ستیہ پال آنند صاحب!
پردے بتدریج ہٹ رہے ہیں
نومبر 2013 ء میں میری کتاب ’’ستیہ پال آنند کی ’’۔۔۔بُودنی،نابُودنی‘‘ شائع ہوئی تو اس کے ابتدائیہ میں، میں نے لکھا تھا۔
’’ ستیہ پال آنند کی ادبی زندگی کے آغاز پر ایک پردہ سا پڑا ہوا ہے۔حقائق تک رسائی حاصل کر سکنے والے کسی دوست کو اس معاملہ میں غیر جانبدارانہ طریق سے تحقیق کرنا چاہیے۔میری معلومات کے مطابق ستیہ پال آنند نے ہندوستان میں پہلے انگریزی اور ہندی میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔پھر انہیں لگا کہ وہاں جتنا وسیع میدان ہے اس سے کہیں زیادہ سخت مقابلہ ہے۔چنانچہ ان کی آرام طلب اور عافیت کوش طبیعت نے اردو کو تختۂ مشق بنا لیا۔(۵) اگر واقعی ایسا ہی ہوا ہے تو اس عرصہ کی الگ الگ زمانی تقسیم کی جانی چاہیے تاکہ اندازہ ہو کہ اردو سے ان کی محبت کب جاگی اور یوں ان کی ادبی زندگی کے رنگ ڈھنگ پوری طرح واضح ہو سکیں۔‘‘(ابتدائیہ ’’ستیہ پال آنند کی بودنی نابودنی‘‘۔۔۔۔بحوالہ ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘۔ص ۷۹۵)
اس سے اگلے برس 2014 ء کے شروع میں اسی کتاب کا دوسرا(انٹرنیٹ)ایڈیشن شائع ہوا جس میں چند اضافے کیے گئے۔اسی سال کے آخر تک میرے چھ تنقیدی مضامین کا مجموعہ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ شائع ہوا تو اس میں ’’ستیہ پال آنند کی ’’۔۔۔بُودنی،نابُودنی‘‘ کا اضافہ شدہ ایڈیشن شامل کیا گیا۔’’ابتدائیہ‘‘ کے مذکورہ بالا اقتباس کے حوالے سے میں نے ابتدائیہ کے حاشیہ میں اضافہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ (۱)ڈاکٹر نارنگ صاحب کے ۲۰ نومبر۲۰۱۳ء کے ایک انٹرویو سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ ستیہ پال آنند پہلے افسانے لکھا کرتے تھے۔اور انگریزی،ہندی اور پنجابی میں لکھا کرتے تھے۔انٹرویو اس لنک پر موجود ہے۔
http://www.youtube.com/watch?v=0GZbW9bO-Kw&feature=youtu.be&a
(یہ ویڈیو کلپ میرے مذکورہ مضمون میں درج ہونے کے بعد یوٹیوب سے ڈیلیٹ کرادیا گیا ہے۔)
(۵)اس لنک پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے انٹرویومیں 15.10 پریہ ذکر ہے کہ ستیہ پال آنندریٹائرمنٹ کے بعد لگ بھگ ساٹھ سال کی عمرمیں انگریزی اور ہندی کی بجائے اردو زبان میں لکھنے کی طرف آئے اور نظم نگاری کی طرف آئے۔ورنہ پہلے وہ انگریزی،ہندی اور پنجابی میں لکھا کرتے تھے اور افسانہ نگاری کرتے تھے۔‘‘
(ابتدائیہ ’’ستیہ پال آنند کی بودنی نابودنی‘‘۔۔۔۔بحوالہ ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘۔ص ۷۹۶۔۷۹۷)
میں نے اپنے بعد کے ایک مضمون’’ستیہ پال آنند،مہاتما خود‘‘ میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا۔
