شہر میں میٹرو بس متعارف ہو رہی تھی۔ یہ ٹرانسپورٹ کا جدید ترین نظام تھا۔ آمدو رفت کا‘ نقل و حمل کا سارا سسٹم ماڈرن خطوط پر ڈھالا جا رہا تھا۔ اب کوئی بھی شخص تھری پیس سوٹ پہن کر نکٹائی لگا کر بریف کیس ہاتھ میں لیے راولپنڈی صدر سے اسلام آباد اور نیشنل اسمبلی سے صدر تک ‘باعزت طریقے سے آ جا سکتا تھا۔ اب اس روٹ پر رہنے والوں کو اپنی گاڑی سے سفر کرنے کی ضرورت ہو گی نہ بسوں‘ ویگنوں اور سوزوکیوں میں دھکے کھانے پڑیں گے۔ لیکن ڈاکٹر نعیم خواجہ کے لیے یہ سہولت بے معنی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں پہلی بار ڈاکہ پڑا تو وہ کئی دن خاموش رہے۔ جس زمانے میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے‘ ان کے اکثر ہم جماعت بیرون ملک چلے جانے کی منصوبہ بندی اسی مرحلے پر کر چکے تھے۔ اکٹھے بیٹھتے تو یہی موضوع زیر گفتگو رہتا۔ کوئی امریکہ جانے کے لیے وہاں کے امتحان یو ایس ایم ایل ای کی تیاری کر رہا تھا‘ کوئی برطانیہ کا عزم رکھتا تھا اور اس امتحان کے پاس کرنے کی فکر میں تھا جو برطانیہ ہجرت کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے لازمی تھا۔ جب وہ کہتے کہ انہوں نے یہیں رہنا ہے‘ اسی دھرتی پر جینا اور مرنا ہے‘ یہیں کے مریضوں کا علاج کرنا ہے تو ساتھیوں میں سے کچھ یہ سن کر خاموش رہتے‘ کچھ ہنس دیتے اور چند ایسے بھی تھے جو کہتے ’’بے وقوف! پچھتائو گے! ‘‘
ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں پہلی بار ڈاکہ پڑا تو وہ خود موجود نہ تھے۔ سٹاف کو اسلحہ دکھا کر لوٹ لیا گیا۔ لوٹ کیا لیا گیا‘ جو تھوڑی بہت نقدی تھی‘ وہ لے گئے‘ لیکن دونوں ملازم نفسیاتی مریض بن گئے۔
کچھ عرصہ بعد دوسرا ڈاکہ پڑا۔ ڈاکٹر صاحب کو وہ زمانہ خوب خوب یاد آیا جب ان کے ہم نشین دساور جانے کی باتیں کیا کرتے تھے اور وہ انہیں حب الوطنی کا درس دیا کرتے تھے۔ ان میں سے چند دوسرے ملکوں میں مستحکم حیثیتیں حاصل کر چکے تھے۔ لندن ‘ نیو یارک اور میامی میں خوبصورت گھروں میں رہتے تھے۔ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں‘ کچھ نے خیبر پختون خوا میں اور کچھ نے پنجاب میں زرعی فارم خرید لیے تھے۔ ملازموں کی ریل پیل تھی۔ دو تین سال میں ایک بار آتے تو جاگیرداروں سی آن بان رکھتے۔
دوسرے ڈاکے کی بات ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے پائوں اب کے اکھڑ گئے۔ پائوں اس لیے کہ پہلے دل اکھڑا ؎
دل کے ڈوبے سے مٹی دست شناور کی سکت
موج کی طغیانیوں سے ڈوبتا کوئی نہیں
ایک ہم جماعت کو لندن ٹیلی فون کیا اور ہجرت کے ارادے کا اظہار کیا۔ اس طعن و تشنیع اور ہنسی مذاق کے بعد‘ جو دیرینہ دوستوں کا شیوہ ہوتا ہے‘ اس نے رہنمائی کی‘ ضروری مراحل سے آگاہ کیا اور کچھ ایڈریس ای میل کیے جہاں سی وی بھیجنا تھا مگر بھنک ڈاکٹر صاحب کی والدہ کے کان میں پڑ گئی۔ بوڑھی ماں کے موتیوں جیسے آنسوچاندی جیسے رخساروں پر گرے تو ڈاکٹر صاحب کے پائوں ایک بار پھر اکھڑ گئے ۔ ’’نہیں! میں ماں کو روتا چھوڑ کر نہیں جا سکتا‘‘
