ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں ایسا تاثر ہو کہ تمام عرب ملک امیر ہیں۔ لیکن نہیں، ایک ملک یہاں پر انتہائی غربت کا شکار ہے اور وہ ملک یمن ہے۔ یہ پچھلے تین سال سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ یہاں پر جاری جنگ کوئی معمولی جنگ نہیں۔ ایک طرف یمنی حکومت ہے جس کی سپورٹ سعودی عرب، اس کے اتحادی اور امریکہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف انقلابی ہیں جن کی سپورٹ ایران کر رہا ہے، تیسری طرف انصار الشریعہ ہے جو یمن میں دولتِ اسلامیہ کی شاخ ہے، پھر القاعدہ ہے اور جنوبی علیحدگی پسند۔
اس وقت عسکری ساز و سامان کے حوالے سے سعودی عرب پوری دنیا کی تیسری بڑی طاقت ہے۔ ان کو اس وقت امریکی ڈرونز کی بھی سپورٹ حاصل ہے اور کچھ ہمسایہ ممالک کی بھی۔ ان کے تین لاکھ فوجی ہیں۔ ایک سو اسی لڑاکا طیارے اور جدید ترین ہتھیار۔ دوسری طرف ایک لاکھ کے قریب فوجی اور روایتی ہتھیار۔ یہ جنگ یکطرفہ ہونی چاہیے تھی لیکن سعودی عرب اس میں اس وقت پچھلے قدم پر ہے۔ دنیا کی سب سے بہترین فوجوں میں سے ایک آخر اس پوزیشن میں کیوں؟
اس سے پہلے یمن کی تاریخ۔ یمن میں یہ پہلی خانہ جنگی نہیں۔ پچھلے پچیس برسوں میں یہاں پر ہونے والی تیسری خانہ جنگی ہے۔ یمن نظریاتی اور مذہبی لحاظ سے منقسم ہے۔ نوے کی دہائی سے قبل یہ دو الگ ملک تھے۔ جنوبی یمن میں کمیونسٹ حکومت تھی اور شمالی یمن میں پرو سعودی۔ ان کی یکجائی کے بعد علی عبداللہ صالح پورے ملک کے صدر بنے۔ یہ پہلے صرف شمالی یمن کے صدر ہوا کرتے تھے۔ دارالحکومت صنعا بنا۔ صالح ان حکمرانوں میں سے تھے جن کے لئے جمہوریت یا انسانی حقوق ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی حکومت کے چار برس کے بعد ہی سابق کمیونسٹ لیڈروں نے ان کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کی۔ سعودی عرب مدد کو آیا اور چند ہی ماہ میں بغاوت کو کچل دیا گیا۔ یہ خانہ جنگی ختم ہو گئی۔ حکومت کے خلاف دوسری بغاوت 2004 میں شروع ہوئی۔ اس بار باغی گروپ شیعہ تھے۔ ان کو حوثی باغی کہا گیا۔ حوثی زیدی شیعہ تھے۔ اس گروپ کا آغاز اس سے دس سال پہلے پرامن مذہبی گروپ کے طور پر ہوا تھا، لیکن اس کو مسلح اور جنگی گروپ میں بدلتے دیر نہیں لگی۔ ان کا نعرہ (جو ان کے جھنڈے پر لکھا ہوا ہے) پانچ نکات پر تھا۔ اللہ اکبر، امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد، یہود پر لعنت، اسلام غالب آئے گا۔ صالح حکومت نے اس بغاوت کو بھی کچل دیا۔
عرب بہار جو 2011 میں آئی، اس دوران یمن میں پھر بغاوت ہوئی۔ اس بار صالح نے حکومت نئے صدر الہادی کے حوالے کر دی۔ نئے صدر کے پاس ایک بہت کمزور حکومت آئی تھی۔ 2009 میں یمن میں جزیرہ نمائے عرب کی القاعدہ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ القاعدہ سے حکومت کی پہلی جنگ تین سال تک جاری رہی تھی۔ کمزور حکومت کے وقت حوثی باغی زیادہ قوت سے واپیس آئے۔ انہوں نے 2014 میں حکومت سنبھال لی۔ الہادی دارلحکومت چھوڑ کر عدن چلے گئے جو جنوب میں ہے اور اپنی حکومت اس علاقے میں شروع کر لی۔ یمن کا حصہ جہاں حوثی حکومت کا کنٹرول تھا، اس کی لمبی سرحد سعودی عرب سے ملتی تھی۔ حوثی حکومت کو ایران کی سپورٹ حاصل تھی۔ اپنی سرحد کے قریب یہ صورتحال سعودی عرب کے لئے قابلِ قبول نہ تھی۔ اس لئے اس نے الہادی کا مکمل ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان دونوں کے درمیان میں دولتِ اسلامیہ نے اپنی جگہ بنا لی جو دونوں کی دشمن تھی۔ یہ اب 2015 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کا آغاز تھا۔