’’ میری کتاب’’ستیہ پال آنند کی’۔۔۔بودنی،نابودنی‘‘کی اشاعت کے معاََ بعد ستیہ پال آنند کے ارد گرد سے اور خود ان کی طرف سے بھی چند باتوں کا اعتراف سامنے آگیا ہے اور اس اعتراف میں چند نئی باتیں بھی سامنے آئی ہیں ۔مثلاََستیہ پال آنندایک طویل عرصہ تک ہندی،پنجابی اور انگریزی میں لکھتے رہے ہیں۔ان زبانوں میں بھی نثر میں خامہ فرسائی کرتے رہے ہیں۔ساٹھ سال کا ہو جانے کے بعدانہوں نے اردو نظم کا رخ کیا۔اس سے میرا پہلااندازہ درست نکلا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ بالا تینوں زبانوں میں لکھے گئے کو کوئی اہمیت نہیں ملی تو انہوں نے اردو کا رُخ کیااور اس میں غزل کی مخالفت کا اعلان کرکے نظم نگاری شروع کر دی۔‘‘(مضمون’’ستیہ پال آنند مہاتما خود‘‘ مشمولہ کتاب ’’ستیہ پال آنند کی بودنی نابودنی‘‘دوسرا ایڈیشن۔۔۔۔بحوالہ ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘۔ص ۷۹۵)
یہ ساری باتیں ذہن میں رکھیں اور اب ستیہ پال آنند کا اپنی ایک پرانی نظم کے ساتھ تازہ نوٹ ملاحظہ فرمائیں۔
دست برگ
ستیہ پال آنند(واشنگٹن)
اپنی 86 ویں سالگرہ پر میں خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا وہ نظم یاد کر رہا ہوں جو میں (نے)اپنی 50 ویں سالگرہ کے دن وین کوور(کنیڈا)میں ایک اداس شام کو بُنی تھی۔
(مطبوعہ ’’ادب سرائے‘‘۔روزنامہ ’’آج‘‘ پشاور۔10 مئی 2018 ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نوٹ پر میں نے مدیر ’’ادب سرائے‘‘ روزنامہ آج پشاور کے نام یہ خط لکھا۔
برادرم ناصر علی سید صاحب
آج 10 مئی 2018 کا ادب سرائے پڑھ رہا ہوں ۔ستیہ پال آنند صاحب کی نظم "دست برگ" کے ساتھ ان کے تحریر کردہ نوٹ نے مجھے روک لیا ہے۔
میرے سامنے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب اور عبداللطیف اعظمی صاحب کی مرتب کردہ کتاب "ہندوستان کے اردو مصنفین اور شعرا" پڑی ہے۔ یہ کتاب 1996 میں چھپی تھی۔اس کے صفحہ نمبر60 اور61 پر آنند صاحب کے جو کوائف درج ہیں ان کی رو سے وہ24 اپریل 1931 کو پیدا ہوئے ۔ انہوں نے 1982 میں کینیڈا اور امریکہ کا سفر کیا۔اگر ڈاکٹر نارنگ صاحب کی کتاب کے مندرجات درست ہیں تو اس کے مطابق ستیہ پال آنند صاحب 1982 میں امریکہ اور کینیڈا گئے تھے۔1981 میں کہیں نہیں گئے تھے۔چنانچہ ان کی پچاسویں سالگرہ وینکوور میں نہیں ،انڈیا میں ہی گزری تھی۔سو یہاں 51 ویں سالگرہ ہو سکتی ہے ، پچاسویں نہیں ۔
دوسری بات 1981-1982 میں ستیہ پال آنند اردو میں شاعری نہیں کرتے تھے۔انگریزی اور بعض دوسری زبانوں میں کرتے تھے۔چنانچہ "دست برگ " کسی اور زبان میں کہی گئی ہو گی۔اس کا ثبوت بھی ڈاکٹر نارنگ صاحب کی مذکورہ کتاب سے مل رہا ہے۔اس کتاب میں آنند صاحب کا اردو شاعر کی حیثیت سے کوئی ذکر نہیں ملتا۔ صرف فکشن رائیٹر ہونے کا ذکر ملتا ہے۔
ان کی مطبوعہ اردوکتب میں افسانوں کے چار مجموعوں اور چار ناولوں کے نام درج ہیں ۔اردو شاعری کا کوئی بھی حوالہ نہیں ہے۔نارنگ صاحب کی مرتب کردہ یہ 1996 کی مطبوعہ کتاب ہے۔گویا ستیہ پال آنندجب 65 سال کے ہو چکے تھے تب تک ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی نگاہ میں ان کے اردو شاعر ہونے کی کوئی پہچان نہیں بنی تھی۔ابھی ان دو امور کی طرف توجہ دلا رہا ہوں ۔شاید ستیہ پال آنند کوئی وضاحت کریں تو حقیقت بہتر طور پر واضح ہو جائے ۔ستیہ پال آنندکو کچھ بھی لکھتے وقت خیال رکھنا چاہئے کہ اب وہ اتنے "اہم "ہو گئے ہیں کہ ان کے لکھے ہوئے ہر لفظ پر محققین کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں ۔
