا ہو چکا تھا۔ انکے ہتھیار ضبط کئے جا چکے تھے۔ دویش اور بجاد گرفتار کر لئے گئے تھے جہاں پر ان کا انتقال جلد ہی ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخوان کے خاندان تباہ حالی کا شکار تھے۔ ان کی دنیا دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئی تھی۔ کل کے فاتح آج کا شکار، کل کے ہیرو آج کے معتوب قرار پائے تھے۔ ان خاندانوں کے یتیم ہو جانے والوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ ریاض کے شمال میں ساجر نام کے اخوان آبادی میں سیبالہ کی جنگ میں شرکت کرنے والے کچھ جنگجو موجود تھے۔ ان میں سے ایک محمد بن سیف العتیبی تھے، جو بجاد کے شانہ بہ شانہ لڑے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ اس جنگ سے سات سال بعد ان کے گھر ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ غصے میں لگنے والے اس بچے کا نام انہوں نے “تیوری چڑھانے والا” رکھا تھا۔
عربی میں اس کو جھیمن کہا جاتا ہے۔ یہ وہ بچہ تھا جس نے مکہ میں ہونے مسجد الحرام میں ہونے والے 1979میں باغیوں کی قیادت کرنا تھی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...