سعودی عرب صحرا ہے لیکن یمن زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے اور پتھریلی چٹانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں تک فوج ٹرانسپورٹ کرنا آسان نہیں، خواہ جتنے بھی اچھے ہتھیاروں سے لیس فوج کیوں نہ ہو۔ سعودی عرب کے پاس ایم ون اے ون ابریم ٹینک ہیں جو دنیا کے جدید ترین ٹینک ہیں۔ لیکن ان کو دروں سے قطار کی صورت میں گزر کر جانا پڑتا ہے اور حوثی یہاں پر ان کو شکار کر سکتے ہیں۔ ایک ٹینک ساٹھ لاکھ ڈالر کا ہے۔ اس کو صرف تین ہزار ڈالر کے راکٹ لانچر سے چند گوریلا فائٹر نشانہ بنا سکتے ہیں۔ گوریلا فوج پورے ٹینکوں کی بٹالین ختم کر سکتی ہے۔ سعودی عرب کے طیاروں اور امریکہ کے جنگی ڈرونز پر مشتمل مشترک فضائی قوت کو مسئلہ یہ ہے کہ پہاڑوں اور غاروں میں چھپنا آسان ہے۔ مقامی ہونے کا فائدہ حوثیوں کو یہ کہ ان کو چھپنے کی جگہوں کا بھی اچھا علم ہے۔ گوریلا جنگجووں کے پاس یہاں کی ٹرانسپورٹ کے اچھے طریقے پر بھی کنٹرول ہے یعنی اونٹوں اور گدھوں پر۔ یہ اس جگہ پر جدید گاڑیوں سے زیادہ فائدہ مند ہیں۔ ان مشکلات کے باوجود سعودی پاور اس قدر زیادہ ہے اور یہ جگہ ان کے ہمسائے میں ہی ہے۔ لیکن ان کو ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ وہ مسئلہ ان کے فوجی ہیں۔
سعودی فوج میں افسر اچھے تربیت یافتہ نہیں۔ اس کی ایک وجہ شاہی خاندان سے آئے افسران ہیں (سعودی شاہی خاندان اس وقت تیس ہزار سے زائد لوگوں پر مشتمل ہے)۔ یہ افسر کسی بھی فوجی تربیتی پروگرام سے نہیں گزرے اور دوسری پروفیشنل افواج کے برعکس یہاں صلاحیت پروموشن کا معیار نہیں رہا۔ جو فوجی اگلے مورچوں پر ہیں، وہ بھی دنیا کی باقی افواج کے مقابلے میں کم تربیت یافتہ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ رہی ہے کہ یہاں کے شہری اپنے کاموں کے لئے دوسروں پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ آسان سرکاری نوکریوں کے عادی رہے ہیں اور ڈسپلن اور محنت کا کلچر نہیں بن سکا جس کی جھلک جنگی میدان میں نظر آتی ہے۔ تیسری وجہ یہاں کی فوج کا سٹرکچر ہے جس میں لمبی ہائیرکی کی وجہ سے جلد فیصلے نہیں ہوتے جن کی میدانِ جنگ میں ضرورت ہوتی ہے۔ جنگ کی ویڈیوز دیکھ کر فوجی ماہرین سر پکڑ لیتے ہیں کہ کس قدر بنیادی غلطیوں کی وجہ سے سعودی جنگی محاذ پر اپنے ٹینک اور اسلحہ اور اپنی جانیں ضائع کرتے رہے ہیں۔ جنگ میں ساز و سامان ہی سبھی کچھ نہیں ہوتا۔ حکمت عملی بھی درکار ہوتی ہے۔ جمال خشوگی کی واقعے کے بعد امریکہ نے اپنے اندرونی دباوٗ کی وجہ سے سعودی اتحاد کی عسکری امداد کم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اس کے مقابلے میں حوثی زیادہ بہتر تنظیم اور جذبہ رکتھے ہیں کیونکہ وہ ایک بیرونی قوت کے خلاف وطن کا دفاع کر رہے ہیں۔ سعودی فوج کی میدان میں پسپائی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کا زیادہ انحصار اب فضائی حملوں پر ہو گیا ہے اور یہ بڑے جانی نقصانات کا سبب بن رہے ہیں۔ یہاں پر جاری جنگ میں پچاس ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یہ معاملات جو ابتدا میں بات چیت سے بھی حل ہو سکتے تھے، اب خونریز جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں جس کا خاتمہ جلد نظر نہیں آتا۔ یہ جنگ شاید اگلی کئی نسلوں تک نشان چھوڑے۔ 2017 میں اس میدان میں ایک نیا گروپ کودا جو سدرن ٹرانزیشنل کونسل تھی۔ یہ جنوبی علیحدگی پسند تھی۔ اس وقت کچھ علاقے پر اس گروپ کا بھی قبضہ ہے۔
اس وقت یمن کے کس علاقے پر کس گروپ کا قبضہ ہے، اس کا ایک طائرانہ جائزہ ساتھ لگے نقشے سے جو الجزیرہ نے تیار کیا ہے۔ زمین پر صورتحال اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
اس پر ویڈیو یہاں سے