سرِ دست یہ دوامور بیان کر دیئے ہیں شاید مجھے اس حوالے سے مزید بھی کچھ تحقیقی کام کرنے کا موقعہ مل جائے ۔وما توفیقی الا باللہ ۔
آپ کا مخلص
حیدرقریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید آگے بڑھنے سے پہلے یہاں ’’ہندوستان کے اردو مصنفین اور شعرا‘‘ مرتب کردہ گوپی چند نارنگ اور عبداللطیف اعظمی۔سلسلۂ مطبوعات اردو اکادمی،دہلی۔۔۹۶۔ سال اشاعت 1996
کے صفحہ نمبر 60 اور61 پر ستیہ پال آنند کے بارے میں یہ کوائف دیکھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ نمبر 60
آنند،ستّیہ پال
والد کا نام: رام نارائن آنند
تاریخ پیدائش: ۲۴؍ اپریل ۱۹۳۱ء،کوٹ سارنگ (اٹک) پاکستان
پتہ: ۹۲ ؍ ۱ ۔E ، سیکٹر ۱۴ پنجاب یونیورسٹی۔چنڈی گڑھ ۱۶۰۰۱۴
تعلیم: پی ایچ ڈی
مشاغل،ملازمت: درس و تدریس،پروفیسر اور صدر شعبۂ انگریزی ڈی سی سی پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ
تصانیف: (۱) جینے کے لیے (افسانے) ۱۹۵۵ء
(۲) دل کی بستی (افسانے) ۱۹۵۸ء
(۳) کالے کوس (افسانے) ۱۹۶۵ء
(۴) پچاس اور ایک (افسانے) ۱۹۷۵ء
(۵) موت،عشق اور زندگی (ناول) ۱۹۵۷ء
(۶) صبح،دوپہر،شام (ناول) ۱۹۵۹ء
(۷) آہٹ (ناول) ۱۹۶۰ء
(۸) اپنے مرکز کی طرف (ناول) ۱۹۷۲ء
بیرونی ممالک کا سفر: (۱) دورۂ روس ۱۹۸۰ء
صفحہ نمبر 61
(۲) امریکہ اور کنیڈا ۱۹۸۲ء
(۳) تھائی لینڈ ۱۹۸۳ء
(۴) امریکہ اور کنیڈا ۱۹۸۵ء
(۵)انگلینڈ،جرمنی،فرانس ۱۹۸۶ء
اعزازات،انعامات: (۱) پنجاب سرکار کا اعزازی ایوارڈ ۱۹۶۸ء
(۲) کینیڈین پوئیٹری ایوارڈ(انگریزی نظمیات کے مجموعے پر) ۱۹۸۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک ان سارے حقائق کی دستیابی کے بعداب میں کہہ سکتا ہوں کہ ستیہ پال آنند کے بارے میں میری طرف سے ’’ستیہ پال آنند کی ’’۔۔۔بُودنی،نابُودنی‘‘ کے بعض مضامین میںفراہم کردہ ٹھوس شواہد کے ساتھ جو امکانی باتیں کی گئی تھیں وہ ساری بھی باری باری درست ثابت ہوتی جا رہی ہیں۔اسی کی دَہائی میں آنند صاحب اردو میں شاعری نہیں کرتے تھے۔دوسری زبانوں میں شاعری کرتے تھے ۔سو ’’دست برگ‘‘ کس زبان میں لکھی (یا بُنی) تھی،اس کی وضاحت آنند صاحب ہی کر سکتے ہیں۔اگر بالفرض یہ اردو میں لکھی تھی تو پھر اُسی زمانے میں یہ نظم جس اخبار یا رسالے میں چھپی ہو اس کا حوالہ عنایت کردیں۔ باقی تحقیق ؍تصدیق میں خود کر لوں گا۔