مگر دوسرا ڈاکہ دوسرا تھا‘ آخری نہیں تھا۔
یہ گزشتہ جمعہ کا واقعہ ہے۔ شام کے ساڑھے آٹھ بجے تھے ڈاکٹر صاحب جس عظیم الشان سرکاری ہسپتال میں دن بھر کام کرتے تھے وہاں سے آئے ہی تھے۔ راولپنڈی کے پرانے شہر کا یہ علاقہ‘ جہاں ان کا کلینک ہے‘ پررونق ہے‘ گلی کوچے لوگوں سے چھلکتے ہوئے اور دکانیں گاہکوں سے لبریز۔ کلینک کے سامنے موٹر سائیکل رکا۔ تین آدمی اترے۔ ایک ریوالور تھامے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ دو نقاب پوش اندر آئے… اسرافیل جیسی بلند آواز نکالی۔ کیشئر سے نقدی چھینی‘ موبائل فون لیے اور جاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے‘ ان کے پاس ڈیڑھ دو لاکھ کی نقدی تھی جو فارمیسی کی ادویات خریدنے کے لیے رکھی تھی۔ آپ اندازہ لگائیے۔ایک میڈیکل سپیشلسٹ‘ وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ‘ادھیڑ عمر مریضوں کی مسیحائی میں رات دن مصروف۔ ریوالور اس کے سر پر رکھا ہے۔ ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جا رہا ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ ایک لمحے سے بھی کم تھا مگر والدہ کا دست دعا قدرت کو پیارا لگا ؎
میانِ شہ رگ و شمشیر کچھ نہ تھا لیکن
میں بچ گیا کہ فرشتے مرے موافق تھے
جان بچ گئی۔ کلینک تیسری بار لوٹ لیا گیا۔ ملازم ایک بار پھر نفسیاتی مریض بن گئے۔ پولیس سٹیشن صرف چار سو گز کے فاصلے پر تھا۔ وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے۔ پولیس آئی ’’شواہد‘‘ جمع کیے گئے۔ ’’تفتیش‘‘ ہوئی۔ گھسے پٹے سوالات۔ چائے کا دور بھی یقیناً چلا ہو گا۔ محلے کے مکینوں نے احتجاج کیا گزشتہ دو ماہ کے دوران ڈکیتی کے کئی واقعات اسی علاقے میں ہو چکے تھے۔ایک پی سی او کا مالک بھی گولی کا نشانہ بن چکا تھا۔
ڈاکٹر صاحب اس بار ہجرت کر جانے میں کامیاب ہو جائیں گے یا والدہ ‘ خدا انہیں سلامت رکھے‘ اب کے بھی اجازت نہیں دیں گی؟اجازت مل گئی تو ڈاکٹر صاحب کے لیے میٹرو بس اور میٹرو بس کا لایا ہوا سارا نیا کلچر بے معنی ہو گا۔ وہ اس جھنجھٹ ہی سے چھوٹ جائیں گے۔ اجازت نہ ملی تو وہ حکمرانوں سے ایک سودا بازی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ٹوٹی ہوئی بسوں میں دروازوں سے لٹک کر سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ استدعا ان کی صرف یہ ہے کہ ڈاکوئوں کا قلع قمع پہلے کیا جائے اس لیے کہ جو منظر نامہ اس وقت موجود ہے‘ اس میں میٹرو بس سے ڈاکو ہی فائدہ اٹھائیں گے۔ شہریوں کی جیب میں ڈاکوں کے بعد کرائے کی رقم ہی کہاں ہوگی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“