اسی طرح ان کے 1982 ء میں کینیڈا کے سفر کے بعد 1983 ء میں ان کی’’انگریزی نظمیات کے مجموعے پر‘‘ انہیں ’’کینیڈین پوئیٹری ایوارڈ‘‘دیا جانا ان کی اپنی ہی کاری گری لگ رہی ہے۔پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ’’کینیڈین پوئیٹری ایوارڈ‘‘دینے والے ادارے کا کیا نام ہے؍تھا؟۔۔۔ 1983 میں اسے کون لوگ چلا رہے تھے؟۔۔۔۔کیا یہ اب بھی قائم ہے؟۔۔۔۔۔قائم ہے تو اسے کون لوگ چلا رہے ہیں؟۔۔۔۔یہ معلوم ہو جائے تو پھر حقیقت تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ ادارہ آنند صاحب سے پہلے اور ان کے بعد اب تک کتنی کتابوں پر ایوارڈز دے چکا ہے۔ایسا نہ ہو کہ بس ایک ہی ایوارڈ دینے کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا اوراس کارِ خیر کے بعد یہ ادارہ ہی بند کردیا گیا ہو ۔ دوسری بات یہ کہ ستیہ پال آنند صاحب کی انگریزی شاعری کی اس عظیم کتاب کا نام اور اس کی نظمیں بھی سامنے لائی جانی چاہئیں جن پر انہیں آج سے ۳۵ سال پہلے کینیڈا میں ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔یہ سارے سوالات پوچھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ میں نے اپنے طور پر گوگل سرچ میں اس ایوارڈ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تو وکی پیڈیا کے اس لنک پر کچھ معلومات ملی۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/1983_in_poetry
یہاں 1983 میں تین ہندوستانی شعراء کو انگریزی شاعری پر ایوارڈز دینے کا ذکر ہے اور ان تینوں کے کتابوں سمیت یہ نام درج ہیں۔
India in English
Jayanta Mahapatra Life Signs ( Poetry in English ) New Delhi: Oxford University Press[9]
Dom Moraes Absences ( Poetry in English )
Sudeep Sen Leaning Against the Lamp-Post ( Poetry in English )[10]
پھر یہیں پر 1983 میں کینیڈا سے دئیے جانے والے دیگرایوارڈز کی لسٹ کے لنک بھی دئیے گئے ہیں۔وہاں بھی جا کر ڈھونڈا لیکن جناب ستیہ پال آنند کا اسمِ گرامی کہیں نہیں ملا۔ان کا نام اور ایوارڈ تو اردو شاعری کی روایتی محبوبہ کی کمر ہو گیا ہے۔ ؎ کہاں ہے، کس طرف کو ہے،کدھر ہے؟
البتہ گوگل سے ایک ہندوستانی ڈاکٹرستیہ پال کا نام ملا ہے۔یہ ماہرِ تعلیم بھی ہیں۔انگریزی میں شاعری بھی کرتے ہیںلیکن ان کا تعارف ’’ہمارے ستیہ پال آنند ‘‘سے بالکل مختلف ہے۔
Dr Satya Paul Founder of Appejay University Social Worker Poet
ڈاکٹر ستیہ پال Founder of Appejay Universityہیں اور ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی بڑی اہم خدمات ہیں۔مذکورہ یونیورسٹی کا نام لکھ کر گوگل میں ان کی گراں قدر خدمات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔لیکن ’’ہمارے ستیہ پال آنند ‘‘کا نام نہ تو کسی انگریزی انعام کی نامزدگی میں ملتا ہے،نہ انعام یافتگان میں ملتا ہے۔Appejay University والے ستیہ پال کی انگریزی شاعری کے جینوئن حوالے دیکھنے کے بعد شک ہوتا ہے کہ کہیں ستیہ پال آنند نے ان سے ملتے جلتے اپنے نام کا دیدہ دانستہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش تو نہیں کی۔ملتے جلتے ناموں سے دھوکہ مت کھائیے۔
ایک اور لنک www.satyapaul.comپرشاعری کی بجائے ساڑھیاں ملی ہیں۔ستیہ پال کی ساڑھیاں۔ویسے یہ ساڑھیاں ستیہ پال آنند کی پینسٹھ سال کی عمر کے بعد کی جانے والی شاعری سے بدرجہا بہتر لگ رہی ہیں۔ان کی منہ بولی بیٹیاں،بہنیں،بھانجیاں،بھتیجیاں وغیرہ بھی ان ساڑھیوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہیں گی۔
ایک شکوۂ اربابِ وفا۔۔۔۔اب ستیہ پال آنند صاحب اپنی کسی کتاب میں اپنے مذکورہ بالا افسانوں کے چار مجموعوں اور چار ناولوں کے نام شائع نہیں کرتے۔نہ صرف انہیں اپنی فکشن کی ان آٹھ کتابوں کا ذکر کرتے رہنا چاہئے بلکہ ان کے نئے ایڈیشنز کی اشاعت کا اہتمام بھی کرنا چاہئے۔اگر وہ ان آٹھوں کتابوں کی اردو میں کمپوزنگ کاانتظام کرکے مجھے فراہم کر دیں تو میں خود ان آٹھ کتب کی اشاعت کی کوئی بہتر صورت نکال لوں گا۔ورنہ ان سے گزارش ہے کہ ان کتابوں کی ایک ایک کاپی یا ان کی فوٹو کاپیاں یا سکین شدہ کاپیاں ہی فراہم کر دیں،میں اس ’’نایاب‘‘نثری خزانے کو انٹرنیٹ پر ہی پی ڈی ایف فائل میں فراہم کر دوں گا۔یہ ان کی ساری زندگی کی تخلیقی نثری کمائی ہے اسے یوں ہی ضائع نہیں ہو جانا چاہئے۔ اگر پینسٹھ برس کی عمر تک کی نثری کمائی یونہی ضائع ہو گئی تو یہ بڑا نقصان ہو گا۔
ایک اور گزارش یہ ہے کہ ستیہ پال آنند اردو شاعری کی طرف آنے سے پہلے جو انگریزی،ہندی اور پنجابی شاعری کرتے رہے ہیں،اس ساری شاعری کو بھی من و عن کلیات کی صورت میں سامنے لائیں ۔ یہ ایک نہایت قیمتی ریکارڈ ہے اس کو ضائع نہیں ہوجانا چاہئے۔میرا حُسنِ ظن ہے کہ اپنی انگریزی،ہندی اور پنجابی کی اُن پرانی نظموں میں بھی ستیہ پال آنند نے ضرور چند نعتیں کہہ رکھی ہوںگی،ان کے سامنے آنے سے ان سب کے منہ بند ہو جائیں گے جو کہتے ہیں کہ ستیہ پال آنند اردو میں نعتیہ رنگ کی نظمیں صرف اس لیے لکھتے ہیں تاکہ اردو کے پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں سے داد وصول کر سکیں ۔کم از کم نعتیہ کلام کے حوالے سے تو شہرت کے حصول کے شارٹ کٹ کا الزام غلط ثابت ہو جائے گا۔لیکن اس کے لیے ان کی پرانی انگریزی،ہندی اور پنجابی شاعری کا من و عن منظرِ عام پر لانا ضروری ہے ۔تاہم اگر ان کی پرانی انگریزی،ہندی اور پنجابی شاعری میں کوئی نعت نہیں ملتی تو پھر یہ مزید واضح ہو جائے گا کہ ان کی نعت نگاری صرف اردو کی مسلم اکثریت سے داد اور شہرت بٹورنے کا ایک شارٹ کٹ ہے۔
بہر حال امید ہے ستیہ پال آنند صاحب اپنا اردو کا سارا نثری کام سامنے لانے کے ساتھ انگریزی،ہندی اور پنجابی کا سارا ادبی کام بھی ضرور منظرِ عام پر لائیں گے۔ یہ دونوں نیک کام وہ ضرور سر انجام دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری کتاب ’’ستیہ پال آنند کی ’’۔۔۔بُودنی،نابُودنی‘‘ کو یونی کوڈ میں اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔
http://punjnud.com/PageList.aspx?BookID=2896&BookTitle=Satya%20Pal%20Anand%20ki…Boodni%20Naa-Boodni
یہی کتاب پی ڈی ایف فائل میں پڑھنے کے لیے اس لنک کو کلک کریں۔
http://my27books.blogspot.de/2014/04/blog-post_4339.html
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“